بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۔۔۔۔ ایک چراغ اور بجھا اور بڑی تاریکی

عالمی شہرت کے حامل اردو زبان و ادب کے نامور استاد ،مستند محقق،زیرک

نقاد،ممتاز دانشور اوریگانہء روزگار فاضل پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی 25 جنوری 2024 کو منصورہ ٹیچنگ اسپتال ملتان لاہور میں دائمی مفارقت دے گئے۔

علم و ادب کا وہ آفتاب جہاں تاب جو 9/ فروری 1940 میں مصریال ضلع چکوال (پنجاب پاکستان ) سے طلوع ہوا پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے منور کرنے اور سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے بعد عدم کی بیکراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔

دلوں کو مسخر کرنے والے اس عظیم استاد نے اردو تحقیق و تنقید کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ان کی المناک وفات سے اردو زبان و ادب کے طلبا اور اساتذہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔

اردو تحقیق اور تنقید کا یہ مرد آہن اپنی ذات میں ایک انجمن تھا۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔ان کی وفات اتنا بڑا سانحہ ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر فروغ اردو کوششوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

وہ خودی کو برقرار رکھ کر غریبی میں نام پیدا کرنے کا عملی نمونہ تھے ۔مشرقی تہذیب اور اردو زبان و ادب کا اتنا بڑا شیدائی آج تک نہیں دیکھا ۔تہذیب اور زبان و ادب کے اعتبار سے وہ آفاقیت کے قائل تھے ۔ان کی تربیت ہی ایسے انداز میں ہوئی تھی کہ وہ انسانی مساوات کو اولین ترجیح دیتے ۔علاقائی ،لسانی ،نسلی اور دیگر امتیازات ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔

انسانیت کا وقار اور انسانی حقوق کی پاسداری زندگی بھر ان کا نصب العین رہا۔کسی کو دکھ اور تکلیف کے عالم میں دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے اور مقدور بھر کو شش کرتے کہ ان دکھوں کا مداوا کر کے آسانی کی کوئی صورت تلاش کر سکیں۔غریبوں کی حمایت ،درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی 9 فروری 1940ء کو مصریال، ضلع چکوال میں پیدا ہوئے۔ 1963ء میں نجی حیثیت میں بی۔ اے کیا اور 1966ء میں اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو کا امتحان فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا۔

1969ء میں محکمہ تعلیم پنجاب سے وابستہ ہوئے اور مختلف کالجوں میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد 1982ء میں اورینٹل کالج لاہور میں تعینات ہوئے اور وہیں سے بطور پروفیسر سبکدوش ہوئے۔ کچھ عرصہ صدر شعبہ اردو بھی رہے۔

1981ء میں جامعہ پنجاب سے تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

2002ء میں شعبہ اردو اورینٹل کالج سے بازیافت کے نام سے ایک تحقیقی مجلہ بھی جاری کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 2006ء سے 2008ء تک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ممتاز پروفیسر (Distinguished Professor) بھی رہے۔

کئی ادبی، علمی و تحقیقی رسائل کے مدیر و معاون مدیر بھی رہے۔ وہ بابائے اردو ایوارڈ اور قومی صدارتی اقبال ایوارڈ حاصل ر چکے ہیں۔ انھوں نے اقبالیات اور اردو زبان و ادب پر درجنوں کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں جن میں اصنافِ ادب، خطوطِ اقبال، کتابیاتِ اقبال، تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، جامعات میں اردو تحقیق، یاد نامہ لالہ صحرائی، اقبال کی طویل نظمیں: فکری و فنی مطالعہ، 1985ء کا اقبالیاتی ادب - ایک جائزہ، 1986ء کا اقبالیاتی ادب - ایک جائزہ، خطوطِ مودودی، اقبال: مسائل و مباحث، اقبالیات کے سو سال، تحقیقِ اقبالیات کے مآخذ، اقبالیات: تفہیم و تجزیہ، پوشیدہ تری خاک میں (سفرنامہ اندلس)، سورج کو ذرا دیکھ (سفرنامہ جاپان)، مکاتیب مشفق خواجہ، پاکستان میں اقبالیاتی ادب، علامہ اقبال: شخصیت و فن و دیگر شامل ہیں۔

ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر خالد ندیم کا مرتبہ اردو، فارسی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں کے مقالات پر مشتمل مجموعہ ارمغانِ رفیع الدین ہاشمی بھی شائع ہو چکا ہے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر قاسم محمود احمد، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر اور ڈاکٹر زیب النسا زیبی ان کی مراسلت پر مشتمل مجموعے شائع کر چکے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پروفیسر مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور مرحوم کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔۔۔ یا رب العالمین

Dr.Izhar Ahmad Gulzar
About the Author: Dr.Izhar Ahmad Gulzar Read More Articles by Dr.Izhar Ahmad Gulzar: 35 Articles with 27102 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.