ہائبرڈ جمہوریت کا آغاز بھلےسیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ چرا کر دھاندلی کے زریعے سے کیا گیا ہو مگر اب یہ پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعتوں کا شوق یا مجبوری بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس کی وجہ مقبولیت کے بدلتے پیمانے ہوں یا بدحال معیشت مگر اب لگتا یوں ہے کہ سب اس کو کسی نہ کسی طرح سے چلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں مولانا فضل الرحمان کا بیان ہی لے لیجئے جس میں انہوں نے انتخابات پر معیشت کو ترجیح دینے کا اشارہ دیا ہے جس سے بظاہر تو یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ اب انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے اس کی وجہ گیلپ کا تازہ سروے بھی ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کا صحیح چہرہ دکھاتے ہوئے ،جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو آزادی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کے ساتھ ہو ،کوئی کام بنتا ہوا دکھائی نہیں دیتا وگرنہ عوامی نمائندہ حکومت کو التواء کا شکار کرنے کا کوئی ایسا منطقی پہلو سمجھ میں نہیں آتا۔ ان سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ شائد اگلی حکومت کا فیصلہ بھی کسی ہائبرڈ جمہوریت کی حکمت عملی کے تحت ہی کیا جارہا ہے جس کی وجہ سیاستدانوں کے بیانات بھی ہیں اور تجزیہ کاروں کے تبصرے بھی جن میں اگلی حکومت کو فلاں فلاں کے حوالے کرنے کے فیصلے کئے جاچکے ہیں اور فلاں فلاں کو سیاست سے دور رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور ایسے تبصروں سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ اگلی حکومت بھی ہائبرڈ ہی ہوگی کیونکہ انتخابات سے قبل اس طرح کے تبصروں اور افواہوں میں عوامی مینڈیٹ کی جگہ بنتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی اور اگر ہمارے اندر واقعی سنجیدگی ہوتی تو ہم اس طرح کے مائنڈ سیٹ کو بدلنے کی کوشش ہوتی ہوئی تو دیکھتے۔ ویسے تو ابصار عالم کے مطابق اس دیسی ہائبرڈ جمہوریت کا آغاز شاہد خاقان عباسی کے انتخاب سے ہی شروع ہوگیا تھا جس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس کا چلانا شائد سیاستدانوں کی ابدی مجبوری کا ہی حصہ ہے جس کی تصدیق بعد کے کئی فیصلوں سے بھی ہوتا ہے جس میں چیف آف آرمی سٹاف کی توسیع کا بھی فیصلہ ہے جس کے لئے عدلیہ سے لے کر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں جس کی بنیاد آئینی ترمیم بنا جس پر سب سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافات کے باوجود لبیک کہا۔ اب اگر دیکھا جائے تو ہائبرڈ جمہوریت کی تخلیق کے سارے کردار ریٹائر یا پھر بے اختیار ہوچکے ہیں مگر ہماری سیاسی جماعتوں کےفیصلوں کی کرہ اسی نظام کے حق میں نکلتی رہی ہے۔ ان تھک محنت کے بعد حکومت کے حصول کے باوجود ہماری سیاسی اشرافیہ ایک عجب اتفاق کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے جیسا کہ پچھلے ڈیڑھ سال کی حکومت سازی کی زیادہ تر کارکردگی کی اصل کامیابی کی تعریف اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ہی جاتی ہے ہماری عبوری حکومت کی تشکیل پر شروع میں کتنے خدشات جنم لیتے رہے مگر وقت آنے پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے کس طرح خوش اسلوبی سے عبوری وزیر اعظم پر اتفاق کر لیا اور پھر وہ دونوں بعد میں ایک جان دو قلب ہوگئے۔ اور جانے سے پہلے نئے قوانیں کے زریعے سے ان کے ایسے اختیارات کا بھی بندوبست بھی کر کے گئے جن سے لگتا ہے کہ انتخابات کے التواء کا خدشہ ضرور موجود تھا۔ اس مختصر سے تبصرے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی حلقوں میں ابھی بہت بڑا خلا موجود ہے جس کو پورا کرنے کے لئے ان کومجبوریاں آڑے آجاتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری سیاسی اشرافیہ خود ہے جنہوں نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ ہمیشہ اس سے خائف ہی رہے ہیں جس سے ان کے اندر وہ نظم وضبط، اعتماد یا احساس ذمہ داری ابھی پیدا ہی نہیں ہوا جو ان کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے کافی ہو۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے میں الیکشن کمیشن کا بہت اہم کردار ہوتا ہے جو نہ صرف انتخابات کو شفاف اور غیر جانبارانہ طور پر کروانے کا ذمہ دار ہوتا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے قیام سے اس کی ساری تربیت اور نگرانی کا کام بھی اسی کو سونپا گیا ہے جس سے اچھی قیادت اور تربیت والی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی یقینی بنتی ہے اور سیاسی حلقوں میں ان کے احتساب کے عمل سے نظم و ضبط اور احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے جس کی کمی کو پورا نہیں کیا جاسکا جس کی ذمہ دار خود سیاسی اشرافیہ ہی ہے۔ اب عدلیہ اور فوج کے اندر نئی سربراہی سے نہ صرف ان اداروں کے اندر خود احتسابی کا عمل شروع ہوچکا ہے بلکہ وہ حکومت کو ہر طرح کی آئینی و قانونی حمائت دینے کے لئے بھی تیار ہیں مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کےاندر اس کو سنبھالنے کی وہ طاقت نہیں ۔ جہاں آئین و قانون کی بات سے سیاسی قیادت پر لرزا طاری ہوجائے اور آپس میں ہی الجھ پڑتی ہو، جمہوریت کے نعروں کو جب اصلاحات کا موقع ملے توآمریت کامنہ دیکھنے لگیں۔ جب سول بالادستی حکومتی امور کو چلانے کے لئے آمریت کے سہارے کے بغیر لڑکھڑا جاتی ہو اور غلامی کے دلرادہ آزادی کو بیماری سمجھنے لگیں۔ ان کو جب آزاد چھوڑا جاتا ہے تو یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بجائے لڑاکے مرغوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرے۔ ان کے نزدیک جمہوریت سے وفاداری وہی ہوگی جس کی ان کو تربیت دی گئی ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا یہ وطیرہ بنتا جارہا ہے کہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی مخالفیں کو دھمکیاں دیتے اوران کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور جب اقتدار ہاتھ سے چلا جاتا ہے تو پھر انٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے اپنے بھی کرتوتوں کا ملبہ ان پر ڈال کر خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ کئی تو اتنے نا اہل ہوتے ہیں کہ ان کو قرضوں کے حصول کے لئے بھی وہاں سے فون کروانا پڑتا ہے۔ اسی لئے تو ایسی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو عالمی سطح پرکوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ انہیں حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے چند ماہ قبل ایک تجزیے میں کہاں تھا کہ ہمیں اپنی قومی اقدار سے ہم آہنگ جمہوریت کی کوئی صورت ترتیب دے لینی چاہیے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو ان کے مینڈیٹ کے مطابق عوامی خدمت کا موقعہ فراہم کرکے کم از کم ان کے اندر سے اقتدار کی حوس کو توخدمت کے جذبے میں بدلا جاسکے۔جن اداروں کی صلاحیتوں کے بغیر حکومتی معاملات کو چلانا ممکن نہیں ان کو کوئی آئینی کردار دے دیا جائے۔ اور ایسا نہیں کہ ہمارے اندر صلاحیتیں نہیں بلکہ یہ سب کچھ ہماری اپنی ہی قومی صلاحیتوں کے سبب ہی تو ہےکہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے بے تہاشہ قوانین ہونے کے باوجود ہم نے اس کو سہارا دیا ہوا ہےجسکی بدولت جس کے پاس جتنا علم ، تجربہ اور اختیارات ہیں اس پر اتنی ہی ناجائز دولت مہربان ہے۔دوسرے لفظوں میں ہمارا مسئلہ فقط مفلسی نہیں حد سے بڑھی ہوئی حوس بھی ہے ، ہمارا مسئلہ محض تعلیم کی کمی ہی نہیں بلکہ ہماراتعلیم یافتہ طبقہ بھی ہے جن کا مقبول ترین مشغلہ بدعنوانی ہے۔ لہذا فی الحال لگتا یوں ہے کہ ابھی ہائبرڈ جمہوریت کے پہلے ناکام تجربے کے بعد مزید تجربات کسی کامیاب دیسی جمہوری ماڈل کے حصول تک جاری رہیں گے جن کی اب تو سیاسی اشرافیہ کی آشیرباد بھی گواہی دے رہی ہے۔ کچھ آپس کی نااتفاقیوں کےسبب ہے تو کچھ اپنی حکمت عملیوں کےجس سے عوامی ساکھ کھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کچھ اپنی زندگی کے تجربات کے نچوڑسے اقتدار کے حصول کا واحد زریعہ اسی کو سمجھتے ہیں تو کچھ اقتدار کے حصول کے بعد اس کو چلانے کا حل اسی میں دیکھ رہے ہیں۔
|