آزادی اظہارِ رائے بنیادی انسانی حقوق میں انتہائی
اہم،جانداراورانسانی معاشرے میں افرادکے درمیان تبادلہ خیال ،تنقیدواصلاح
کیلئے لازم وملزوم سمجھاجاتا ہے،آزادی اظہارِ رائے کوبطوربنیادی انسانی حق
دنیا بھر میں انسانی حقوق کے قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے
تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ آزادی جمہوری معاشروں کے بنیادی ستونوں میں شامل ہے
اور انفرادی آزادی، سیاسی استحکام اور معاشرتی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت
رکھتی ہے۔آزادی اظہارِ رائے سے مراد ہے کہ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ
اپنے خیالات، نظریات، اور احساسات کو کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر آزادانہ
طور پر بیان کرے۔ یہ آزادی اظہار کے تمام ذرائع (تحریر، تقریر، صحافت، فنون،
وغیرہ) پر لاگو ہوتی ہے۔آزادی اظہار رائے کے متعلق عالمی قوانین اور معاہدے
1 اقوامِ متحدہ کا عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق (1948)
آزادی اظہارِ رائے کو آرٹیکل 19 کے تحت تسلیم کیا گیا ہے۔
ہر شخص کو رائے اور اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے،اس میں یہ حق بھی شامل ہے
کہ وہ بلا خوف و خطر رائے قائم کرے اور معلومات و نظریات کو کسی بھی ذریعے
سے تلاش کرے، وصول کرے، اور پھیلائے۔
2 بین الاقوامی عہد نامہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR) (1966)آرٹیکل 19
میں آزادی اظہارِ رائے کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ ہر فرد کو رائے
رکھنے کا حق حاصل ہے،ہر فرد کو معلومات، خیالات، اور آراء کو کسی بھی وسیلے
سے پھیلانے کی آزادی حاصل ہے۔3یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق (ECHR)
(1950)
آرٹیکل 10 میں آزادی اظہاررائے کی ضمانت دی گئی ہے ،اس پر کچھ حدود بھی
عائد کی گئی ہیں، جیسے کہ قومی سلامتی،عوامی نظم،دوسروں کے حقوق یا عزت کا
تحفظ۔4امریکی کنونشن برائے انسانی حقوق (ACHR)
آرٹیکل 13 میں آزادی اظہار رائے کی حمایت کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ
کوئی بھی فرد معلومات کو روکنے یا محدود کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جائے
گا۔5افریقی چارٹر برائے انسانی و عوامی حقوق۔یہ چارٹر آزادی اظہار کو
انسانی حقوق کے بنیادی جز کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور ریاستوں کو پابند
کرتا ہے کہ وہ اس حق کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔آزادی اظہار کی حدود۔آزادی
اظہارِ رائے ایک وسیع اور اہم حق ضرورہے پریہ حق درج ذیل حدود کے اندررہنے
کاپابندبھی ہے۔
نفرت انگیز تقاریر، تحریر یادیگرذرائع سے پھیلایا جانے والاکسی بھی قسم
کامواد ،جھوٹی معلومات کا پھیلاؤ،دہشت گردی یا تشدد کو فروغ دینا،اخلاقی
حدود،مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا،فحاشی یا غیر اخلاقی مواد کی تشہیر،قومی
سلامتی،ایسی معلومات جو قومی سلامتی، عوامی نظم، یا ریاستی راز کو نقصان
پہنچا سکتی ہیں، ان کے متعلق آزادی اظہاررائے کومحدودکیاجاسکتاہے یامکمل
پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔آزادی اظہاررائے ہرگز کسی دوسرے کی عزت و
وقار، شہرت، یا رازداری کو نقصان پہنچانے کا جواز فراہم نہیں کرتی۔دنیا
بھرمیں میڈیا آزادی اظہاررائے کا سب سے اہم اورتیزترین ذریعہ ہے،پرنٹ
میڈیا،الیکٹرانک میڈیااوردورجدیدمیں تیزترین سوشل میڈیا معلومات کے
پھیلاؤکیلئے استعمال کیاجاتاہے ،یہ سچ ہے کہ عالمی قوانین میڈیا کی آزادی
کو تحفظ فراہم کرتے ہیں پر ساتھ ہی میڈیاپر سخت اخلاقی اور قانونی ذمہ
داریاں بھی عائد کرتے ہیں۔دنیاکی بہت سی حکومتیں آزادی اظہار پر پابندیاں
عائد کرتی ہیں، جیسے سنسر شپ، انٹرنیٹ کی بندش، صحافتی اداروں پرمعاشی
پابندیاں،اشتہارات کی بندش یاصحافیوں کیخلاف مقدمات۔الیکٹرونکس اورپرنٹ
میڈیاپرکسی قسم کی پابندی عائدکرنااوردائرہ حدودمیں تبدیلی کسی بھی ریاست
کااندرونی اورآسان عملی اختیارہے جبکہ دورجدیدمیں تیزترین ٹیکنالوجی کے بل
بوتے پرسوشل میڈیابڑی حدتک بے لگام معلوم ہورہاہے۔ سوشل میڈیا پر غلط
معلومات اور نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ عالمی سطح پر ایک بڑا چیلنج
بنتاجارہا ہے۔
حکومت پاکستان نے بھی سوشل میڈیاپرغیرقانونی مواداورفیک معلومات کے
پھیلاؤکی روک تھام کیلئے پیکاقوانین میں ترمیم کابل منظورکیاہے،پیکا قوانین
میں ترامیم سوشل میڈیا پرغیرقانونی اورجھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کی روک تھام
کیلئے کی گئی ہیں تاکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص یا ادارے کو بدنام نہ
کرے۔ترمیمی بل کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم
کی جائے گی، اتھارٹی کا مرکزی دفتراسلام آباد میں ہوگا، صوبائی
دارالحکومتوں میں بھی قائم کیا جائے گا۔ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ
اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی،اتھارٹی سوشل میڈیا
صارفین کے تحفظ اورحقوق کویقینی بنائے گی، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی
رجسٹریشن کی مجازہوگی۔پیکا ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ
فارمزکی رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجازہوگی،پیکا ایکٹ کی
خلاف ورزی پراتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کی مجاز
ہوگی،اتھارٹی متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیرقانونی مواد ہٹانے کی
ہدایت جاری کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔پیکاترمیمی قوانین کے مطابق سوشل میڈیا
پرغیرقانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے
کا پابند ہوگا۔اتھارٹی کل 9 اراکین پرمشتمل ہوگی،سیکریٹری داخلہ،چیئرمین پی
ٹی اے،چیئرمین پیمراریٹائرسرکاری اہلکارہوں گے۔بیچلرزڈگری ہولڈراورمتعلقہ
شعبے میں کم ازکم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات
کیا جا سکے گا، چیئرمین اورپانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لئے کی
جائے گی۔حکومت کی جانب سے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی
فیصلہ کیا گیا ہے۔ریٹائرسرکاری اراکین کے علاوہ دیگرپانچ اراکین میں دس
سالہ تجربہ رکھنے والاصحافی،سافٹ وئیرانجینئر، ایک وکیل، سوشل میڈیا
پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ماہر بھی شامل ہو گا۔بل کے مطابق چیئرمین
اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پرکسی بھی غیرقانونی موادکو فوری بلاک کرنے کی
ہدایت دینے کااختیارہوگا۔اتھارٹی کا چیئرمین اوراراکین کوئی دوسرا
کاروبارنہیں کرسکیں گے۔نئے ترمیم شدہ پیکا آرڈیننس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ
فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹرکرانا لازمی قراردیا گیا ہے،اتھارٹی نظریہ
پاکستان کیخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے،تشددپراکسانے یاکسی دیگرغیرقانونی
سرگرمی پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنیکی مجازہوگی۔اتھارٹی
افواج،عدلیہ،پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کیخلاف غیرقانونی مواد کو بلاک
کرنیکی مجاز ہوگی۔پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو سوشل
میڈیا پراپلوڈکرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔پابندی کا شکارادارے،تنظیم یا شخصیات
کے بیانات سوشل میڈیا پربھی اپلوڈنہیں کیے جا سکیں گے۔ترمیم کے تحت سوشل
میڈیا شکایت کمیٹی قائم کی جائے گی۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی جانب سے ہدایات
پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی،پیکا ایکٹ
ترمیمی بل 2025 ء پرعملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن
ٹربیونل قائم کرے گی۔ ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا۔
ٹربیونل کے فیصلے کوسپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں کے اندرچیلنج کیا جا
سکے گا۔پیکاترمیمی بل کے تحت فیک نیوزپھیلانے والے افراد کو تین سال قید یا
20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ سوشل میڈیا پرغیرقانونی سرگرمیوں کی
تحقیقات کے لئے وفاقی حکومت قومی سائبرکرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی۔
ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا، جس کی تعیناتی تین سال کے لیے
ہوگی۔اتھارٹی کے افسران اوراہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے
اختیارات ہوں گے۔ نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا
سائبرکرائم ونگ تحلیل کردیا جائے گا۔منظورشدہ بل میں ایک نئی شق، سیکشن 26
(ا ے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کیخلاف سزاسے
متعلق ہے۔فیک نیوز یعنی جعلی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر نہ صرف پانچ
سال تک کی قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتاہے بلکہ اسے ناقابل ضمانت جرم
بھی قراردیا گیا ہے۔اس قانون کے تحت کارروائی کرنے کیلئے قانون نافذ کرنے
والے اداروں کو گرفتاری کے لیے کسی وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ،پیکا
آرڈیننس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس ترمیم میں فیک نیوزکی تشریح
نہیں کی اس لئے قانون کا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔حکومت کی کسی بھی اتحادی
جماعت کی جانب سے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 ء کی مخالفت نہیں کی گئی جبکہ
اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کیے جانے سے قبل ہی واک آؤٹ کردیاگیاتھا۔واضح
رہے کہ صحافتی تنظیموں نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کا بل مسترد کردیا
ہے۔پیکاترمیمی بل کیخلاف صحافتی تنظیموں نے سڑکوں پراحتجاج کیساتھ واضح
اعلان کیا ہے کہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائیگا۔
اظہاررائے کی آزادی جیسے بنیادی انسانی حق کے متعلق اس قدرسخت قانون سازی
کرتے وقت صحافی برادری کواعتمادمیں نہ لیناحکومت کی جلدبازی کامنہ بولتاثوت
ہے۔جس طرح فیک نیوز اورغیر قانونی موادکیخلاف قانون سازی وقت کی اہم ترین
ضرورت ہے اسی طرح صحافی برادری کواعتمادمیں لینااوراس قانون کے غلط استعمال
کو روکنے کیلئے ضروری قدامات کرنابھی نہایت ضروری ہے۔ریاست کاصحافت یاصحافت
کاریاست کے ساتھ ٹکراوہمیشہ نقصان دہ ثابت ہواہے۔ ایسی قانون سازی جولوگوں
کوآزادی اظہاررائے جیسے بنیادی حق سے محروم کردے کسی بھی معاشرے یاریاست
کیلئے مفیدنہیں ہوسکتی ۔آزادی اظہارِ رائے ایسا حق ہے جو انسانی معاشرے کو
ترقی اور ہم آہنگی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔عالمی قوانین بھی اس حق کو تحفظ
فراہم کرتے ہیں پر اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے حدود کا تعین بھی
ضروری ہے لہٰذاریاست،صحافت اورعوام کو مل کر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے
کہ آزادی اظہاررائے کے حق کاغلط استعمال نہ ہونے پائے!
|