بلوچستان سے تعلق رکھنے والے شاہ زیب رند نے دوسری بار
کراٹے کی ورلڈ چیمپئن شپ جیت لی میں سمجھتاہوں کہ یہ سردار یار محمد رند کا
لگایا ہوا وہ پودا ہے جو پاکستان کے لیے ریکارڈ پر ریکارڈ بنا رہا ہے جبکہ
ہماری باقی کھیلوں اور انکی تنظیموں میں بیٹھے ہوئے مگرمچھوں نے اپنے ہی
بچے کھانے شروع کررکھے ہیں سردار یار محمد رند کے بیٹے میر بیبرک رند نے
بھی چولستان جیپ ریلی فتح کررکھی ہے سیاست کے سلطان ہونے کے ساتھ ساتھ وہ
کھیلوں کے بھی بے تاج بادشاہ ہیں وہی پہلی بار شاہ زیب رند کو اپنے والد
سردار یار محمد رند کے پاس لیکر گئے تھے کہ اس بچے می بہت ٹیلنٹ ہے اور
مقابلہ لڑنے امریکہ جانا ہے لیکن اسکے پاس کرایہ تک نہیں حکومت نے ویسے ہی
آنکھیں پھیر رکھی ہیں اس لیے اس کی مدد کریں جس پر سردار صاحب نے اسے کھلے
دل سے آف دی کہ آپ کا سارا خرچہ میرے ذمے بس آپ اپنی تیاری کر جس کے بعد
شاہ زیب رند کراٹے کا ورلڈ چیمپئن بن گیا اور اب اسی تسلسل کو قائم رکھتے
ہوئے دوسری بار ورلڈ چیمپئن بن گیا پاکستان میں کسی بھی شعبہ میں ٹیلنٹ کی
کوئی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو ہمارے حکمرانوں کے پاس فہم وفراست کی کمی
ہے ہم نے چن چن کر نااہل لوگوں کو اپنی کھیلوں کا سربراہ بنا رکھا ہے اگر
سردار یار محمد رند جیسے لوگوں کو ملک میں کھیلوں کو پروان چڑھانے کی ذمہ
داری دیدی جائے تو ہم دنیا کو ہر کھیل میں فتح کرسکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے
یہاں کھیلوں کے ساتھ ساتھ غریب کسانوں اور پڑھے لکھے لوگوں کا گلا گھونٹا
جارہا ہے پنجاب کے کاشتکار پہلے گندم کے ہاتھوں خراب ہوئے اور اب سبزیوں نے
انکا کباڑہ نکال دیا ہے اوررہی بات بے روزگاری کی اسکا تو حشر نشر کررکھا
ہے اس وقت رائٹ سائزنگ کے باوجود وفاقی حکومت کے اداروں میں ڈیڑھ لاکھ
اسامیاں خالی ہیں وفاقی حکومت کی ملازمین کے بارے میں تازہ ترین سالانہ
شماریاتی رپورٹ برائے 2022-23 میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت اور
اس سے منسلک محکموں اور خود مختار اداروں کی کل منظور شدہ تعداد 12 لاکھ 39
ہزار 619 سے زائد ہے لیکن مالی سال 23-2022 تک اس کے ملازمین کی تعداد 9
لاکھ 47 ہزار 610 تھی۔ان میں سے تقریبا آدھے عہدوں (زیادہ تر وفاقی حکومت
میں ) کو حال ہی میں ختم کر دیا گیا تھا جب کہ کارپوریشنز اور خود مختار
اداروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا اس وقت وفاقی حکومت میں کام کرنے
والے ملازمین کی تعداد 7 لاکھ 10 ہزار 808 کے مقابلے میں 5 لاکھ 90 ہزار
585 ہے اس طرح ایک لاکھ 20 ہزار 223 اسامیاں خالی ہیں دوسری جانب خودمختار
اداروں میں 5 لاکھ 28 ہزار 811 منظور شدہ عہدوں کے مقابلے میں 3 لاکھ 57
ہزار 25 ملازمین کام کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک لاکھ 71 ہزار 786
عہدے خالی ہیں حالیہ برسوں میں کم بھرتیوں کو دیکھتے ہوئے مالی سال 23 کے
بعد سے خالی اسامیوں میں اضافہ ہوا ہے آبادی کے مقابلے میں خیبر پختونخوا
میں مجموعی طور پر وفاقی ملازمتوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے اگرچہ وفاقی
روزگار کے پول میں پنجاب کا حصہ سب سے زیادہ ہے لیکن اس کی آبادی کے حصے سے
نمایاں طور پر کم ہے سندھ اور بلوچستان میں بھی وفاقی ملازمتوں میں ان کی
آبادی کے مقابلے میں کم نمائندگی تھی خیبرپختونخوا کے ڈومیسائل کے حامل
ملازمین 28 فیصد سے زیادہ ہیں جب کہ وہاں کی آبادی کا حصہ 17 فیصد ہے،
وفاقی ملازمتوں میں پنجاب کا حصہ 46 فیصد ہے لیکن اس کی آبادی کا حصہ 53
فیصد ہے۔مجموعی اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 2 لاکھ 72 ہزار 773
ملازمین ہیں، جب کہ خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 67 ہزار 25 ملازمین ہیں، اس
کی بنیادی وجہ صوبے کے تقریبا ایک لاکھ 20 ہزار ملازمین ہیں، جو سول آرمڈ
فورسز میں کام کرتے ہیں، جو ان فورسز کا 52 فیصد ہے، اس کے علاوہ وفاقی
ملازمتوں میں سے 4.22 فیصد (24 ہزار 945) کا تعلق بھی خیبر پختونخوا کے ضم
شدہ اضلاع سے ہے جس سے اس کی مجموعی نمائندگی 32.5 فیصد ہوگئی ہے۔اس کے
مقابلے میں سول آرمڈ فورسز میں پنجاب کا حصہ 26 فیصد، بلوچستان کا 5.36
فیصد اور سندھ کا 4.4 فیصد رہا، وفاقی ملازمتوں میں آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان کا حصہ بالترتیب 1.2 فیصد اور 1.3 فیصد ہے سندھ سے تعلق رکھنے والے
افراد کے پاس مرکز میں 81 ہزار 619 اور بلوچستان میں 29 ہزار 479 سرکاری
نوکریاں ہیں سندھ کی 23 فیصد آبادی کے مقابلے میں ملازمتوں کا شیئر 13.8
فیصد ہے جب کہ بلوچستان کی 6.2 فیصد آبادی کے مقابلے میں ملازمتیں 4.99
فیصد ہیں تاہم صرف وفاقی سیکریٹریٹ(جس میں کل 13 ہزار 503 اسامیاں ہیں)میں
بنیادی طور پر پنجاب کے ڈومیسائل والے ملازمین کی تعداد 66.6 فیصد 9 ہزار
ہے اس کے بعد خیبر پختونخوا کے 14.2 فیصد ایک ہزار 911)، سندھ کے 11.5 فیصد
(ایک ہزار 550) اور بلوچستان کے 2.8 فیصد (375) ملازمین ہیں منظور شدہ
اسامیوں میں سے 83 فیصد پوسٹیں بھری ہوئی ہیں جب کہ 17 فیصد خالی بتائی گئی
ہیں کام کرنے والوں کی اصل تعداد کی بنیادی پیمانے کے لحاظ سے تقسیم سے پتا
چلتا ہے کہ 4.6 فیصد کا ایک چھوٹا سا حصہ بنیادی اسکیل یعنی گریڈ 17 سے 22
میں کام کرنے والے افسران کے پاس ہے جب کہ 95.4 فیصد بنیادی اسکیل یعنی
گریڈ 1 سے 16 میں کام کرنے والے ملازمین ہیں وفاقی حکومت میں خواتین کی کل
تعداد 30 ہزار 190 ہے جن میں گریڈ 17 سے 22 تک کی 6 ہزار 715 خواتین بھی
شامل ہیں 2022-23 کے دوران وفاقی حکومت کے 5 لاکھ 90 ہزار 585 ملازمین کی
کل تعداد میں سے خواتین ملازمین کا حصہ 5.11 فیصد رہا خواتین ملازمین کی
اصل تعداد کی تقسیم سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ گریڈ 17سے 22 میں 22.2 فیصد
عہدوں پر خواتین افسران موجود ہیں اور باقی 77.8 فیصد حصہ گریڈ 1 سے 16 تک
کی خواتین ملازمین کے پاس ہے ملازمین کی کل ورکنگ فورس میں بی ایس 5 کے
ملازمین کی تعداد سب سے زیادہ تھی، جس کا حصہ 22.8 فیصد تھا۔بنیادی پیمانے
کے لحاظ سے تجزیے سے مزید ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایس 20 میں 1.3 فیصد کمی کا
رجحان رہا، جب کہ بی ایس 22، بی ایس 21، بی ایس 19، بی ایس 18 اور بی ایس
17 میں بالترتیب 11 فیصد، 0.5 فیصد، 4.1 فیصد، 7.8 فیصد اور 2.5 فیصد اضافہ
ہوا۔گریڈز 16، 13، 12، 9 اور 7 کی اصل تعداد میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی
ہے، جس کا حصہ بالترتیب 3.5 فیصد، 6.1 فیصد، 19.6 فیصد، 8.3 فیصد اور 2.3
فیصد ہے دوسری جانب گریڈ 15، 14، 11، 10، 8، 6 اور 1 سے 5 کی اصل تعداد میں
بالترتیب 9.97 فیصد، 5.8 فیصد، 0.5 فیصد، 7.4 فیصد، 26.3 فیصد، 4.99 فیصد
اور 4.5 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔مالی سال 2023 میں گریڈ 17 سے 22 کے مقابلے
میں مجموعی طور پر کام کرنے والوں کی تعداد میں 4 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ
گریڈ 1 سے 16 کے مقابلے میں 2.58 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔پنجاب (بشمول
اسلام آباد) میں خواتین کی ملازمتوں کا حصہ 66.8 فیصد ہے، اس کے بعد سندھ
کا حصہ 15.4 فیصد دیہی علاقوں میں 5.77 فیصد اور شہری علاقوں میں 9.63 فیصد
، خیبر پختونخوا میں 9.99 فیصد، بلوچستان میں 3.67 فیصد، جب کہ آزاد جموں و
کشمیر، گلگت بلتستان اور سابق فاٹا کا حصہ بالترتیب 1.90 فیصد، 1.14 فیصد
اور 1.12 فیصد ہے۔وفاقی حکومت میں کام کرنے والے مجموعی 5 لاکھ 90 ہزار 585
ملازمین میں سے 5 لاکھ 60 ہزار 395 مرد تھے، اس طرح ملازمتوں میں مردوں کا
حصہ 94.89 فیصد، جب کہ خواتین ملازمین کا حصہ 5.11 فیصد ہے، جس کا مطلب ہے
کہ خواتین اور مردوں کا روزگار کا تناسب تقریبا 1:19 ہے۔وفاقی ڈویژنز میں
داخلہ ڈویژن سول آرمڈ فورسز کی وجہ سے سب سے بڑا انتظامی یونٹ تھا، جو اصل
کام کرنے والی طاقت کا 42.83 فیصد (2 لاکھ 52 ہزار 932) نکلا۔دوسرا سب سے
بڑا یونٹ ڈیفنس ڈویژن ہے، جس کا حصہ 22.77 فیصد ہے، جب کہ ریلوے، مواصلات
اور ریونیو ڈویژن 11.26 فیصد، 5.04 فیصد اور 3.26 فیصد کے ساتھ بالترتیب
تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔گریڈ 17 سے 22 میں کام کرنے والے 27
ہزار 11 افسران کی اصل تعداد میں گریڈ 17، 18، 19، 20، 21 اور 22 کا حصہ
بالترتیب 53.48 فیصد، 29.32 فیصد، 11.24 فیصد، 4.16 فیصد، 1.46 فیصد اور
0.34 فیصد رہا حکومت اگر یہ خالی آسامیاں ہی مکمل کرلے تو بہت سے لوگ اپنی
جانوں کی قربانی دینے سے بچ جائیں گے جو آئے روز بہتر مستقبل کی خاطر ملک
چھوڑ کر جانے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب جاتے ہیں ۔
|