شرد پوار کو بجا طور پر موجودہ ہندوستانی سیاسی مہابھارت
کا بھیشما پتامہ مانا جاتا ہے۔نتیش کمار کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا کردار
وقتاً فوقتاً بدلتا رہتا ہے ۔ کبھی تو وہ دریودھن بن جاتے ہیں اور کبھی
دشاسن کا کردار نبھانے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو وہ احترام اور وقار
نہیں حاصل ہوسکا جو شرد پوار کے حصے میں نہیں آیا۔ شرد پوار کی عمر فی
الحال 84؍ سال ہےاس کے باوجود مصروف ِ کار ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
ان کو پارٹی میں اپنے جانشین کی ضرورت جتنی فی الحال ہے اتنی پہلے کبھی
نہیں تھی۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی عمر تقریباً 75 سال ہوچکی ہے اور ان کی
جسمانی صحت کے ساتھ دماغی توازن بھی ڈانواں ڈول ہے۔ اس لیے نتیش کمار کے
بعد جے ڈی یو کا لیڈر کون ہوگااس سوال پر پارٹی میں تشویش ہے ؟ نتیش کمار
اور شرد پوار کا شمار ملک کے گھاگ سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے ہر
اقدام سے قبل سوچ سمجھ کر پیش بندی کرتے ہیں۔ ان کے بڑے فیصلوں سے قبل جو
چھوٹے موٹے اقدامات کیے جاتے ہیں اس سے سیاسی گلیاروں میں قیاس آرائیوں کا
سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
پچھلے دنوں شرد پوا ر نے کیرالہ کے رہنے والے پی سی چاکو کو قومی کار گذار
صدر نامزد کرکے سب کو چونکا دیا کیونکہ این سی پی بنیادی طور پر مہاراشٹر
کی علاقائی جماعت ہے۔ اولاد کی محبت سیاستدانوں کی سب سے بڑی اگنی پریکشا
ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اپنی زمین جائیداد کے ساتھ پارٹی کی باگ ڈور بھی بیٹی
سپریہ سولے کے حوالے کرنا ان کی دلی خواہش ہوگی۔ اس معاملے میں این سی پی
کے سینیر رہنما مثلاً اجیت پوار، چھگن بھجبل، پرفل پٹیل اور حسن مشرف سب سے
بڑی رکاوٹ تھے۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ بدعنوانی کےالزام میں جیل جانے سے
بچنے کی خاطر وہ سب بی جے پی کی پناہ میں چلے گئے۔ اپنے اقتدار کا فائدہ
اٹھا کر مرکزی حکومت الیکشن کمیشن کی مدد سے پارٹی کا نام اور نشان اجیت
پوار کے حوالے کردیا لیکن رائے دہندگان نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی نظر میں
پارٹی یا نشان کی نہیں رہنما شردپوار کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
حالیہ قومی انتخاب میں این سی پی کوصرف دس مقامات سے لڑنے کا موقع ملا
مگراس نے ۸؍ پر کامیابی درج کروا کر بہترین اسٹرائیک ریٹ کا مظاہرہ کیا ۔
اس کے برعکس اجیت پوار چار میں سے ایک مقام پر کامیابی درج کرواسکے۔ شرد
پوار ایسے ذہین سیاستداں ہیں کہ وردھا کی سیٹ ان کے حصے میں آئی تو مقامی
کانگریسی رہنما کالے بغاوت پر اتر آئے۔ انہوں نے اسی کو اپنا امیدوار
بناکر نہ صرف بغاوت ختم کردی بلکہ سیٹ بھی اپنی پارٹی کے نام کرلی ْاپنی
برتری ثابت کردینے کے بعد اجیت پوار کے لیے سپریہ سولے کو پارٹی کا سربراہ
بنا دینا نہایت سہل ہوگیا ہے کیونکہ ان سے سینئر سارے این سی پی لیڈر فی
الحال ازخود پارٹی چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔شرد پوار کو اطمینان ہے کہ ان کے
ساتھ جو سلوک بھتیجے اجیت پوار نے کیا وہ سپریہ سولے کبھی نہیں کریں گی ۔
اسی خوف نے بال ٹھاکرے کو اپنی پارٹی کی باگ ڈور اس کے حقیقی حقدار راج
ٹھاکرے کو سونپنے سے روک دیا تھا اور دونوں چچا زاد بھائیوں کی مخامصمت اب
بھی قائم و دائم ہے۔ سپریہ سولے اور اجیت پوار کے درمیان بھی اند ر ہی اندر
وہی لڑائی ہے۔ ملوکیت کے بعد بھی جانشینی کی یہ جنگ جاری و ساری ہے۔
شردپوار نے جس طرح چاکو کارگذار صدر مقرر کرکے چونکایا تھا اسی طرح نتیش
کمار نے اچانک جے ڈی یورہنما سنجے جھا کو پارٹی کا قومی ورکنگ صدر مقرر
کرکے سب کو حیران کردیا کیونکہ صوبائی انتخاب بہت دور نہیں ہے۔ نتیش کمار
نے پارٹی سے اپنی اولا کو تو دور رکھا مگر کسی کا اختلاف بالکل بھی برداشت
نہیں کیا۔ ایک زمانے میں انہوں نے آر سی پی نے سنگھ کو پارٹی کی مکمل کمان
سونپی تھی لیکن اختلافات کی وجہ سے انہیں الگ کر دیا گیا تھا۔ رام چندر
پرساد سنگھ جے ڈی یو کے قومی صدربنے مگران کے اپنی مرضی سے مودی کابینہ میں
وزیر بن جانے کے سبب نتیش کمار ناراض ہوگئے اور انہیں صدر کے عہدے سے ہٹوا
دیا۔ آگے چل کر انہیں ایوانِ بالا میں بھی نہیں بھیجا گیا جس کی وجہ سے وہ
وزارتی عہدہ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں پرشانت کشور
سے نتیش کمار اتنے خوش تھے، کہ انہیں پارٹی کا نائب صدر بناکر بہار حکومت
میں وزیر مملکت کا درجہ بھی دے دیا، لیکن جب پرشانت کشور نے خود کو کنگ
میکر کہہ کر نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنانے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی تو
انہیں بھی دودھ سے مکھی کی مانند نکال پھینکا ۔
علاقائی جماعتیں چونکہ ایک فرد کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں اس لیے ان کے سارے
فیصلے اسی کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ ایسے میں نتیش کمار کے علاوہ کسی اور کی
مجال نہیں تھی کہ وہ سنجے جھا کو کارگزار صدر بنانے کا اعلان کرے ۔ ویسے
آج کل قومی جماعتوں کا بھی حال اچھا نہیں ہے ۔ کانگریس میں وہی ہوتا ہے جو
سونیا یا راہل چاہتے ہیں نیز بی جے پی کے اندر بھی مودی و شاہ کی مرضی کے
خلاف کچھ نہیں ہوتا ۔ اس طرح ملک میں سیاسی جماعتوں کی نجکاری مکمل ہوچکی
ہے۔ جے ڈی یو کی مجلس عاملہ میں تنظیم سے متعلق قرارداد میں کہا گیا کہ
نتیش کمار کی قیادت میں جے ڈی یو نے 2025 میں بہار اسمبلی انتخابات لڑنے کا
عہد کیاہےاور وہ جھارکھنڈ انتخابات میں بھی مضبوطی سے لڑنے کا اعلان کیا ۔
ایک تجویز میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں پارٹی وزراء سے کارکنوں کے
ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کی تلقین کی گئی کیونکہ سرکار دربار میں جاکر اکثر
لوگ اپنے رائے دہندگان کو بھول جاتے ہیں۔
جنتا دل یونائیٹڈ کے رکن پارلیمنٹ سنجے جھا نے قومی کارگذار صدر کا عہدہ
سنبھالنے کے بعد نتیش کمار کی تعریف کرنے کے بعد شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ
ہمارے قومی صدر سی ایم نتیش کمار نےانہیں بہت بڑی ذمہ داری دی ہے۔ وہ بولے
بہار کے حالیہ الیکشن میں این ڈی اے نے 40 میں سے 30 سیٹیں جیتی ہیں۔ اس کا
مطلب 243 اسمبلی سیٹوں میں سے 177 پر برتری حاصل کی ہے۔ پچھلے سال دسمبر کے
اواخر میں لالن سنگھ کو ہٹا کر نتیش کمار خود جے ڈی یو کے قومی صدر بنے تو
انہوں نے انڈیا محاذ سے نکل این ڈی اے میں شمولیت اختیار کی ۔ اب اسمبلی
انتخابات سے قبل سنجے جھا کو ذمہ داری سونپ کر وہ کیا کرنے والے ہیں کوئی
نہیں جانتا؟ آیا رام گیا رام ‘ کی اصطلاح یوں تو ہریانہ میں ایجاد ہوئی
مگر اس کو بام عروج میں پہنچانے کا کام نتیش کمار نے کیا ۔ امسال جنوری میں
موصوف نے نویں بار بہار کے وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔انہیں
اپنے مذکورہ کارنامہ کا ایسا احساس تھا کہ ان کے سمیت 9 لوگوں نے عہدہ اور
رازداری کا حلف لیا تھا ۔اس لیے بعید نہیں کہ عنقریب جب دسویں بار یہ رسم
ادا کی جائے تو اپنے نو رتنوں کے ساتھ وہ دس نمبری بن جائیں ۔
اس سے قبل نتیش کمار اپنی سرکار و دربار کی 24 سالہ مدت کار میں آٹھ بار
بہار کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوچکے تھے۔ بہار کا وزیراعلیٰ بننے سے
قبل وہ اٹل بہاری واجپئی کی زیرقیادت مرکزی حکومت میں وزیر تھے۔ مودی
3.0میں توقع تھی کہ وہ مرکزی حکومت میں کوئی اہم وزارت سنبھالتے مگر گوں
ناگوں وجوہات کی بناء پر مودی جی نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا ۔ مرکزی
حکومت میں چھوٹے موٹے عہدے پر فائز ہونے پر بہار جیسی اہم ریاست کا وزیر
اعلیٰ بنے رہنے کو نتیش کمار نے ترجیح دی ہے۔ آئندہ سال صوبائی انتخاب میں
اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے کے لیے ان کا پٹنہ میں رہنا زیادہ مفید
ہے۔نتیش کمار کے علاوہ چندرا بابو نائیڈو کو بھی مرکز میں خاطر خواہ اہمیت
نہیں دی جارہی ہے ۔ اٹل جی کے زمانے میں چونکہ ٹی ڈی پی کا اسپیکر تھا اس
لیے یہ توقع تھی اس بار یہ عہدہ ان کے پاس جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا ۔
نتیش اور نائیڈو کے عدم اصرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دل سے اس حکومت کے
ساتھ نہیں ہیں اور عارضی قیام کے دوران عہدے کی خاطر لڑنے بھڑنے کے بجائے
صحیح وقت کے منتظر ہیں ۔ نتیش کے لیے سرکار گرانے کا بہترین موقع پسماندہ
ریزرویشن اور نائیڈو کی خاطر مسلم ریزرویشن کاہوگا۔ اس بیچ کانگریس کو نائب
اسپیکر کے عہدے سے محروم رکھنے کی خاطر بی جے پی نے راجناتھ سنگھ سے ممتا
بنرجی کو فون کروا کر کہا کہ وہ غیر کانگریس نائب اسپیکر بنانے کے لیے تیار
ہے۔ اس پر ممتا بنرجی نے ایودھیا سے منتخب ہونے والے اودھیش سنگھ پاسی کا
نام پیش کرکے نہلے پر ایسا دہلا مارا کہ راجناتھ سنگھ بالکل اناتھ ہوگئے ۔
اس لیے کہ کمنڈل کے مقابلے منڈل کی فتح کے سب سے بڑی علامت اودھیش سنگھ ہیں
اور ان کا نائب اسپیکر بننا بی جے پی کو ہمیشہ ایودھیا کی ناکامی یاد دلاتا
رہے گا۔ کمنڈل اور منڈل کی یہ لڑائی ہی ملک سیاست کا مستقبل طے کرے گی۔ یہی
وجہ ہے کہ فی الحال اودھیش سنگھ انڈیا محاذ کے پوسٹر بوائے بنے ہوئے ہیں۔
ایوانِ پارلیمان میں جس وقت اکھلیش یادو خطاب کررہے تھے تو ان کے بغل مین
اودھیش سنگھ براجمان تھے اور راہل کی تقریر کے دوران بھی اودھیش ان کے ساتھ
بیٹھے تھے ۔ اس لیے جب بھی راجیہ سبھا تیلی ویژن کا کیمرامقرر کو دکھاتا تو
اودھیش سنگھ ازخود فریم میں آجاتے تھے ۔ یہ قسمت کی بات ہے۔
|