! اسلام علیکم
بات کرتے ہیں کچھ گزرے ہوئے لمحوں کی جو ہم نے اپنوں کے بغیر گزارے۔
سال 2009 کی بات ہے جب ہم سکول کو خیر باد کہہ دیا اور اس وجہ سے گھر والوں
کی نظر میں ہم نکمے ہو گئے گھر ہم رہ نہیں سکتے تھے ہم سے سوچا کہ اب کام
تو کوئی ہے نہیں لیکن کچھ کرنا تو ہے اور ہمارے ہاں کھیتی باڑی کے علاوہ
کوئی کام نہیں ہوتا تھا جو ہم سے نہیں ہوتا تھا اور ابو کی مار کی وجہ سے
گھر میں بھی نہیں رھ سکتے تھے کیونکہ باقی بھائی بہن چھوٹے تھے وہ ابھی پڑھ
رہے تھے گھر کے حالات بھی بہت نازک تھے کیونکہ سر پے چھت اپنی نہیں تھی ہر
دو چار سال بعد ہم کو جگہ اور گھر بدلنا پڑتا تھا تو اس وجہ گھر میں دل
لگنا مشکل تھا
تو اس وقت ہم نے اپنے کزن سے رابط کیا جو ایک ٹیکسٹائل ملز میں کام کرتا
تھا اس نے کہا آجاؤ ہمارے پاس بہت ہی اچھا کام ہے اور سیلری بھی ٹھیک ہے تو
ہم نے اس سے کرایہ منگوایا اور گھر سے روانہ ہو گئے زندگی کا پہلا سفر جو
پوری رات کا میں نے اکیلے گزارا صبح جب کزن کے پاس پہنچ تو کُچھ اچھا محسوس
کیا اور کام پر لگ گئے اس وقت موبائل فون کا استعمال بہت کم تھا گھر والوں
سے بات کرنے میں بہت پریشانی ہوتی تھی
کُچھ دنوں کے گھر والوں سے بات کرنے موقع ملا ابو سے بات کی حال چال پوچھنے
کے بعد اماں سے بات کرنے لگا تو آنکھیں سے آنسو نکلنے شروع ہو گئے اماں
پوچھتی رہی کیا ہوا لیکن میں کیا بتاتا کہ آپ کی بہت یاد آتی ہے وقت گزرتا
گیا دل کو سمجھاتے رہے کہ اب یہی ہمارا گھر ہے اور یہی ہمارے رشتے ہیں جن
کے ساتھ ہم دن رات گزارتے ہیں
اور اس بات کو 15سال گزر گئے ہیں اس وقت کا جب بھی خیال میرے دماغ میں آتا
ہے آنکھوں سے آنسوں نکل آتے کیونکہ پردیس گزارنا بہت مشکل ہے ان کو کیا پتہ
کہ پردیس کیا ہوتا ہے جو صبح کو گھر سے جاتے ہیں اور شام واپس گھر آ جاتے
ہیں ان کبھی پوچھ کر دیکھیں جنہوں نے گھر سے زیادہ پردیس میں گزارا ہے
پردیس میں ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کیا ہے پیٹ کی خاطر در بدر کی ٹھوکریں
کھائیں مشکل سے مشکل وقت کا سامنا کیا کبھی ہار نہیں مانی اس لے ہم نے اپنی
عمر کی آدھی زندگی اسی ٹھوکروں میں گزار دی کہ سر پے چھت لینے کے چکر میں
اور اللہ پاک کا لاکھ
لاکھ شکر ہے کہ اس نے سر پے چھت اپنی دی
آج کوئی فکر نہیں ہے کہ میں پردیس میں ہو
اللہ پاک سب پردیسی بھائیوں کو اپنے حفظ
!وامان میں رکھے
!تحریر
محمد اسلم
تاریخ 18 جنوری 2025
|