دہلی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رام بھگت نریندر
مودی اور ہنومان بھگت اروند کیجریوال آپس میں ایسےخون کے پیاسے ہوجائیں گے
۔ایک زمانے تک عآپ کو بی جے پی کا چھوٹا ریچارج کے لقب سے یاد کیا جاتا
تھا۔ اس وقت لوگ کہا کرتے تھے کہ کانگریس مکت بھارت بنانے کے بعد سنگھ
پریوار بی جے پی کے مقابلے عآپ کو ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن بنانا چاہتا
ہے تاکہ آر ایس ایس کے دونوں میں لڈو رہے اور چت بھی اس کی اپنی ہو اور پٹ
بھی اسی کی رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انا ہزارے تحریک میں کمل اور جھاڑو
ایک ساتھ تھے لیکن انتخابی سیاست میں آنے کے بعد عآپ کا راستے بدل گیا ۔
عآپ نے دوسرے نمبرپر ہونے کے باوجود کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملا کر اپنی
پہلی سرکار بنائی اور سب سے بڑی سیاسی جماعت بی جے پی کو اقتدار میں آنے
سے روک دیا ۔گیارہ سال بعدتاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔راہل گاندھی کے
ساتھ مل کر اروند کیجریوال نے بی جے پی کی مرکزی حکومت کا بیڑہ غرق کرنے
میں مصروفِ عمل ہیں۔ انہیں اس مقصد میں کتنی کامیابی ملے گی یہ تو وقت
بتائے گا۔
دل کا حال تو صرف دل والا ہی جانتا ہے اس لیےیہ سوال خاصہ گنجلک ہے کہ دلی
والوں کے دل میں کیا ہے؟ نریندرمودی یا راہل گاندھی ؟؟ منوج تیواری یا
کنھیا کمار؟؟؟ اروندکیجریوال یا سواتی مالیوال؟؟؟ امیت شاہ یا کیجریوال کے
بوڑھے والدین ؟؟؟؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ
کوئی کسی کے دل میں کیسے گھر بناتا ہے اور کون کیسے دل سے در بدر ہوجاتاہے۔
اس کے لیے کون سے عوامل ذمہ دار ہوتے ہیں؟دل میں جگہ بنانے والا سب سے اہم
محرک رحم ہے کیونکہ بسا اوقات انسان کو اپنے دشمن سے بھی ہمدردی ہوجاتی ہے۔
نفسیات کی زبان میں اس کو ’سٹاک ہوم سینڈرم‘ کا نام دیا جاتا ہے جس میں
یرغمالیوں کے اندر اپنے اغوا کاروں سے انسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس
سفاکیت کا مظاہرہ دوست کو بھی دل سے نکال دیتا ہے اور اس کے تئیں محبت کو
نفرت میں بدل دیتا ہے۔ پچھلے اسمبلی الیکشن کے بعد بلدیاتی انتخاب میں اپنی
کامیابی درج کروا کر اروند کیجریوال نے یہ ثابت کردیا کہ دہلی والوں کے دل
پر راج کرتے ہیں۔ کیجریوال دل جیتنے کے فن میں ماہر ہیں جس کی تازہ ترین
مثال ان کے والدین سے پولیس پوچھ تاچھ پر بیان ہے بقول عرفان صدیقی؎
ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
پچھلے دنوں عآپ کی رکن پارلیمان سواتی مالیوال کے مبینہ حملے کا معاملہ
سامنے آیا ۔اس الزام پر کجریوال نے کہا تھا کہ وہ بھی منصفانہ تحقیقات کی
توقع کرتے ہوئے انصاف کے خواہشمند ہیں ۔ وزیر داخلہ کے اشاروں پر کام کرنے
والی دہلی پولیس نے سواتی کی شکایت پر کیجریوال کے مقرب بیبھو کمار کو
گرفتار کرلیا مگر اس کے بعد یکے بعد دیگرے انتظامیہ کا تضاد سامنے آنے
لگا۔ سواتی مالیوال کے متضاد بیانات کے بعد پولیس خود اپنے جال میں پھنس
گئی اور اس کے لیے عدالت میں ایف آئی آر پیش کرنا مشکل ہوگیا۔ بالآخر
مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اس نے اروند کیجریوال کے والدین سے پوچھ گچھ
کرنے کا ارادہ کردیاجس کا انکشاف خود اروند کیجریوال نےکیا۔ انہوں کہاکہ ان
کے پاس وزیر اعظم مودی کے لیے ایک پیغام اور اپیل ہے۔ وہ بولے’’ آپ نے میرے
ایم ایل اے کو گرفتار کیا لیکن میں نہیں ٹوٹا۔ آپ نے میرے وزیر کو گرفتار
کیا لیکن تب بھی آپ مجھے جھکا نہیں سکے، آپ نے مجھے گرفتار کیا اور مجھے
جیل میں ہراساں کیا گیا، تب بھی میں نہیں ٹوٹا‘‘۔
اپنی درد انگیز گہار کو آگے بڑھاتے ہوئے کیجریوال نے کہا ’لیکن آج آپ نے
تمام حدیں پار کر دیں اور مجھے توڑنے کے لیے آپ نے میرے بوڑھے اور بیمار
والدین کو نشانہ بنایا۔ میری ماں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے۔ جس دن مجھے
گرفتار کیا گیا اسی دن وہ اسپتال سے واپس آئی تھی۔ میرے والد کی عمر 85 سال
ہے اور انہیں بھی مختلف جسمانی مسائل ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ میرے
والدین قصوروار ہیں؟ میرے والدین کو کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے؟ بھگوان آپ
کو معاف نہیں کرے گا،"اس بیان کو پڑھنے اور سننے کے بعد کون سا ایسا سنگدل
انسان ہوگا جو مودی سرکار کی سفاکیت کے سبب کیجریوال سے ہمدردی نہیں کرے
گا؟ اقتدار کے گھمنڈ میں مبتلا فرعونِ وقت نے یہ حرکت رائے دہندگی کے عین
پہلے کرکے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی ۔ اس بار اگر دہلی کے انتخاب میں کمل
کا سپڑا صاف ہوجائے تو اس میں سب اہم کردار اس حماقت کا ہوگا۔
بی جے پی نے اپنی چالبازیوں سے عآپ کے میئر کومنتخب ہونے سے روکامگر
کیجریوال کو رائے دہندگان کے دل سے نہیں نکال سکی۔ اس کی دو وجوہات تھیں
اول تو کیجریوال کی صوبائی سرکار کے ذریعہ غریب عوام کو دی جانے والی
سہولیات نے انہیں جھاڑو والوں کا خیرخواہ بنادیا ۔ دہلی کے لوگ جب اس سے
متصل نوئیڈا کے اندر یوپی سرکار کی جانب سے بھیجے جانے والے بجلی کے بل سے
اپنا موازنہ کرتے ہیں تو چین کی سانس لیتے ہوئے خیر مناتے ہیں ۔ وہ کہتے
ہیں اچھا ہی ہوا جو دہلی میں کمل نہیں کھلا ورنہ انہیں بھی مہینے بھر شٹ
ڈاون سہنا پڑتا اور آخر میں مہنگائی کا جھٹکا لگتا ۔ اس کے علاوہ نہ اچھے
اسکول ملتے اور نہ سستے دواخانے میسر آتے۔ دہلی سرکار نے خواتین کو بس میں
مفت سفر کی سہولت فراہم کرکے رائے دہندگان کی نصف تعداد کو اپنابہی خواہ
بنالیا ہے ۔ اسی طبقہ کو بدظن کرنے کے لیے سواتی مالیوال کا گورکھ دھندارچا
گیا مگر اس کے اثرات کو کیجریوال کے والدین کی تفتیش نے الٹ پلٹ دیا ۔
دہلی میں اترپردیش اور بہاری رائے دہندگان کے علاوہ دلتوں کی ایک بہت بڑی
آبادی ہے جو وقت کے ساتھ بی جے پی کے نرغے میں چلی گئی ۔ اس بار انہیں
واپس لانے کے لیے انڈیا محاذ بہت سنجیدہ ہے۔ کانگریس نے ڈاکٹر اُدت راج کو
ٹکٹ دیا ہے نیز عام آدمی پارٹی کے دو امیدوار بھی اسی سماج سے آتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس حکمت عملی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ انڈیا اتحاد کے
خلاف بی جے پی کا سب سے بڑا الزام بدعنوانی اور موروثی سیاست کا ہے۔ بی جے
پی نے سشما سوراج کی بیٹی بانسری سوراج کو ٹکٹ دے کر ان دونوں محاذ پر خود
کو کمزور کیا ہے ۔ دہلی کی سیاست میں بانسری سوراج کا کوئی اہم کردار نہیں
رہا ہے۔ انہوں نے اس سے قبل اسمبلی تو دور بلدیاتی انتخاب بھی نہیں لڑا ۔
اس کے باوجود انہیں صرف اور صرف سشما سوراج کی بیٹی ہونے کے سبب ٹکٹ دے کر
بی جے پی نے بتا دیا کہ چراغ تلے اندھیرا ہے۔
بی جے پی نے اروند کیجریوال اور عآپ پر بدعنوانی کا الزام لگا کر وزیر
اعلیٰ سمیت کئی رہنماوں کو گرفتار تو کیا مگر بانسری سوراج نے للت مودی
جیسے بدعنوان کی پیروی کرکے اسے بچانے کی کوشش توکی مگر ناکام رہیں۔ چندی
گڑھ کے گھپلے باز میئر کا دفاع کیا وہاں بھی ان کے ہاتھ ناکامی آئی اور ای
ڈی کی حمایت کرکے سنجے سنگھ کو جیل میں رکھنے کی کوشش کی اس میں کامیاب
نہیں ہوسکیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے اس انتخابی جنگ میں وہ سرخرو ہوتی ہیں یا
منہ کے بل گر جاتی ہیں ۔ ویسے تو بی جے پی کے خلاف بہت سارے عوامل ہیں اس
کے باوجود کچھ ماہرین بی جے پی کے کامیابی کی پیشنگوئی کرتے نظر آتے ہیں ۔
ان کی دلیل ہے کہ پچھلی بار فتح و شکست کا فرق بہت بڑا تھا اس لیے تین کے
بجائے دو قطبی انتخاب ہونے کے سبب یہ کھائی کم گہری تو ہو گی مگر نتائج
نہیں بدلیں گے ۔بی جے پی نے اپنے ارکان کا ٹکٹ کاٹ کر عوام کو یہ پیغام دیا
ہے کہ وہ ان کے بھلے کے لیے اپنے ہی لوگوں کا ٹکٹ قلم کردیتی ہے۔ اس کا اسے
فائدہ ہوگا نیز کیجریوال کی گرفتاری اور مالیوال کے الزامات نے عآپ کی
شبیہ بگڑی ہے جس کا اسے نقصان ہوگا۔ اس کے برعکس اروند کیجریوال اپنی
گرفتاری کے لیے چیلنج کرکے ہمدردی جٹا رہے ہیں ۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ دہلی
حکومت کی کیا غلطی تھی؟ کیا معیاری تعلیم اور محلہ کلینک فراہم کرنا غلط
ہے؟ انہوں نےالزام لگایا کہ بی جے پی ان کے اچھے کاموں کو روکنے کی کوشش کر
رہی ہےوہ تمام رہنماؤں کو جیل میں ڈال کر عام آدمی پارٹی کو تباہ کرنا
چاہتی ہےلیکن ان کی پارٹی لوگوں کے دلوں میں ہےاس لیے بی جے پی کی یہ سازش
کامیاب نہیں ہوگی۔ دہلی والوں کے دل میں کیا ہے اس کا پتہ تو چار جون کو ہی
چلے گا لیکن بی جے پی کے وفادار رائے دہندگان سے یہی استدعا ہے کہ؎
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں دل سے جس نے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
|