غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے امریکی اقدام
نے این آر سی تحریک کی یادتازہ کر دی ۔ یہ مشیت ایزدی کا انتقام ہے کہ
ہندوستان کے اندر بنگلا دیشیوں کے نام پر اٹھارہ لوگوں بھی ملک سے نکالنے
میں ناکام ہونے والےامریکہ سے اٹھارہ ہزارہندوستانیوں کو واپس لانے پر
رضامند ہوگئے۔ چین کو لال آنکھیں دکھانے کی بات کرنے والا چھپنّ انچی وزیر
اعظم نظریں جھکا کر آنسو بہا رہاہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب امریکہ
جاتے تھے تو وہ بیچارے ان کے استقبال میں جھومتے ، ناچتے، گاتے اور بھارت
ماتا کی جئے کے نعرے لگاتے تھے ۔ مودی جی کی دعوت پر ’ہاوڈی مودی ‘میں جوق
در جوق آتے لیکن اب وزیر اعظم کی زبان سے ان کی ہمدردی کا ایک لفظ نہیں
پھوٹتا ۔ یہ بیچارے ٹرمپ کی مسلم دشمنی سے خوش ہوکر ان کامیابی کے لیے ہون
پوجن کرتے تھے لیکن وہی کامیاب ہوکران کا دشمن بن گیا اور مودی نے اپنی
طوطا چشمی نگاہ پھیر لی۔
قصرِ ابیض میں پہلے ہی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن سے متعلق
بات کرتے ہوئے امریکہ میں اُن کی موجودگی کو ’حملہ‘ قرار دے کر کہا تھا کہ
وہ ’پیدائش پر شہریت‘ کے قانون کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ
نے 2018 میں کہا تھا کہ "غیر قانونی امیگریشن تمام امریکیوں کی زندگیوں کو
متاثر کرتی ہے۔ غیر قانونی ملک میں داخلہ امریکی شہریوں کو نقصان پہنچاتا
ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان پر بوجھ اور عوامی تحفظ کے لیے نقصان دہ ہے۔ اور
مقامی اسکولوں، اسپتالوں اور عام معاشرے پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتا ہے۔ غریب
ترین امریکیوں سے قیمتی وسائل چھین لیتا ہے جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت
ہوتی ہے۔" اس بے بنیاد الزام تراشی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر طارق حسن کے مطابق اگر آپ تارکین
وطن کو مکمل طور پر امریکہ سے نکال دئیے جائیں تو فی کس جی ڈی پی میں 5 سے
10 فیصد کی کمی آئے گی ۔تارکین وطن کے خلاف زہر اگلنے والے ٹرمپ کو معلوم
ہونا چاہیے کہ اے آئی سی کی تحقیق کے مطابق 2022 میں تارکین وطن گھرانوں نے
تقریباً 580 ارب ڈالرٹیکس کی ادائیگی کی جو امریکہ میں جمع ہونے والے
مجموعی مقدار کا چھٹا حصہ ہونے کے سبب ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔
یہ ٹیکس نہ صرف قانونی بلکہ غیر قانونی تارکین وطن ادا کرتے ہیں۔انسٹیٹیوٹ
آن ٹیکسیشن اینڈ اکنامک پالیسی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ غیر قانونی تارکین
وطن نے 2022 میں وفاقی، ریاستی اور مقامی ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 100 ارب
ڈالر ادا کیے۔
ان حقائق کے باوجود ٹرمپ اور ان کے حواری مودی و شاہ کی زبان بولتے ہیں ۔
امیت شاہ نے در اندازوں کو دیمک کہہ کر تذلیل کرنے کے بعد ان پرملک کو
کھوکھلا کرنے کا بہتان لگایا تھا ۔ جھارکھنڈ کی انتخابی مہم میں خود مودی
نے بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں پر روٹی اور ماٹی کے ساتھ بیٹی بھی چھین کر لے
جانے کا جواوچھا الزام لگایا تھا وہ اب وہ امریکہ کے ہندوستانی تارکین وطن
پر لوٹ آیا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ حکمنامہ میں الزام لگایا چونکہ
غیر قانونی تارکین وطن کی وجہ سے ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا
ہے اس لیےوہ مذکورہ بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے حتی المقدور قانونی اقدام
کریں گے۔ ان کےحکم کی بجا آوری میں امریکی انتظامیہ نے ملک بدر کرنے کے
لیے پندرہ لاکھ لوگوں کی جو پہلی فہرست تیار کی ہے اس میں اٹھارہ ہزار
ہندوستانی ہیں لیکن یہ تو جملہ تعداد کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے۔
امریکہ کے اندرغیر قانونی تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد والے پانچ ممالک
میں میں سے چار پڑوس کے وسطی امریکہ سے ہیں مگر ان کے بیچو بیچ ہزاروں میل
کی دوری پر واقع ہندوستان بھی ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن میں اکتالیس لاکھ
میکسیکو اور آٹھ لاکھ ایل سیلواڈور سے امریکہ میں آکربسے ہیں۔ تیسرے نمبر
پر ہندوستان کے سوا سات لاکھ اور پھر گواٹے مالا اور ہنڈورس کی باری آتی
ہے۔ 2023-2024 میں غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے
والے ہندوستانیوں کی تعداد 90,415 تھی جنھیں سرحد پرگرفتار کرکے واپس بھیجا
گیا ۔ان کے علاوہ 1100 سے زیادہ کو امریکہ سے ملک بدر بھی کیا گیا۔ نئی
دہلی میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے 15 جنوری کو انکشاف کیا کہ 50 لاکھ
سے زیادہ ہندوستانی شہریوں کے پاس امریکی ویزا ہے۔
ہندوستانیوں میں امریکہ جاکر رہنے کے جنون کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا
ہے کہ 2023 میں مریکی حکومت نے جملہ 3,86,000 لوگوں کو H-1B ویزہ دیا گیا
اس میں سے تین چوتھائی ہندوستانی تھے ۔ ہندوستانیوں کے حوالے سے امریکی
انتظامیہ کی بے رخی کا یہ عالم ہے کہ امریکہ میں رہنے والے ایک ہندوستانی
جوڑے کے والدین کو ویزے کے باوجود نیو آرک ہوائی اڈے سے بیرنگ لوٹا دیا
گیا ۔ وہ بیچارے اپنے بچوں کے پاس رہنےکے لیے گئے تھے مگر انہیں محض اس لیے
ہوائی اڈے پر روک دیا گیا کیونکہ ان کے پاس واپسی کا ٹکٹ نہیں تھا ۔ اس سے
پہلے یہ اصرار نہیں تھا۔ ان کے بچوں سے ٹکٹ کا انتظام کروایا جاسکتا تھا
مگرانسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انہیں لوٹا دینا حیوانیت نہیں تو
اور کیا ہے؟
2023 میں جاری شدہ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں دیگر ممالک سے آکر بسنے
والوں کی آبادی لگ بھگ چار کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ تھی۔ یہ تعداد امریکہ کی
مجموعی آبادی کا 14.3 فیصد ہے۔ ان میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ تارکین وطن کا
تعلق میکسیکو سے ہے۔ اس کے بعدہندوستان کا نمبر آتا ہے جس کے 28 لاکھ اور
چینی نژاد 25 لاکھ لوگ امریکہ میں رہتے ہیں ۔ یہ ایک تشویشناک پہلو ہے کہ
چین کے پچیس لاکھ میں سے صرف دولاکھ دس ہزار یعنی آٹھ فیصد غیر قانونی
باشندے ہیں جبکہ ہندوستان کے اٹھائیس لاکھ میں سے ساڑھے سات لاکھ یعنی پچاس
فیصد سے زیادہ غیر قانونی طور پر رہتے ہیں ۔ اس سے وہ پول بھی کھل جاتا ہے
کہ دنیا بھر میں ہندوستانی ہی سب سے زیا دہ قائدے قانون کا پاس و لحاظ کرتے
ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کا بیشترکاروبارتارکین
وطن کے دم پر قائم ہے۔
نام نہاد واحد سُپر پاور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کے اندر عمر
رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے سبب ایک طرف تو اپنے
شہریوں کی صحت اور دیکھ بھال کے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب کام کے
قابل کم عُمر افراد کی کمی ہورہی ہے۔ اس بابت خود امریکی کانگریس کو اعتراف
ہے کہ 2040 تک امریکہ میں شرح اموات شرح پیدائش سے زیادہ ہوجائے گی اور
ایسے میں آبادی کے اضافے کا واحد ذریعہ امیگریشن یعنی تارکینِ وطن ہی ہوں
گے ۔ سرکاری ادارے بیورو آف لیبر سٹیٹ سٹکس کے مطابق تقریباً 14 فیصد
تارکین وطن امریکہ میں افرادی قوت کا تقریباً 19 فیصد ہیں۔ان کے سبب معاشرے
میں جدت کا اضافہ پیداواری صلاحیت کو فروغ ملتا ہے اور امریکی معیشت کی
مجموعی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔
امریکہ کے اندر زرعی مزدوروں میں تارکین وطن 70 فیصد ہیں اور ان کی اکثریت
بلا دستاویز ہے ۔ان کے ملک بدر ہوجانے سے فصلیں اُگانے، پھلوں اور سبزیوں
کی کاشت اور کٹائی و فروخت میں شدید مُشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔یہ اعتراض
بھی غلط ہے کہ ان کے سبب مقامی لوگوں کی اجرت کم ہوتی ہے کیونکہ یونیورسٹی
آف کیلیفورنیا کی تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مقامی طور پر پیدا ہونے
والے روزگار کے مواقع اور اجرتوں پر امیگریشن کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
امریکہ کی حالیہ ترقی میں تارکین وطن یا اُن کے بچوں کا غیر معمولی حصہ ہے۔
500 سب سے بڑی امریکی کمپنیوں کا تقریباً 45 فیصد تارکین وطن یا اُن کے
بچوں کا قائم کردہ ہے۔ان لوگوں نے ایک ارب ڈالر یا سے زیادہ مالیت کے55
فیصد امریکی سٹارٹ اپس شروع کیے ہیں ۔ 2022 سے 2023 کے تعلیمی سال میں دس
لاکھ سے زائد بین الاقوامی طالب علموں نے امریکی معیشت میں 40 ارب ڈالر
ڈالے۔ ام کی فیس و رہائش کے اخراجات کی بدولت 3 لاکھ 68 ہزار سے زائد
ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔ان حقائق کے باوجود سیاستدانوں نے میڈیا کی
مدد سے 55 فیصدامریکی عوام کے ذہن پراگندہ کرکے انہیں نقل مکانی پر سخت
کنٹرول کرنے کا حامی بنا دیا۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زمانے میں آسام کے اندر چائے کی کاشت کے لیے بنگال
سے مزدور لائے گئے کیونکہ وہ پورا ایک ہی صوبہ تھا پھر ملک تقسیم ہوگیا تو
وہی لوگ جنھوں نے آسام کو چائے کےسبب دنیا میں مشہور کرکے خوشحالی لائی
تھی غیر ملکی ہوگئے اور ان کے خلاف نفرت انگیز سیاست ہونے لگی ۔ قوم پر ستی
ایک ایسا فتنہ ہے کہ اس کے اثرات امریکہ اور ہندوستان پر یکساں ہیں۔ یہاں
شیخ حسینہ کو پناہ دے کر غریب بنگلا دیشی کو ستایا جاتا ہے اور وہاں امبانی
کی پذیرائی کر کے ہندوستانی محنت کشوں کو بھگایا جاتا ہے۔ نفرت کی آگ میں
اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو چھپا کر کسی بے ضرر کو سارے مسائل کے لیے
ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سیاستداں قوم پرستی
کی آنچ پر سیاسی روٹیاں سینک کر اپنی سیاسی بھوک مٹانے کے لیے غریبوں کے
پیٹ پر لات مارتے ہیں۔ اس باطل نظریہ کا جو استعمال ٹرمپ امریکہ میں کرتے
ہیں وہی ہندوستان میں مودی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نےقوم پرستی کی
جن فتنہ سامانیوں سےخبردار کیا تھا اس کا ثمر آج جا بجا دیکھنے کو مل رہا
ہے ؎
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
|