عزیز قارئین کرام:بڑا عجیب وقت چل رہا ہے۔کیا ہورہا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ اور جنہیں سمجھ آرہا ہے وہ کچھ کر نہیں پارہے
ہیں۔اور جو کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ فسطائی طاقتوں کے ہتھے چڑھ رہے
ہیں۔ملک اور دنیا کے حالات دن بدن بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیںاوراندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ آنے والا وقت اس سے بھی ابتر ہوسکتا ہے۔جس کے بعد اب ہم اہل
ایمان کو مزید فکرکرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اہل وعیال کی کے ساتھ ایمان کے
بقا کی جانب بہت زیادہ توجہ اور فکر کی ضرورت ہے۔
دراصل عزیزو! میں جس موضوع کی طرف آپ کو لانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس
طرح سے پوری دنیا کے حالات تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔۔۔یہ ایسے ہی نہیں ہورہا
ہے۔ ۔۔ظالم جابرمکار،صیہونی اور دجالی قوتوں طاقتوں کو اللہ نے چھوٹ دے
رکھی ہے اور وہ پوری دنیا میں ایک منظم سازش اور ایک منصوبے کے تحت ادھم
مچارہے ہیں۔ ۔۔ ہوسکتا ہے یہ میری یہ باتیں آپ کی سمجھ سے بالاتر ہوں لیکن
یہ صحیح ہیں کہ دجالی پیروکاردجالی نظام کو پوری دنیا میں لاگو کردینا
چاہتے ہیں۔
ہوسکتا ہے آپ میں سے بہت ساروں نے یہ سنا ہوگا اور بہت ساروں کو اب بھی
پتہ نہیں ہے کہ آخر یہ دجالی نظام کیاہے؟کون اس کوپوری دنیا میں لاگو کرنا
چاہتےہیں؟ کون پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردینا چاہتا ہے۔؟
میرے عزیزو اس سے قبل بھی میرے بہت سارے مضامین میں نے ایک نظام کا ذکر کیا
تھا۔۔شاید آپ میں سے بہت سو کو یادبھی ہوگا کہ جس کا نام’’One Rule One
Nationیعنی کہ ایک ملک ایک نظام جس کو صیہونی اور دجالی کارندےNew World
Orderکہتے آئے ہیں۔دجالی کارندے آج سے قبل اس نظام کے بارے میں بہت چھپ
چھپا کر اشارے کنایوں میں باتیں کیا کرتے تھے۔ جس کے لئے مخصوص لوگوں کو
منتخب کیا جاتا تھا اور وہ دجالی نظام کومختلف پیرائیوں میں ڈھال کر ایک
قطبی نظام کی بات کیا کرتا تھے۔۔۔ہم نے دیکھا کہ یہ دجالی نظام کی بات کرنے
والے اور اس نظام کو پوری دنیاپر تھوپنے والے صیہونی جنھوں نے پہلے ایک
منصوبہ بند سازش کے تحت پوری دنیا کے فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے اداکار
اور ادکارائوں کے ذریعے اس نظام کی پبلسٹی کی پھر اس کے بعددنیا کے مختلف
مکتب فکر کے افرادکو استعمال کیاپھر مختلف قسم کے شعبوں میں کام کرنے والے
دنیا بھر کے مشہور افرادکو دجالی نظام کو پروموٹ کرنے کے لئے منتخب کیا
اورپھر ہم نے دیکھا کہ اس نظام کا پرچار نہ کرنے پر جان سے ماردئے جانے کی
دھمکیاں بھی ملی اور بہت سارے مارے بھی گئے۔
خیر اتنی طویل تمہید باندھنے کا مقصد یہی تھا آپ کوباور کرادوں کہ اس
جمہوری ملک میں یہودیوں کے آلہ کار اسی یک قطبی نظام One Rule One
Nationکو لاگو کرنے کے در پے ہیں اس کی باتیں میڈیا کے ذریعے مختلف پیرائے
سے کی جارہی ہے۔ لوگوں کو خوف وہراس میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ اب سے پہلے تک
یونیفارم سول کوڈ کو ایک سیاسی شوشہ قرار دیا جاتا رہا ہے مگر اب مرکزی
حکومت نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ یونیفارم سول کوڈ لے کرہی آئے گی ، یہ اس
کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہےاور یہ کہ مرکزی حکومت کسی بھی وقت یہ بل پارلیامنٹ
میں پیش کر سکتی ہے۔
ونیفارم سول کوڈ (Uniform Civil Code) کے تحت ہندوستان کے لیے ایک قانون کی
تشکیل کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ جو شادی، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے
معاملات میں تمام مذہبی برادریوں پر یکساں لاگو ہوگا۔ یہ ضابطہ آئین کے
دفعہ 44 کے تحت آتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہندوستان کے پورے علاقے
میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے گی۔ (state
shall endeavour to secure a Uniform Civil Code for the citizens
throughout the territory of India)
یہ مسئلہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے سیاسی بیانیہ اور بحث کا مرکز رہا ہے
اور بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے لیے ایک ترجیحی ایجنڈا ہے جو پارلیمنٹ میں
قانون سازی کے لیے زور دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں زعفرانی پارٹی سب سے پہلے
تھی جس نے اقتدار میں آنے پر یو سی سی کے نفاذ کا وعدہ کیا تھا اور یہ
مسئلہ اس کے 2019 کے لوک سبھا انتخابی منشور کا حصہ تھا۔
اس درمیان بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے ریاستی سطح پر تمام شہریوں کے
لئے یکساں قانون لانے کی ابتدائی کوششیں شروع کردی ہیں جن میں شمالی ہند کی
ریاست اتراکھنڈ کی کوششوں کو بنیادی مانا جا رہا ہے۔ وہاں پر اس کام کے لئے
ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور اس کے لئے ضروری رہنمائی مرکزی وزارت قانون
نے فراہم کی ہے، جس کا مطلب صاف ہے کہ مرکز کے پاس اس سے متعلق ضروری مسودہ
تیار ہے۔اترا کھنڈ کے بعد اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے علاوہ بی جے پی
حکومت والی دیگر ریاستیں اس کام میں آگے بڑھنے والی ہیں۔
مرکزی وزیر قانون کرن ریجیجو نے کچھ روز پہلے بلا کسی لاگ لپیٹ واضح کر دیا
ہے کہ “یونیفارم سول کوڈ لانابھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈے کا اہم حصہ رہا
ہے اور اسے ہر حال میں پورا کیا کائے گا۔اس سلسلے میں تیاری چل رہی ہے۔ یہ
قانون ضرور لایا جائے گا۔”
اس کے لئے کیا طریق کار اپنایا جائے گا، وہ بھی اب واضح ہوگیا ہے۔پہلے
ریاستی سطح پر قانون سازی ہوگی۔اس قانون سازی کے لئے ریاستی سطح پر کمیٹیاں
بنائی جا رہی ہیں اور آگے کام کرنے کے لئےخطوط کار بھی مرکز کی جانب سے
فراہم کئے جا رہے ہیں۔پہلے یہ بات سامنے آئی تھی کہ قومی سطح پر بنائے گئے
لا کمیشن سے رائے لی جائے،اس کے لئے 2020 میں لا کمیشن کی تشکیل جدید کی
گئی تھی مگر اس کے فعال نہ ہو پانے کے سبب اب ریاستی سطح پر کمیٹیاں تشکیل
دی جا رہی ہیں جو لا کمیشن ہی کے فارمیٹ میں کام کر رہی ہیں۔ ایک بار جب
ریاستیں اس سلسلے میں قانون سازی کر لیں گی تو انہیں مرکزی قانون میں شامل
کر لیا جائے گا کیونکہ یکسانیت لانے کے لئے مرکزیت ضروری ہے۔ ریاستوں میں
اس سلسلے کی قانون سازی کو ایک ٹرائل کے طور پر دیکھاجا رہا ہے۔
دعوی کیا جاتا ہے کہ اس قانون کے ذریعہ ملک کی عدالتوں میں چل رہے ۲۰ فیصد
مقدمات ختم ہو جائیں گے ملک میں بسنے والی مختلف مذہبی، لسانی اور تہذیبی
اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی اور قربت بڑھے گی ،مختلف قبائل اور آدی باسی
گروپس کو قومی دھارے میں آنے میں مدد ملے گی اور “ہندوستانیت” کو فروغ ملے
گا۔ اس طرح کا دعوی کرنے والے یہ دلیل بھی پیش کرتے رہے ہیں کہ سیکیولر
ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر الگ الگ قوانین کا وجود ملک کے سیکیولر تانے
بانے سے میل نہیں کھاتا اور اسی وجہ سے ملک کے دستور سازوں نے دستور میں
دفعہ 44 کا بھی اہتمام کیا تھا جو یہ کہتی ہے کہ “ملک کے تمام شہریوں کے
لئے ایک کامن سول کوڈ بنایا جائےگا” چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ کامن سول
کوڈ لایا جائے۔
ہندوستانی مسلمانوں کا خیال ہے کہ بنیادی طور پر اس قانون کا ہدف ہندوستان
میں بسنے والی سب سے بڑی اقلیت “مسلمان” ہی ہیں۔ان کا یہ خیال اس لئے بھی
ہے کہ ہندوستان میں مسلم مخالف سیاسی گروہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ انداز
میں پیش کرتے رہے ہیں اور اسے عوامی سیاست میں اپنی گرفت کو مضبوط بنانے
اور اقتدار تک پہنچنے کے لئے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے رہنے کے سبب اسے
اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا۔
مسلم پرسنل لاء بورڈکے سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کہتے ہیں
کہ مسلمانوں کو تو یونیفارم سول کوڈ پر اعتراض ہے ہی ؛ لیکن اگر غور کیا
جائے تو عملی طورپر خود اکثریتی فرقہ بھی اس کو قبول نہیں کرے گا، ہندوؤں
کی مختلف ذاتیں ہیں اور نکاح وغیرہ کے سلسلہ میں ان کے الگ الگ طریقے ہیں ،
ایسا نہیں ہے کہ ملک کے سارے ہندوؤں کا ایک ہی طریقہ ہو ، حد تو یہ ہے کہ
وہ اپنے بنیادی عقائد اور عبادات کی باتوں میں بھی یکساں نہیں ہیں ، کوئی
مورتی پوجا کا قائل نہیں ہے ، کوئی قائل ہے ، کوئی راون کو بُرا بھلا کہتا
اور رام کو پوجتا ہے ، کوئی رام کو بُرا بھلا کہتا ہے اور راون کی پرستش
کرتا ہے ، خود نکاح کے سلسلہ میں دیکھیں کہ شمالی ہند میں ماموں اور بھانجی
کے درمیان نکاح کا تصور نہیں ؛ لیکن جنوبی ہند میں بہن کا اپنے بھائی پر حق
سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرلے ، قبائلوں کے یہاں خاندانی
رسم و رواج بالکل مختلف ہیں ، آج بھی بعض قبائل میں ایک مرد ایک درجن سے
زائد عورت سے نکاح کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ ابھی بھی ایسی رسمیں پائی جاتی
ہیں کہ ایک عورت ایک سے زیادہ مرد کے نکاح میں ہوتی ہے ، جس ملک میں مذاہب
اورتہذیبوں کا اس قدر تنوع پایا جاتا ہو ، وہاں ایک ہی قانون تمام گروہوں
کے لئے کیسے مناسب ہوسکتا ہے ؟
یونیفارم سول کوڈ کو لے کر مسلمانوں کی حساسیت اور ان کے اس احساس کے سبب
کہ اس کا ’’اصل ہدف مسلمان ہی ہیں‘‘ ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ
وہ کیا کریں۔ مگر اس سے بڑا سوال ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ملک کے عوام کیا
کریں؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہندوستان مختلف ومتنوع مذاہب و ثقافت اور
تہذیبی روایات رکھنے والا ملک ہے۔ اسی کے سبب اس کی شناخت اور خوبی ’کثرت
میں وحدت‘ رہی ہے۔ حقیقت میں یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ ملک
میں بسنے والی ان تمام مذہبی، تہذیبی اور روایات کو برتنے والی اکائیوں کا
ہے جن کا مضمون میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس حیثیت سے یہ مسئلہ پورے ملک اور اس
وفاق کی تمام اکائیوں کا ہے اس لیے اس سلسلے میں سب کو بیدار ہونے اور
بیدار کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح یہ معاملہ ہندوستان
میں سیکولرزم کی بنیادوں کو مضبوط کرنے سے زیادہ ایک خاص مذہب کی تہذیب و
ثقافت کو ملک کے تمام باشندوں پر ازراہِ قانون تھوپنے کی کوشش کے تناظر میں
زیادہ دیکھا جائے گا اور دیکھا جانا چاہیے۔ ایسے میں ملک کے اس بڑے طبقے کو
بھی بیدار ہونا چاہیے جو شدت پسند ہندو مذہبی نظریات کی تائید نہیں کرتا
اور ملک کو ایک سیکولر روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ آخری وقت تک اس کے
مخالف رہیں گے اور ان کی یہ کوشش ہوگی کہ اس ملک میں بسنے والے تمام مذاہب
کے افراد اور تمام تہذیبی اور ثقافتی اکائیوں کی مذہبی و تہذیبی آزادی
باقی رہے۔ اس کے لیے وہ قانونی جدوجہد بھی کریں گے اور عوامی رائے بنانے کی
بھی کوشش کریںگے اور یہ کوشش ان تمام اکائیوں کی طرف سے بھی ہونی چاہیے جو
اس کے اسٹیک ہولڈرس ہیں۔ لیکن اگر پارلیمنٹ میں اکثریت کے بل پر کوئی ایسا
قانون بن بھی جاتا ہے تو مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دین محض چار
شادیوں اور ان چند مسائل تک محدود نہیں جو مسلم پرسنل لا میں آتے ہیں۔ اس
کے علاوہ دین کا بڑا حصہ ان کے لیے باقی ہے۔ جس پر عمل کرنے سے کوئی روک
نہیں سکتا۔
اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یونیفارم سول کوڈ کے ذریعہ وہ ہندوستان سے
اسلام کا خاتمہ کرسکتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کائنات مسلسل
گردش میں ہے اور وقت کا پہیہ کس جگہ ٹھہرے گا نہیں معلوم۔ سوویت روس جس نے
لوگوں کے دلوں سے اسلام کو کھرچنے کی کوشش کی، اب بدل رہا ہے اور اسلام روس
کا دوسرا بڑا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے
مایوسی سے ز یادہ یقین محکم اور عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ ومکروا ومکر اللہ۔
ہم نہیں جانتے کہ حالات کب اور کیسے بدل جائیں؟
کامن سول کوڈ کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہئے اس پر نوے کی دہائی میں ملک میں
ڈبیٹ ہو چکا ہے۔اس وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ”یہ کامن سول کوڈ اختیاری
ہوگا۔” سول کوڈ کا ہونا اور اختیاری ہونا کیا معنی رکھتا ہے! چنانچہ اس
تصور کو اس وقت رد کر دیا گیاتھا۔
جہاں تک ۲۰ فیصد مقدمات کے خاتمے،مذہبی و تہذیبی اکائیوں کے درمیان قربت و
ہم آہنگی،آدی باسی قبائل کو قومی دھارے میں لانے اور “ہندوستانیت” کے
جذبے کو فروغ ملنے کی بات ہے تو یہ کہنا کافی ہوگا کہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو
حکومتوں سے سنجیدہ، مخلصانہ اور تفریق کے نظریے سے اوپر اٹھ کر کوششوں کی
متقاضی ہیں اور محض قانون سازی کے ذریعہ ان کے حصول کا خواب دیکھنا اور
عوام کو دکھانا کسی خواب پریشاں سے زیادہ نہ ہوگا۔
خیر حکومت کے مطابق یو سی سی کا مقصد کمزور طبقوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے
جیسا کہ امبیڈکر نے تصور کیا تھا بشمول خواتین اور مذہبی اقلیتیں، جبکہ
اتحاد کے ذریعے قوم پرستی کو فروغ دینا ہے۔ جب یہ ضابطہ نافذ ہو جائے گا تو
ان قوانین کو آسان بنانے کے لیے کام کرے گا جو اس وقت مذہبی عقائد کی بنیاد
پر الگ کیے گئے ہیں جیسے ہندو کوڈ بل، شریعت قانون، اور دیگر۔
میرے عزیزو میں آپ کو بتادوں کہ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کیسنجر نے
کہاکہ دنیا کے حکمرانوں کو کورونا وائرس کے بعد کے نئے ورلڈ آرڈر کے لیے
تیار ہونا پڑے گا۔تیار کیا ہونا پڑے گا انہیں بات ماننی ہی پڑے گی۔ اور اگر
نہیں مانے تو وہ اپنی تباہی کے لئے تیار رہیں۔۔۔
لیکن فی الحال مسئلہ نیو ورلڈ آرڈر کا ہے جسے اسرائیلی صیہونی اور دجالی
کارندے پوری دنیا پر لاگو کرنے کے لئے جی جان سے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔اور اس
پرمزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مودی اس نظام کے بنانے اور چلانے والوں کی صف
میں آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ااور اندھ بھکت بھی آنکھ بند کرکے اس کی ہاں میں
ہاں ملانے میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ اندھ بھکتوں کے گھروں میںگزشتہ
کرونادور میں روزآنہ کوئی نہ کوئی ضرور مرر رہاتھا اور وہ Stand with
Israilکا نعرہ دینا نہیں چھوڑرہے ہیں۔۔۔۔خیردنیا میں کتنے بھی نظام اور
ترقیاتی منصوبے تیار ہوجائے۔۔۔اسلام کا مقابلہ کوئی نہیںکرسکتا۔۔۔کیونکہ یہ
طے ہے کہ آج دنیائے انسانیت جن مشکلات سے دوچار ہے، میرا ایمان اور عقیدہ
ہے اگر دنیا کے کسی حصہ میں ایک حصہ کی حکومت بھی اسلام کے نظام کو صحیح
طور پر نافذ کر کے اس کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دے تو دنیا پیاسی ہے،
دنیا ترس رہی ہے کسی اچھے نظام کو، اس نظام کا مقابلہ کرنا پھر کسی کے بس
میں نہیں ہوگا۔ اور یہ بات وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اسلام صحیح معنوں میں
نافذ ہوا تو ایک نمونہ آئے گا، ایک مثال سامنے آئی گی، اور پھر یہ جتنے
جھوٹے نظام ہیں ان کے لیے راستہ چھوڑے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔
کیونکہ روشنی جب آتی ہے تو تاریکی کے لیے بھاگنے کے سوا کوئی راستہ باقی
نہیں کر رہ جاتا۔
اس لئے دوستو ہمارے پاس ایک بہترین نظام ہے ایک بہترین دین ہے زبردست مذہب
اسلام ہے۔۔اور ان سب سے بڑھ کر دنیا کے سب سے بہترین استاد،بہترین
رہبر،بہترین سیاستداں،بہترین کمانڈر،زبردست اعلی اخلاق والی شخصیت سرکار
دوجہاں سرورکونین سید محمد ﷺکی تعلیمات موجود ہیں جو ہمیں ہر فتنہ فساد ،شر
،تکلیف اور پریشانی سے بچانے کا طریقہ بتاتی ہے لہذا ڈرنے اور گھبرانے کی
ضرورت نہیں ہے اللہ کے رسول کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں کوئی ہماراکچھ
نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔۔اور ایک خاص بات جو میں ہمیشہ کہتے آیا ہوں کہ ہمیشہ
باوضو رہا کیجئے۔ نمازوں کی پابندی کیجئے۔جمعہ کو مکمل سورہ کہف پڑھا کیجئے
اور روزآنہ دن کی شروعات میں سورہ کہف کی ۱۰ آیتیںضرور پڑھا کیجئے۔ گھر
سے نکلنے سے قبل آیت الکرسی اور دعائیں پڑھنے کا اہتمام توضرور کیجئے گا
ہی ساتھ میں صدقات خیرات کریں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے
رکھیں۔۔۔انشاء اللہ آپ تمام فتنوںسے محفوظ رہینگے۔۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ تمام کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔۔۔ہرمصیبت
پریشانی اور بیماری سے بچائے رکھے۔۔دجال کے فتنوںاور شرسے امت مسلمہ کی
حفاظت فرمائے۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔۔زندگی باقی توبات باقی۔۔۔رہے نام اللہ
کا۔۔۔اللہ حافظ اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
|