نہیوں لبھنے لعل گواچے ۔۔۔۔۔۔۔
تجھے اے زندگی ڈھونڈو کہاں سے 😢
زندگی کی شبِ تاریک میں رستہ دکھانے والا تابندہ ستارہ۔۔۔۔۔۔ رانا محمد گلزارخان
کپور تھلوی
ممتاز افسانہ اور کالم نگار رانا محمّد گلزار خاں کپور تھلوی کی 27 ویں برسی
کون کہتا ہے کہ سانس سے میں زندہ ہوں
جب کہ ہر سانس سے پہلے تری یاد آتی ہے
اکتوبر جب بھی آتا ہے یہ زرد پتوں کی طرح مجھے بھی اداس کر دیتا ہے ۔۔خزاں کی اداسی
صرف درختوں سے ہی نمایاں نہیں ہوتی اس کے نمودار ہوتے ہی میرا دل بھی اداسی کے
سمندر میں ڈوب جاتا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پت جھڑ رُت میں اداسی نے جو پَر پھیلا
رکھے تھے، وہ انہیں سمیٹ لے گی؟ ایک تصور یہ ہے کہ اداسی تو آپ کے اندر کے موسم کا
نام ہے، اگر اندر ویرانی یا اداسی رہائش پذیر ہو تو باہر ہزار رنگ بکھریں ، اداسی
پیچھا نہیں چھوڑے گی جبکہ ایک دوسرا تصور یہ بھی ہے کہ خزاں کا موسم اپنے ساتھ
اداسی لے کر آتا ہے۔ یعنی آپ کتنے ہی خوش مزاج کیوں نہ ہوں، پت جھڑ کی رُت میں
ماحول میں جو تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس کے انسانی جسم پر بھی طبعی اثرات پیدا ہوتے ہیں،
جو آپ کو اداس کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت کی بات کریں تو وقت بھی عجیب چیز ہے پلک جھپکتے میں گُزر جاتا ہے،
یہ دولت اس سرعت کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے کہ بعد میں ہم ہاتھ ملتے رہ
جاتے ہیں۔
کوئی شخص اپنی شدید خواہش اور سر توڑ کوشش کے باوجود بیتے ہوئے لمحات یا آبِ رواں
کے لمس سے دوبارہ کسی صورت فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب
جن کا وجود ہمارے لیے سر چشمہء فیض ہوتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے عدم کے کُوچ کے لیے
رخت ِ سفر باندھ لیتے ہیں اور ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں ۔ان کے نہ ہونے کی
ہونی پر ہماری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں اور دُنیا یہ سانحہ دیکھتی کی
دیکھتی رہ جاتی ہے۔
اپنے بزرگوں کا سایہ جب سر سے اُٹھ جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ سورج واقعی سوا
نیزے پر آ گیا ہے۔ ان لرزہ خیز سانحات اور اعصاب شکن حالات میں دل کو سنبھالنے کی
نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اپنے جذبات حزیں کو حرف حرف بیان کرنے کی
کوئی صورت نظر آتی ہے ۔۔لوحِ دل پر نقش ان کی دعائیں ، وفائیں اور عطائیں ہمیشہ کے
لیے عزم و عمل کی ندائیں اور آلامِ روزگار کی تمازت سے بچنے کی ردائیں ثابت ہوتی
ہیں ۔ان کی چشم کے مُرجھا جانے کا یہ سانحہ پس ماندگان اور احباب کے لیے زندگی بھر
کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔
دِل کے طاق میں اس عظیم انسان کی حسین یادوں کے چراغ ابِ ہمہ وقت سرِمژگاں ستاروں
کے مانند جھلملاتے ہیں ۔ قبلہ والد گرامی رانا محمد گلزارخان کپور تھلوی نے 6/
اکتوبر 1996ء کو داعیء اجل کو لبیک کہا ۔ چک نمبر 87 گ ب براستہ ڈجکوٹ ضلع فیصل
آباد پاکستان میں ان کے آبائی قبرستان نے انسانی ہمدردی ،بے لوث محبت ،خدمت خلق اور
انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا
لیا۔
وہ شخص جِس کا وجود طلوع صبح بہاراں کی نوید تھا اور جِس کی عظیم شخصیت سفاک ظلمتوں
میں ستارہ ء سحر کے مانند تھی اپنے ہزاروں پیاروں کو یاس و ہراس اور آہ و فغاں کے
عالم میں تنہا چھوڑ کر دُور بہت ہی دُور اپنی الگ بستی بسانے چلا گیا ۔ اُداس بام ،کُھلے
در اور سنسان بستیاں احساس ِ زیاں سے بے حال اپنے رفتگاں کو پُکارتی رہتی ہیں لیکن
اِس دنیا کی سرائے سے منہ موڑ کر جانے والے مسافر پھر کبھی اس طرف لوٹ کر نہیں آتے۔
ہمارے وہم و گُمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ لوگ جنھیں دیکھ کر ہم جیتے ہیں ہمیں
دائمی مفارقت دے کر زینہء ایام سے اُتر کر وقت کی تہہ میں اُتر کر قلزمِ خوں پار کر
جائیں گے۔ زندگی کا کوئی بھی عکس ہو' اُس میں ایسے مہربان سراپا رحمت رشتے کے اقوال
،اعمال اور شخصیت کے خدو خال جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں اور کوئی بھی بزم ان کے ذکر
سے خالی نہیں رہتی۔
زندگی کی شامِ الم میں اپنے بزرگوں کی یادوں کے ستارے اس طرح ضوفشاں رہتے ہیں کہ
رہروانِ زیست کو نشانِ منزل مِل جاتا ہے اور وہ سرابوں میں بھٹکنے اور تاریکیوں میں
ٹامک ٹوئیے مارنے سے بچ جاتے ہیں ۔زندگی کی شبِ تاریک میں رستہ دکھانے والا ایسا ہی
ایک تابندہ ستارہ رانا محمد گلزارخان کپور تھلوی بھی تھا ۔جن کے دم قدم سے یہ الفاظ
رقم ہو رہے ہیں ،جنہوں نے ہاتھ میں قلم پکڑنا سکھایا ،جنہوں نے چلنا سکھایا، جنہوں
نے بولنا سکھایا،گویا زندگی کی تمام تر رحمتیں، برکتیں ، کرم نوازیاں اور رعنائیاں
اسی ہستی کا تصدق ہیں ۔۔ دنیا میں اس انسان سے بڑا میرا، مجھے کوئی انسان نظر نہیں
آتا ۔۔۔۔۔
میرے والد گرامی قبلہ رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی رحمۃ اللہ علیہ 1938ء کو
راجپوت قبیلے میں چودھری محمد بخش کے گھر ریاست کپور تھلہ مشرقی پنجاب (ہندوستان)
میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپور تھلہ کی غلہ منڈی میں آڑھت کا کاروبار کرتے تھے۔
ابتدائی تعلیم ریاست کپور تھلہ سے حاصل کی۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کی عمر آٹھ سال
تھی۔آپ اس پرآشوب دور میں تعلیمی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے آپ میٹرک تک نہ پہنچ
سکے ۔پھر چھوٹی بڑی ملازمتیں شروع کردیں ۔ابتدا میں آئل کمپنی میں آئل ٹینکر کے
ساتھ بطور کنڈیکٹر کام کیا پھر اس کام کو خیر باد کہہ کر لائل پور میں پاکستان کی
اس وقت کی صف اول کی کوہ نور ٹیکسٹائل ملز میں بطور ہیڈ ڈافر کچھ عرصہ تک کام کیا۔
یہاں پر اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔چونکہ یہاں پر روئی کے اڑنے سے
صحت پر مضر اثرات پڑتے تھے اس لیے اس نوکری کو بھی خیرباد کہہ دیا ۔بعد ازاں
گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس میں بطور بس کنڈیکٹر اپنی ملازمت کا آغاز کر دیا ۔اس طرح آپ
نے مجموعی طور پر تادم مرگ 28 سال اس محکمہ میں ملازمت کی ۔۔آپ ایک محنتی ، جفاکش ،
ایماندار اور اپنے پیشے سے مخلص رہنے والے ورکر تھے ۔۔ پابندی وقت اور اصولوں پر
قائم رہنا آپ کی گھٹی میں شامل تھا ۔پابندی وقت کے حوالے سے محکمہ هذا رانا محمد
گلزارخان کپور تھلوی کی مثالیں دیا کرتا تھا کیوں کہ گاڑیوں کی روانگی میں کسی قسم
کی تاخیر برداشت نہیں کی جاتی تھی ۔عاجزی انکساری ، اخلاص و مروت اور مرنجاں مرنج
شخصیت کے مالک ایک زندہ دل انسان تھے ۔ساری زندگی لوگوں میں محبتیں اور خوشیاں
بانٹیں ۔۔۔میں نے اپنی زندگی میں انہیں کسی سے لڑتے یا اونچا بولتے نہیں دیکھا
۔۔۔۔آپ کے ساتھی آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے آپ کے ساتھ مل بیٹھ کر چائے پینے کے لئے
لاہور یا کسی اور شہر سے ڈیوٹی کرتے ہوۓ گاڑی/ بس سے واپسی پر آپ کا گھنٹوں انتظار
کرتے تھے کہ رانا صاحب کے ساتھ مل کر اکٹھے چائے پینی ہے۔۔ آپ کے جانثار ساتھیوں
میں مہدی زمان عباسی ، غلام نبی تمیمی ، خوشی محمّد ، شیخ شفیق احمد ، شاہجہان ،
خادم حسین تمیمی اور بہت سے دوست شامل تھے۔
اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ رانا محمد گلزار خاں کپور تھلوی کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا
ہو گیا تھا اور پھر اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ان کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی رسالہ
یا ڈائجسٹ ضرور دیکھا جا سکتا تھا ۔رانا صاحب کو جب موقع ملتا ، وہیں اپنی موٹے
شیشوں والی عینک لگا کر مطالعہ شروع کر دیتے۔ شہر فیصل آباد کے بھوانہ بازار میں
شمع بک اسٹال کے مالک حاتم بھٹی صاحب سے ان کے دوستانہ مراسم پیدا ہو گئے تھے ۔گھر
سے اپنی ڈیوٹی پر آتے اور جاتے ہوئے روزانہ ان کی دکان اور اخباروں کے اسٹال پر
ضرور بیٹھتے اور آداب عرض ، سلام عرض ، اخبار جہاں دیگر ادبی رسائل اور مقامی و
قومی اخبارات کا مطالعہ کر کے روانہ ہوتے۔وہ اس مطالعہ کو اپنی غذا کا حصہ سمجھتے
تھے۔اسی مطالعے سے انہیں لکھنے کی طرف بھی ترغیب ملی ۔اور مقامی اخبارات کے مالکان
سے ان کےدوستانہ مراسم قائم ہوئے ۔
انہوں نے خبروں کی پریس ریلیز کے ساتھ ساتھ کالم اور کہانیاں بھی مقامی اور قومی
اخبارات میں لکھیں ۔وہ ایک خاموش ادیب کی طرح اپنے سفر پر رواں دواں رہے ۔ان کے بہت
سارے ادیبوں سے ذاتی مراسم بھی تھے ۔لیکن انہوں نے کسی شہرت یا واہ واہ کی کبھی
ضرورت محسوس نہ کی ۔لکھنے اور پڑھنے کی ترغیب ان کو خاندانی طور پر بھی میسر تھی
۔ان کے والد گرامی چودھری محمد بخش راجپوت ایک جہاں دیدہ اور پرانے وقتوں کے پڑھے
لکھے زیرک انسان تھے اسی طرح ان کے برادر اکبر جناب نور محمد نور کپور تھلوی کا
شمار بھی اردو اور پنجابی کے قادر الکلام شعراء میں ہوتا تھاجن کے اس دور میں اردو
کے بڑے شاعر فیض احمد فیض سے دوستانہ مراسم بھی تھے۔
رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی ایک خاموش قاری اور خاموش لکھاری تھے ۔ اسی درویش
اور نیک طینت انسان کی دعاؤں کا تصدق ہے کہ اس کے سارے بیٹے پڑھے لکھے اور کامیاب
زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے باپ کا نام روشن کر رہے ہیں ۔۔راقم الحروف ان کا بڑا
بیٹا ہے اور"پی ایچ- ڈی" اردو ہے اور باعزت سرکاری ملازمت کر رہا ہے ۔ایک بیٹا امجد
گلزار خان دبئی میں اپنا ذاتی کاروبار کر رہا ہے ۔ایک بیٹا عامر گلزار خان "چارٹرڈ
اکاؤنٹنٹ" ہے اور انگلینڈ میں آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے سلسلہ میں اپنی فرم چلا رہا ہے
۔ایک بیٹا آفتاب احمد گلزار ایک پرائیویٹ انڈسٹری میں ہیوی جنریٹر فورمین ہے۔۔ رانا
محمد گلزار خان کپور تھلوی نے پنجابی اور اردو کے ایک خاموش ادیب کی حیثیت سے خوب
کالم اور کہانیاں لکھیں ۔۔سخت محنت والی ملازمت ہونے کی وجہ سے وہ ادبی گروہ بندیوں
اور ادبی انجمنوں سے دور رہے۔
انہوں نے کالم اور کہانیوں کو ہی اپنے کتھارسس کا ذریعہ بنائے رکھا۔ چونکہ کالم ایک
صحافتی اظہاریہ ہے ۔شاعری، افسانہ نگاری ،مکتوب نگاری، تنقید نگاری وغیرہ کے ذریعے
فنکاروں نے اپنے فن کے جلوے دکھائے ہیں ۔اسی طرح ادب کے افق پر کچھ فنکار ایسے بھی
نمودار ہوئے جنہوں نے کالم نگاری کو مافی الضمیر کی ادائیگی کا وسیلہ بنایا ۔اور اس
کے ذریعہ سماج کے مختلف مسائل اور ادب کی گوناں گوں جہات پر لکھنے کی روایت قائم
کی۔۔کالم کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ۔۔روزانہ اخبارات میں سے بہت سے مستقل
کالم چھپتے ہیں اور ان کالموں کے قارئین بھی مستقل ہیں ۔۔جو انہیں روزانہ پڑھتے ہیں
۔۔فیصل آباد بھی ایک اہم صحافتی مرکز ہے یہاں سے شائع ہونے والے اخبارات میں بھی
کالم شائع ہوتے رہتے ہیں۔
رانا محمّد گلزار خاں کپور تھلوی ایک مرنجان مرنج شخصیت کے حامل ایک درد دل رکھنے
والے صاف گو اور جری تخلیق کار تھے۔انہوں نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس
سے اپنا تعلق جوڑے رکھا ۔۔۔۔فکری طور پر وہ ایک کہانی کار اور کالم نگار تھے
۔۔۔رانا گلزار خان کپور تھلوی کو کالم نگاری کی طرف مائل کرنے کا تمام کریڈٹ
روزنامہ " ڈیلی بزنس رپورٹ " کے چیف ایڈیٹر اور مالک عبد الرشید غازی کو جاتا ہے
جنہوں نے آپ کو اخبار میں کالم لکھنے کی طرف مائل کیا ۔۔رانا صاحب "ڈیلی بزنس
رپورٹ" کے دفتر میں آ کر فارغ وقت گزارتے تھے ۔کیوں کہ ان کا محکمہ ڈیلی بزنس رپورٹ
کے دفتر کے سامنے تھا ۔۔وہیں سے انھوں نے کالم نگاری کی ابتدا کی ۔۔کہانی کاری کی
طرف تو وہ پہلے ہی سے منسلک تھے ۔
رانا محمّد گلزار خان کپور تھلوی کے کالم شگفتہ اور لطیف پیراے انداز میں گندھے
ہوتے تھے ۔ بظاہر یہ کالم ہلکے پھلکے انداز میں سفر کرتے ہیں مگر ان کے باطن میں
ایک ایسی فکر رواں دواں تھی ، جس کا انداز کالموں کے ان موضوعات سے ہوتا ہے جو ان
کے کالموں کے اندر کی صورتحال کو اجاگر کرتے ہیں ۔۔ان کے یہ کالم ڈیلی بزنس رپورٹ
میں تسلسل سے شائع ہوتے تھے ۔ انہوں نے اپنے اظہار خیال کے لئے معاشرے کے چھوٹے سے
مگر اہم موضوعات کو منتخب کیا ۔۔رانا صاحب کا قلم۔ ۔۔۔۔قلم کے بجائے ایک ایسا نشتر
تھا جو معاشرتی ناہمواری کے پودے کو کاٹ ڈالنے میں مصروف رہا ۔۔انہوں نے اپنی
تحریروں میں سماج کے مکروہ چہرے پر بے انتہا تھپڑ رسید کیے ہیں ۔۔۔ان کے کالم محض
کالم ہی نہیں بلکہ ٹوٹتی بکھرتی قدروں کے نوحے ہیں ۔۔سماجی معاشرتی زوال کے مرثیہ
ہیں ۔۔۔ماحول میں بکھری ہوئی فضائی، سماجی، روحانی اور معاشی آلودگی کے کرب ہیں۔۔
رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی نے کالم روشنائی سے نہیں بلکہ اپنے خون جگر سے لکھے
ہیں ۔۔۔ان کا مقصد ایک ہی ہوتا تھا کہ کس طرح لوگوں کی معیار زندگی کو بلند کیا جا
سکتا ہے ۔ اور کس طرح لوگوں کے لیے زیادہ آسانیاں پیدا کیا جا سکتی ہیں ۔۔ان کے
موضوعات برائے راست عوام کی زندگی سے متعلق ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔رانا محمد گلزار خاں
کپور تھلوی جنون کا وہ مسافر تھا جو خود بخود نہیں سمٹتا تھا بلکہ اسے دیکھ کر لمحے
سمٹ جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی کاری اور افسانہ نگاری کے حوالے سے رانا محمد گلزار خان
کپور تھلوی کا نام ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا ۔۔
۔۔۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ والدین کے دل اور دماغ جب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ان میں
ہمارے لیے خوبصورت خواب بھی دم توڑ دیتے ہیں ۔ جب ان کے ہاتھ کام کرنا چھوڑ دیتے
ہیں تو اس کے ساتھ ہی ہماری لیے دعاؤں کے لیے اٹھنے والے ہاتھ جواب دے جاتے ہیں۔ ان
کے دل کی دھڑکن بند ہونے کے ساتھ ہی ہماری تکالیف میں تڑپنے والا درد مند دل بھی
اپنا سلسلہ منقطع کر دیتا ہے ۔۔۔۔والدین وہ چراغ ہیں جن کے بھجنے سے اندھیرا ہی
نہیں ہوتا ، ہر دکھائی دینے والی ، محسوس کی جانے والی چیز معدوم ہو جاتی ہے ، بے
وجود ہو جاتی ہے ۔۔۔
استاد محترم پروفیسر غلام رسول شوق کی شاہکار نظم " گھر دا بوہا‘‘ ایک علامتی نظم
ہے جس کی تشبیہ انھوں نےایک باپ سے دی ہے۔ ہر اس باپ پر یہ نظم صادق آتی ہے جو ساری
حیاتی زمانے کی تند و تیز تلخیوں اور دُھوپ بھری زندگی میں محنت اور مشقت کر کے
اپنے بچوں کو پالتا ہے ۔ ان کی نگہداشت کرتا ہے۔ اُن کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے
دُکھ سُکھ کا خیال اپنی جان سے زیادہ کرتا ہے۔ دروازہ ساری زندگی گھر کی حفاظت ،
چوکیداری اور نگہداشت کرتا کرتا آخر ایک دن تمام قبضے، کیل ڈھیلے اور لکڑی میں
تریڑیں پڑ جانے سے اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے اور پھر کسی روز اچانک دھڑام سے زمین پر
آ گرتا ہے ۔۔۔۔بعین ہی گھر کا سرپرست ، گھر کا نگہبان باپ بھی حالات کی تلخ اور سخت
دوپہروں اور سرد راتوں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک کر زندگی سے ایک دن ہار مان جاتا
ہے۔
یہ نظم غلام رسول شوق کی شہکار نظموں میں شمار ہوتی ہے ۔ موصوف کا اندازِ بیان بڑا
مؤثر اور دل کش ہوتا تھا۔ بسا اوقات وہ یہی نظم پڑھتے پڑھتے آبدیدہ ہو جاتے اور
آنسو ان کی آنکھوں میں چمکنے لگتے ۔ یہ نظم ہر اس نیک طینت فرمانبردار اولاد کے لیے
ہے جو اپنے والد سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے۔ ان کے مقام اور مرتبے کو پہچانتا اور
سمجھتا ہے۔
نظم ’’گھر دا بوہا‘‘ نذرِ قارئین:
اِک سی میرے گھر دا بُوہا
چِٹے پٹ تے متھا سُوہا
ڈُھکدا کھُلدا چیں چیں کردا
دُھپے کھاندا سِی نہ کردا
مہینہ پھانڈے وچ پجھدا رہندا
شِکر دوپہرے رِجھدا رہندا
لوآں دُھپاں نُوں اوہ روکے
اگل واہنڈی سب توں ہو کے
چور اُچکے توں نہ ٹٹ دا
چوتھی پکی سکے رُکھ دا
قبضے کُنڈے سنے چوگاٹھے
بھخدا وانگر گبھرو کاٹھے
ہر کوئی اوتھوں نیوں کے لنگھدا
نیویاں اکھیاں سنگ دا سنگ دا
کجھ ورھیاں توں بعد میں تکیا
تکیا تے پر جَر نہ سکیا
لکڑ سُک تریڑاں پئیاں
ہر ریشہ کر وکھرا گئیاں
اِک اِک پیچ ہویا فِر ڈِھلا
ہلنا جُلنا ہویا جھِلا
جھُکھڑاں دی اوہ مار کی سیہندا
ہر پَٹ اُس دا ہِلدا رہندا
واج سی اُس دی کھڑ کھڑ کر دی
فِر وی راکھی گھر دی کر دی
اِک دِن کُنڈا ہویا نِکّا
سنے چوگاٹھے ویڑے ڈِگّا
چھڈ گیا سب کندھاں کولے
مُک مکا گیا سبھ رولے
کر گیا لُگا سارے گھر نوں
سارے گھر دے اِک اِک در نوں
شوقؔ سبھے ہُن کڑیاں ڈولن
کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ بولن
سچی بات ہے کہ اس نظم کے عنوان اور علامتی انداز نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ یہ نظم
سن کر شوق صاحب کے اندر سے مجھے ایک گہرے دُکھ دردوں کی خوشبو آئی۔ وہ دُکھ جو لوہے
کو کُندن بنا دیتے ہیں ۔ باپ کی محبت میں لکھی اس علامتی نظم کے اندر بہت ہی وسعت
اور گہرائی ہے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج تین اکتوبر ہے ۔اکتوبر جب بھی آتا ہے تو یہ خزاؤں کے ساتھ دلوں پر
اداسی بن کر نازل ہوتا ہے۔۔۔ 6/ اکتوبر 1996ء کو بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب درختوں
کے زرد پتوں کے ساتھ ساتھ میں نہ صرف اداس تھا بلکہ شکست و ریخت کا شکار تھا۔ جب
میرا باپ علالت پر پڑا تین اکتوبر سے پانچ اکتوبر تک تین دن تک مسلسل قومے کی حالت
میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتا رہا۔ بالآخر موت جیت گئی اور زندگی ہار گئی ۔۔۔۔۔اس
کے بعد جب جب بھی اکتوبر آتا ہے ۔۔یہ میرے دل پر اداسی بن کر برستا ہے ۔۔یکم اکتوبر
سے چھ اکتوبر تک خزاں اس مہربان دل کے ساتھ کیسے کھیلتی ہے ۔ یہ کوئی اس سے بہتر
نہیں جانتا ۔۔۔
اپنی پنجابی کہانیاں دی کتاب " سوچاں بھرن کلاوے" چوں اک علامتی کہانی "آهلنا" چوں
اقتباس پیش کر ریہا واں ۔۔۔۔۔
'"اوہنے محنت مزدوری کر کے راتاں دے جگراتے کٹ کے مینوں ای نہیں سگوں سارے بھین
بھراواں نوں پڑھان لئی کنے حیلے کیتے ۔۔چوی چوی گھنٹے کم وچ جٹے رہن والا اکلا کہرا
جثہ نہ کدی پوہ دے پالیاں توں ڈر دا سی ، نہ ہاڑ دیاں شکر دوپہراں توں تے نہ ای رات
دے ہنیریاں توں ۔۔۔۔اوہدا جثہ وی اوہدے فولادی حوصلیاں وانگوں سخت بن گیا سی . .
کیہڑی کیہڑی فرمائش سی جیہڑی اوہنے پوری نہیں سی کیتی۔۔ساڈے مونھ چوں نکلی گل اوسے
ویلے پوری ہو جاندی ۔اؤہدی ریجھ سی تے بس ایہو ای بھئی میرے بچے پڑھ لکھ کے خاندان
دا نام روشن کرن۔
یقین کرن دی عادت نے اوہنوں کدے کسے دا محتاج نہ کیتا ۔۔۔کنڈیکٹری کوئی آسان نوکری
نہیں سی۔۔ راتاں دے جگراتے بھوگنے پیندے، پر اوہنے اپنی صحت دی پرواہ کیتیاں بناں
ساڈے سکھ لئی اس طراں چوسراں ، تسراں لائیاں بھئی کدے کدے تے سانوں شک ہون لگ پیندا
بھئی خبرے اوہ نہ تھکن والی کوئی مشین ایں ۔۔۔۔سارا سارا دن مسافراں دے مونہاں تے
لکھیاں ون سونیاں تحریراں پڑھ پڑھ کے ابا ساڈے لئی آپ اک دلچسپ تے من کھچویں تحریر
بن گیا سی ۔ایسی تحریر جیہڑی کسے کتاب چوں نہیں ملدی ۔۔۔۔زندگی نوں سلیقے تے سہپن
نال گزارن دی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔
میری نکی نکی خوشی اتے قربان ہو جاندا ۔۔اپنے دوستان نوں فخر نال میرا تعارف کراندا
۔۔۔۔اوئے مہندی۔۔ اوئے تمیمی ۔۔۔اوئے خوشی۔۔اوئے خادم ۔۔۔میرے پتر نےچوداں پاس کر
لیاں نیں ۔۔ میں اینوں "ٹی ایم" لگوانا اے ۔۔۔۔یار تمیمی ٹی ایم چوداں جماعتاں
پڑھیا لگ سکدا اے؟۔۔تے اونہاں دا ہاں وچ جواب سن کے سگریٹ دا لما کش لے کے دھوئیں
دے چھلیاں ول ویکھ کے آکھدا ۔۔" ہاں ہن گل بنے گی ناں۔"
اپنے پریوار دی جھولی وچ زمانے بھر دیاں خوشیاں پاون دا جتن کر دیاں جدوں اؤہنوں
کوئی آکھ دیندا ۔۔۔۔ابا توں اینی محنت نہ کریا کر ۔۔۔۔چوسر دے چکر وچ نہ پیا کر
۔۔۔۔ہن تیری صحت پہلاں والی نہیں رہی تے ایہہ سن کے اوہ آكهدا ۔۔۔۔بھليو لوکو ! میں
ایہہ سب کجھ کنہاں لئی کردا پهرنا آں ۔۔۔۔میں تے اپنی حیاتی وچ ادھورے رہ جاون والے
سارے کم تہاڈیاں اکھاں وچ ویکھنا چاہنا واں ۔۔۔۔جدوں کدی اوہ آکسیجن گیس والا ماسک
اتار کے پرانہہ سٹ دیندا تے میں رون ہاکا ہو کے لاؤن دی ضد کرن لگ پیندا تے اوہ اک
کے غصے نال آكهدا۔۔۔پترا کدوں تائیں تھمیاں دے کے مینوں سنبھالا دیندا رہویں
گا۔۔اوڑک اک دن ایہہ رکھ ڈگنا ای اے ۔۔اندروں کھاہدا شہتیر کد تیک چھت سنبھالی رکھو
گا ۔۔اوہدے پیٹ وچ اک گولا دکھدا دکھدا ہولی ہولی ودھداچلا گیا تے فیر اوہ گولا جگر
دے کینسر دا روپ دھار گیا ۔ایہہ سن گھر دا ہر جی اندروں ہار من گیا سی ۔اوہدا پتر
اؤہدا علاج کردا کردا آپ ای مریض لگن لگ پیا سی ۔۔۔اک دن اپنے پتر دی گواچی گواچی
حالت ویکھ کے آکھن لگا ۔۔اوئے توں اپنا حلیہ کنج دا بنایا ہویا اے؟۔۔۔کناں چر میرے
چہرے ول بھجیاں اکھاں نال ویکھ کے میری ماں نوں آکھن لگا ۔۔۔بیمار میں نہیں ہویا،
بیمار تے میرا پتر ہویا اے جیہڑا ساری ساری رات میری تکلیف پاروں نہیں سوندا ۔۔میں
تے فیر کدھرے اکھ لا لیناں واں۔۔
کدی تے ایہہ سن کے میری اکھاں وچ اتھروواں دی جھڑی لگ جاندی تے میں سوچن لگ پیندا
۔۔۔ابا اجے تے توں ساڈیاں خوشیاں تے چاواں دے مونھ وی نہیں ویکھے ۔۔۔۔۔تیری ویجی
پکی فصل کھان دا ویلا آیا اے تے توں اوتھے ٹریا جا ریہاں ایں جدھر جاون دے بہت سارے
رستے نیں پر واپسی دا کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔نواں مکان اجے پورا مکمل نہیں سی ہویا پر
اوہنے مستری کولوں بوہے دے باہر پیتل اتے اپنا سوہنا جیہا ناں لکھوا کے سجا دتا
۔۔جدوں مستری نے نیم پلیٹ نوں کندھ نال سجا دتا تے بیماری دے باوجود باہر گلی وچ آ
کے موٹے شیشیاں والی عینک لا کے ویکھیا تے اوہدے چہرے تے اک انجانی جیہی مسکان کھلر
گئی تے اوہنے ہوکا بھر کے آکھیا ۔۔۔۔مستری! جدوں میں تیلا تیلا اکٹھا کر کے ایہہ
آہلنا جیہا بنا لیا اے تے میر اصل آہلنا مینوں واجاں مارن لگ پیا اے ۔۔۔دعا کریں رب
میرے بوٹاں دے ایس آہلنے نوں نھیریاں جھکڑاں تے بھیڑے ویلے توں بچائی رکھے ۔۔۔۔۔بڑی
ریجھ سی بھئ زندگی دے کجھ سوکھے ساہ ایہدے وچ گزاراں گا ۔پر لگدا اے ، ایہہ ریجھ
پوری نہیں ہونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کجھ دناں توں اوہنے کھانا پینا وی چھڈ دتا سی ۔تے فیر اوہدی
زبان وی اوہدا ساتھ چھڈ گئی تے اوہ "قومے" وچ چلا گیا ۔۔۔دو تناں دناں توں مسلسل
بیہوشی وچ ای ساہ پورے کر ریہا سی ۔۔۔۔۔
اکتوبر دی چھے تریک نوں دوپہریں ویہڑے وچ کجھ عورتاں تے مرداں دے جھرمٹ وچ پئے ہوۓ
اوہدے ساہ اکھڑ رہے سن ۔۔کچھ لوک سورت یاسین پڑھ رہے سن۔۔تائی نذیراں نےکجھ لوکاں
نوں چپ بیٹھیاں ویکھ کے اچی واج وچ آکھیا ۔۔" سارے سورت یاسین پڑھو"۔۔۔۔۔۔۔۔میں وی
سورت یاسین پڑھن لگا پر پتہ نہیں کیوں ، میرے بل تے ہل رہے سن ، زبان ساتھ نہیں دے
رہی سی ۔۔سپارہ ہتھ وچ پھڑیاں میریاں نظراں اپنی وچھڑدی کائنات دے چہرے تے جم گئیاں
۔۔۔اوہ اکھاں جنہاں وچ چاہت ، شفقت تے پیار دے ہزاراں سنیہے ہوندے سن ۔آج میرے
ساہمنے چپ کیوں پئیاں نیں۔۔ اتھرو میریاں اکھاں چوں نکل کے سپارے تے ڈگ رہے سن تے
کسے دی اک لمی چیک نے میرے توں میرے وجود دے وچھڑن دی تصدیق کر دتی ۔۔۔۔۔مینوں نہیں
پتہ مینوں کیہ ہو گیا سی ۔ایناں ٹٹ کے پیار کرن والا پیو جہنے اپنے وڈے پتر نوں
یاراں وانگوں سمجھیا سی ۔آج یاری توڑ کے اوہنوں ادھ واٹے چھڈ کے کیتھے جا ریہا سی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے دن ابے نوں چٹے کپڑے پوائے گئے ۔۔۔چٹے کپڑیاں چوں اوہدا سروں دے پھل
ورگا چہرہ ہمیش وانگوں مسکراندا جاپ دا سی ۔۔۔۔۔۔
فیر انج ہویا پئی اوہ بندہ جیہڑا کدی اپنے پیو دے موڈھیاں تے چڑھدا ہوندا سی ۔ہن
اپنے بے جان پیو نوں اپنے موڈھیاں تے چک کے اوتھے لے جا ریہا سی ۔۔جتھوں کوئی نہیں
پرت دا ۔۔۔۔۔کوئی وی تے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔تے فیر ایہہ دعاواں کرن والے مہربان ہتھ اسیں
اپنے ہتھیں مناں مٹی تھلے چھڈ آئے ۔۔اوھدیاں ریجھاں دی واشنا نال بھریا بھریا ایہہ
مکان جیہدے وچ زندگی دی ہر ضرورت موجود اے ۔۔۔کدی کدی خالی خالی لگن لگ پیندا اے
۔۔۔۔کسے پاسیوں واج آؤندی اے ۔۔۔" لگدا اے میں بیمار نہیں ہویا ، میرا پتر بیمار ہو
گیا اے۔"۔۔۔۔میں اداس ہو کے باہر گلی وچ آ جانا واں ، جتھے میرے ابے دے ناں والی
چمکدی ہوئی نیم پلیٹ مینوں اپنے کلاوے وچ لے لیندی اے۔"'
خزاں کی پہلی شام کو جنم لے کر خود کو پورے من سے گلے لگانے والا یہ لڑکا اپنے سینے
میں اداسیوں کا سمندر ہونٹوں پر کبھی نہ مٹنے والی انوکھی مسکراہٹ رکھنے کو اپنی
فتح سمجھتا تھا ۔اداسیوں کا ساتواں آسمان زرد پیلے پتوں کی قیامت اور لڑکے کا ضبط
توڑنے والا اکتوبر آتا ہے اور گزر جاتا ہے مگر آسانی سے نہیں گزرتا ۔۔۔۔۔اسے ایسے
اداس کر جاتا ہے کہ مضبوط سے مضبوط دل بھی معصوم بچہ بن کر بلکنے لگتا ہے ۔اکتوبر
کی شامیں ایک کے بعد ایک ایک کر کے اداسیاں برساتی ہیں ۔۔۔۔۔زندگی کا کارواں چلتا
ہے اور اکتوبر بھی اپنے آپ کو سیاہ چادر میں لپیٹ کر خوف کا سایہ پھیلا دیتا
ہے۔۔۔۔۔کتنا درد ناک ہے یہ اکتوبر ۔۔۔۔۔۔!
|