ملک غلام محمد(تیسرے گورنر جنرل) ٭٭٭ قسط چہارم٭٭٭مولوی تمیزالدین کیس۔۔وَن یونٹ

پاکستان کے سربراہان ِمملکت٭باب4٭
غلام محمد نے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود ساری زندگی اپنا ذاتی گھر نہیں بنوایا تھا۔لہذا بیماری کے باعث اپنی زندگی کے آخری ایام اپنی بیٹی بیگم اقبال کے گھر گزارے۔ بیٹا انعام نیشنل بنک میں عام حیثیت سے ملازم تھا ۔۔۔۔۔

غلام محمد،پنڈت نہرو، محمد علی بوگرہ، ایوب خان، قدرت اللہ شہاب اور رُوتھ بورل

گورنر جنرل ملک غلام محمد (1895ء ۔ 1956ء)
تحقیق و تحریر:عارف جمیل

مولوی تمیزالدین کیس۔۔وَن یونٹ٭ قسط چہارم٭



دستور ساز اسمبلی کے سپکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کی آئینی حیثیت کو نہ مانتے ہوئے بڑی جرات کے ساتھ دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد کروانے کی کوشش کی لیکن چونکہ گورنر جنرل غلام محمد نے آئینی حیثیت سے اسمبلی توڑی تھی لہذا وزارت ِ داخلہ نے اجلاس نہ ہونے دیا جس پر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل غلام محمد کے دستور ساز اسمبلی اور کابینہ توڑنے کے اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ہائی کورٹ نے فیصلہ مولوی تمیز الدین کے حق میں دے دیا لیکن اس پر حکومت نے اپیل سپریم کورٹ میں کر دی۔ جس پر چیف جسٹس محمد مُنیراحمد نے یہ حُکم جاری کیا کہ کیونکہ گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی منسوخ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ نئی اسمبلی منتخب کرنے کیلئے قدم اُٹھایا جائے گا اور مولوی تمیز الدین کا مقصد بھی ایک نمائندہ اسمبلی کا احیاء ہے لہذا نئے انتخابات ہی اس مقدمے کا بہترین حل ہیں۔ اسطرح چیف جسٹس محمد مُنیر احمد نے فیصلہ گورنر جنرل غلام محمد کے حق میں دے دیا۔ اس دوران کچھ تنظیموں نے غلام محمد کو "محافظ ِ ملت" کا خطاب بھی دے دیا۔
جن دنوں گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کی عدالتی کاروائی ہو رہی تھی ان ہی دنوں غلام محمد اور محمد علی بوگرہ کی حکومت نے مغربی پاکستان کے صوبائی یونٹوں کو متحد کرنے کیلئے ون یونٹ کی تجویز کو عملی شکل دینے کی کو ششیں شروع کر دیں۔ غلام محمد ہی " ون یونٹ" تجویز کے بانی تھے لہذا اُنھوں نے اس سلسلے میں صوبائی رہنماؤں سے گفت و شنید کر کے 22ِنومبر 1954ء کو وزیر اعظم بوگرہ کے ذریعے ریڈیو پر اعلان کروا دیا کہ پورے مغربی پاکستان کو واحد صوبے کی شکل میں اکٹھا کیا جائے گا۔ اس اعلان پر سیاسی رہنماؤں اور عوام کی طرف سے مُثبت اور منفی دونوں طرح کے ردِعمل سامنے آئے لیکن سندھ کے وزیراعلیٰ پیرزادہ عبدالستار نے جب ون یونٹ کی تجویز کی کچھ زیادہ ہی مخالفت کی تو اُنھیں وزارت ِاعلیٰ کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے جلد ہی مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کو ون یونٹ پر متفق کر لیا اور 20 ِمارچ 1955ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایک آرڈی ننس کے ذریعے پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے صوبہ مغربی پاکستان قائم کرنے کا خصوصی اختیار حاصل کر لیا۔ لیکن اس مرحلے پر فیڈرل کورٹ سے محمد یوسف پٹیل اور بعض دیگر افراد نے اپنی اس اپیل پر کہ دستور ساز اسمبلی کے بغیر گورنر جنرل اپنے حکم سے پاکستان کے آئین میں اس قسم کی ترمیم کے مجاز نہیں ہیں، فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا۔جس پر غلام محمد کو ون یونٹ کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کا پابند ہونا پڑا۔
گورنر جنرل غلام محمد کے حکم کے مطابق جون 1955ء میں نئی دستور ساز اسمبلی تو منتخب ہو گئی لیکن ابھی یہ طے نہیں پایا تھا کہ پاکستان کا وزیر اعظم کون بنے گا کیونکہ غلام محمد کی دماغی کیفیت اور ان کا موڈ انتہائی غیر یقینی ہو چکا تھا جس کا علم اُس وقت صرف اسکندر مرزا، ایوب خان، چوہدری محمد علی، اُنکے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب اور اُنکے معالج کرنل سرور کو تھا۔ لہذا ان لوگوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ان حالات میں گورنر جنرل غلام محمد سے استعفیٰ لے لینا بہتر ہے لیکن سب یہ بھی جانتے تھے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ پھر اچانک چوہدری محمد علی نے پیش قدمی کر کے غلام محمد کو اس بات پر راضی کر لیا کہ اُنھیں اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے دوماہ کی چُھٹی لیکر آرام کرنا چاہیئے اور اس کے ساتھ ہی گورنر جنرل غلام محمد سے چُھٹی کی درخواست پر دستخط کروا لیئے۔
چوہدری محمد علی نے کابینہ کے سامنے گورنز جنرل کی چُھٹی کی یہ درخواست یکایک اس تجویز کے ساتھ پیش کر دی کہ برطانیہ کی ملکہ معظمہ الزبتھ سے سفارش کی جائے کہ وہ گورنر جنرل غلام محمد کی چُھٹی کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسکندر مرزا کو پاکستان کا قائم مقام گورنر جنرل مقرر کر دیں۔ اگلے ہی دن منظوری آ گئی جس پر 6 ِستمبر 1955ء کو غلام محمد ملک سے باہر علاج کروانے چلے گئے اور7ِ ِستمبر1955ء کو اسکندر مرزا نے پاکستان کے قائم مقام گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا۔
غلام محمد اپنے علاج کیلئے پہلے لندن کے ایک کلینک میں رہے اور پھر جب طبیعت بہتر نہ ہوئی تو سویزر لینڈ علاج کروانے چلے گئے۔ وہاں بھی جا کر جب طبیعت نہ سنبھلی تو پاکستان واپس آگئے۔ 9 ِستمبر 1955ء کو اُنھوں نے گورنر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ جو 6ِ ا کتوبر 1955ء کو موثر ہوا اور پھر غلام محمد سرکاری رہائش گاہ سے کراچی میں اپنی بیٹی اقبال کے گھر واقع کلفٹن منتقل ہوگئے اور قائم مقام گورنر جنرل اسکندر مرزا پاکستان کے نئے گورنر جنرل مقرر ہو ئے۔
غلام محمد جتنی مدت گورنر جنرل کے عہدے پر رہے اپنی بیماری کے باوجود اپنے رعب و دبدبے میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دی۔ چاہے اُنکے ذاتی جاننے والے ہوتے یا سرکاری، سلوک نرمی کے وقت انتہائی نرم اور غصے کے وقت انتہائی سخت۔ بلکہ اُنکی سختی میں بے رحم قسم کی صاف گوئی اور دُرشت مزاجی ایسی تھی جو سب خوبیوں پر پانی پھیر دینے کیلئے کافی ہو۔ گورنر جنرل ہاؤس میں قیام کے دوران اُنکے پاس زیادہ تر صرف اُنکی بیٹی بیگم اقبال اور اُنکے داماد حسین ملک ہی ملنے آتے تھے۔ بلکہ غلام محمد اپنی بیٹی کو تو اپنے ساتھ سرکاری ضیافتوں میں بھی لے جاتے۔ بیٹا انعام جو اُن دنوں نیشنل بنک میں عام حیثیت سے ملازم تھا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کراچی میں ایک الگ مکان میں رہتا تھا اور کبھی کبھی اپنے والد سے ملنے گورنر جنرل ہاؤس آتا تھا۔ دونوں باپ بیٹا اپنے معاملات میں اتنے خود دار تھے کہ نہ تو غلام محمد سے انعام کو کوئی مالی فائدہ ملتا تھا اور نہ ہی انعام غلام محمد سے اُنکے عہدے کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے اُن سے ذاتی فائدہ اُٹھانے کے حق میں تھے۔
غلام محمد سے اگر کوئی کُھل کر بات کرتے تھے تو وہ اُنکی بیوی کے بھانجے ریاض تھے جنہوں نے بچپن اور لڑکپن میں اُنکے ساتھ وقت گزارہ ہوا تھا اور اس لیئے وہ غلام محمد کی طبیعت کو سمجھتے تھے۔ غلام محمد اُنھیں کہا کرتے تھے کہ تمھارے میں یہ بے باکی اُنھیں اس لیئے پسند ہے کہ تم بھی علیگڑھ یونیورسٹی کے پڑے ہوئے ہو۔ غلام محمد کی والدہ اور بیوی اُنکے چھوٹے بھائی عبدالمجید کے ساتھ لاہور چھاؤنی میں رہائش پذیر تھیں۔ غلام محمد کو چونکہ اپنی والدہ سے بچپن سے ہی بہت عقیدت تھی اس لیئے جب بھی نجی دورے کے علاوہ اگر سرکاری دورے پر بھی لاہور آتے تھے تو اپنی والدہ کو ضرور مل کر جاتے تھے۔
غلام محمد گورنر جنرل ہاؤس میں ذاتی و سرکاری ضیافتیں کرتے رہتے تھے۔ جب ذاتی مہمان ہوتے تو کسی سرکاری کو مدعو نہ کیا جاتا اور جب سرکاری ضیافت کا اہتمام ہوتا تو پھر کسی ذاتی ملنے والے کو اجازت نہ ہوتی کہ وہ دوران ِ ضیافت اُن سے ملے یا ضیافت میں شامل ہو۔ اس کے علاوہ ہر ماہ طعام خانے و خوراک کی مد سے جو رقم بچ جاتی تو اُسے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کروانے کی بجائے ہر دوسرے یا تیسرے ماہ یتیم خانوں سے بچے بُلا کر اُس رقم سے اُن بچوں کی بھی ضیافت کرتے۔ غلام محمد اپنے دوست احباب کو تحفے تحائف بھیجتے اور خط و کتابت بھی کرتے لیکن ان سب پر اُٹھنے والے اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرتے اور سرکاری پیسے کو ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے۔ غلام محمد گورنر جنرل ہاؤس میں رہائش کے دوران ایک دن بھی پلنگ پر نہیں سوئے تھے بلکہ اُنکے آرام والے کمرے میں زمین پر گدے بیچھا کر گاؤ تکیے رکھ دیئے گئے تھے جس پر غلام محمد لیٹ کر آرام کرتے اور سوتے بھی اُنہی پر تھے۔
غلام محمد جسمانی اعتبار سے ناتواں ہوتے ہوئے بھی سرکاری و نجی دوروں اور سیر و تفریح کے بڑے شوقین تھے۔1953ء میں اُنھوں نے برطانیہ، امریکہ، عراق، مصر، ترکی اور سعودی عرب کے دورے کیئے اور جنوری 1955ء میں اُنھوں نے بھارت کا دورہ بھی کیا۔ غلام محمد کی زبان میں چونکہ بیماری کی وجہ سے لُکنت آ چکی تھی اس لیئے امریکہ کے دورے سے واپسی پر اپنے ساتھ" رُوتھ بورل" نامی ایک نیم امریکن لڑکی پرسنل سیکرٹری کے طور پر لے آئے جو اُنکی اُس بات کو جو کسی کو سمجھ نہ آتی خود سمجھ کر دوبارہ بولتی تھی۔ غلام محمد کا سعودی عرب کا دورہ کسی پاکستانی سربراہ ِمملکت کا پہلا سرکاری دورہ تھا جس سے پاکستان و سعودی عرب کی دوستی کی بنیاد پڑی تھی۔ اس دورے میں غلام محمد نے قیام مدینہ منورہ میں باب ِ جبریل کے عین سامنے والے گھر میں کیا تھا جسے شاہ عبدالعزیز بن سعود نے غلام محمد کو تحفے میں دے دیا تھا۔
اُنکا بھارت کا دورہ بھی کسی پاکستانی سربراہ ِ مملکت پہلا سرکاری دورہ تھا۔ اس میں اُنھوں نے بھارت کے رہنماؤں اور حکومت سے کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت کی اور اُنھیں یہ بھی کہا کہ اُنکی زندگی میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر لو ورنہ آئندہ سالوں میں یہ مسئلہ جلد حل ہونے والا نہیں ہے جس پر بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے غلام محمد کے ساتھ اس مسئلے کے حل کیلئے ایک زبانی معاہدہ کر لیا جس کے تحت کشمیر کی وادی میں ریفرنڈم کی حقیقت کو مان لیا گیا اور پنڈت نہرو نے کہا کہ وہ اس معاہدے کو ہندوستان کی کابینہ کے سامنے پیش کرنے کے بعد باقاعدہ طور پر سرکاری اعلان کریں گے لیکن بعد میں کابینہ نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا جس پر غلام محمد کو بہت دُکھ ہوا۔
غلام محمد کو ہندوستان کے اس سرکاری دورے میں حکومت ِ ہند نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ دیوا شریف میں حاجی وارث علی شاہ کے مزار پر حاضری دیں جس پر اُنھیں رنج ہوا اور پھر کچھ مدت بعد نجی دورے میں دیوا شریف جا کر مزار پر حاضری دی۔ اس دورے کا انتظام یو۔پی بھارت کی گورنر سروجنی نائیڈو نے کیا تھا اور غلام محمد نے لکھنؤ میں اُن ہی کو اپنی میزبانی کا شرف بخشا تھا۔ غلام محمد کو اپنے ان بزرگ کے ساتھ اس قدر عقیدت تھی کہ اُن کی ملفو ظات اور سوانح حیات شائع کروانے میں بھر پور دلچسپی لی تھی۔
غلام محمد نے ا علیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود ساری زندگی اپنا ذاتی گھر نہیں بنوایا تھا۔ لہذا بیماری کے باعث اپنی زندگی کے آخری ایام اپنی بیٹی کے گھر گزار ے تھے۔ ایک دن اچانک اُنھوں نے اپنے ڈاکٹر کرنل سرور سے کہا کہ وہ اُنکے لیئے ایک ہوائی جہاز چارٹر کروا دیں تاکہ دیوا شریف جا کر حاجی وارث علی شاہ کے مزار پر حاضری دے آئیں۔ ڈاکٹر کرنل سرور نے اُنکی صحت کی خرابی کے باعث اُنھیں اس کی اجازت نہ دی۔ اسکے بعد اپنی زندگی کے آخری روز بھی اُن کو ایک دفعہ پھر دیوا شریف جانے کی لگن لگ گئی لیکن اُس رات 29 ِ اگست 1956ء کو غلام محمد اس جہاں فانی سے رُخصت ہو گئے اور اگلے روز اُنھیں کراچی میں واقع گوروں کے قبرستان نامی قبرستان کے مسلمانوں والے احاطے میں دفن کر دیا گیا۔ جہاں فوجی دفن کیئے جاتے تھے۔
٭(جاری ہے)٭
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341670 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More