بیوقوف آدمی کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ سب کو
اپنی طرح احمق سمجھتا ہے۔اس پر اگر کسی کو یقین نہ آتا ہوتو وہ امریکہ کے
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھ لے۔ ٹرمپ نے پہلے تو اپنے آپ کو امن کا علمبردار
ثابت کرنے کی سعی کی اور ابھی تعریف و توصیف کا سلسلہ ختم بھی نہیں ہوا تھا
کہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی۔ موصوف نے اسرائیل کوبھاری اسلحہ کی فراہمی
پر لگائی جانے والی بائیڈن سرکار کی ۷؍ ماہ پرانی پابندی کو ختم کرنے کے
بعد یہ تجویز پیش کی کہ غزہ کی صفائی اور تعمیر نو تک وہاں کی بے گھر آبادی
کو اپنے عرب ممالک اپنے یہاں پناہ دیں۔ ٹرمپ نے حماس کے ساتھ اسرائیل کی 15
ماہ کی جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ :’’ میں
اس (غزہ) کے بجائے کچھ عرب ممالک کے ساتھ مل کر ایک مختلف جگہ پر مکانات
تعمیر کروں گا، جہاں وہ (فلسطینی) تبدیلی کے لیے امن سے رہ سکیں‘‘۔ اس
تجویز کو پوری مسلم دنیا نےایک زبان میں مسترد کیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔
اسلامی ممالک متحد ہوکر ٹرمپ سمیت امریکہ کو یہ پیغام دیا؎
یہ دور پھر کسی فرعون کو ڈبوئے گا
تمام نیل کا پانی عصا کی زد پر ہے
اب سنا ہے ٹرمپ غزہ والوں کو یوروپ میں بسانے کی سوچ رہے ہیں ۔ فلسطینی تو
اپنا وطن چھوڑنے سے رہے۔ انہیں چاہیے کہ یہودیوں کو یوروپ میں بسا دیں تاکہ
مشرق وسطیٰ کے علاوہ دنیا بھر میں امن قائم ہوجائے۔ ساری دنیا یہ بات جانتی
ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے سے قبل بلڈر تھے ۔ ان کے ٹرمپ ٹاورس ممبئی سمیت
دنیا بھر میں موجود ہیں اس لیے ممکن ہے وہ عربوں کی دولت سے غزہ والوں کے
لیے مفت کی زمین پر کوئی کالونی تعمیر کرنے کا ٹھیکہ لینے کے چکر میں ہوں
لیکن یہ داوں الٹا پڑگیا اور اس نے ان کی’امن کا فرشتہ والی ‘ شبیہ کو غزہ
سے زیادہ تباہ و برباد کردیا۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ خود امریکی صدر
نے فرما دیا غزہ کی 23 لاکھ سے زیادہ تر آبادی کو دوبارہ آباد کرنا عارضی
یا طویل مدتی ہو سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر پورا سچ بولنے کے بجائے آدھا
یعنی طویل مدتی نقل مکانی کا امکان چھپا دیتے تب بھی انہیں شک کا فائدہ دیا
جاسکتا تھا لیکن ان دو الفاظ سے تو بلی تھیلے سے باہر آگئی اور حماس تو
کجا مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ’
بخشو بی بلی چوہا لنڈورا (یعنی دم کٹا) ہی بھلا‘ ۔
اس کہاوت کی کہانی امریکہ و فلسطین پر من و عن صادق آتی ہے۔ ایک دلیر چوہے
نے اپنے والدین کے شکار کا انتقام لینے کی خاطر حماس کی مانند پیچھے سے
آکر بلی کے کان کاٹ لیے ۔ آگ بگولا بلی نے چوہے کو پکڑنے کے لئے چھلانگ
لگائی تو وہ جھکائی دے کر بچ نکلا ۔بلی نے پھر بھی چوہے پر پنجہ مار کر اس
کی دم اکھیڑ لی۔ چوہا جان بچا کراپنے بل (یعنی سرنگ ) میں پہنچا اور خدا کا
شکر ادا کیا حالانکہ اسے لنڈورا ہونے کا دکھ تھا۔ ٹرمپ کی مانند کائیاں بلی
نے شکارکوپھر سے پھنسانے کے لیے ایک چال چلی۔وہ چوہے کی بہی خواہی کا چولا
اوڑھ کر بل کے پاس گئی اور بولی،’’میرے بھانجے، توخواہ مخواہ میرے مذاق سے
ڈ رگیا۔ اپنی خالہ کے پاس باہر آمیں تیری دم جوڑ دوں۔ لنڈورا ٹھیک نہیں
لگتا۔‘‘ مگر مچھ کے ان آنسووں پر سیانے چوہے نے وہی کہا جو حماس سمیت ساری
مسلم دنیا کہہ رہی ہے۔ ’’بخشو بی بلی! چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصر اور اردن سے کہا تھا کہ وہ جنگ زدہ غزہ کی
پٹی سے فلسطینیوں کو اپنے یہاں لے جائیں لیکن امریکہ کے دونوں اتحادیوں نے
ٹرمپ کی اس تجویز کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔ امریکی صدر کے اس گمراہ کن
خیال کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے صحافیوں
کو بتایا کہ فلسطینیوں کے حوالے سے مجوزہ منتقلی کو مسترد کرنا ان کے ملک
کا مضبوط اور غیر متزلزل موقف ہے ۔مصر کی وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ
فلسطینیوں کی عارضی یا طویل مدتی منتقلی سے خطے میں تنازعات کو پھیلانے اور
اس کے لوگوں کے درمیان امن اور بقائے باہمی کے امکانات کو نقصان پہنچتا
ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں پہلے ہی اسرائیل پر نسلی کشی کا الزام لگا چکی
ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے ٹرمپ
کی تجویزکو فلسطینی عوام کی نسلی صفائی اورمصائب میں تیزی کے ساتھ خطرناک
حد تک اضافہ کا موجب قرار دیا۔اقوام متحدہ کے ماہرین اسرائیلی کارروائی کو
ایک نسلی یا مذہبی گروہ کا مخصوص علاقوں سے دوسرے گروہ کی شہری آبادی کو
تشدد اور دہشت گردی کے ذریعہ ہٹانے کے لیے وضع کردہ پالیسی گردانتے ہیں ۔
اس مذموم تجویز سے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی حکومت میں شامل انتہائی
دائیں بازو کے شراکت دار وزیر خزانہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اسے نہ صرف
ایک عظیم خیال بلکہ اسرائیل تحفظ کی خاطر مہمیز قرار دے کر ’بھری بزم میں
راز کی بات کہہ دی‘۔مصر اور اردن سمیت خود فلسطینیوں کو اندیشہ بلکہ یقین
ہے کہ اسرائیل پھر کبھی انہیں واپسی کی اجازت نہیں دے گاکیونکہ یہ اس کی
سابقہ روایت رہی ہے۔ 1948 کے دوران، تقریباً سات لاکھ فلسطینیوں کو نقل
مکانی پر مجبور کیا گیا مگر وہ اپنے گھروں کو کبھی نہیں لوٹ سکے۔ ان پناہ
گزینوں کی اولادکے ساتھ تعداد اب تقریباً ساٹھ لاکھ ہے۔یہ پناہ گزین اب غزہ
سمیت مقبوضہ مغربی کنارے ، اردن، لبنان اور شام میں موجود ہیں ۔1967 کے بعد
بھی 3؍ لاکھ فلسطینیوں کو اردن جانا پڑا لیکن وہ شکست کے دن تھے مگر اس
بارکی فتح کے بعد وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا بقول قیصرا لجعفری؎
تمھاری آنکھوں پہ شب خون پڑنے والا ہے
تمھارا خواب ہماری انا کی زد پر ہے
ٹرمپ کی حماقت اور رسوائی کے دو دن بعد جنگ بندی معاہدے میں اہم ثالث قطر
نے اربیل یہود اور دو دیگر یرغمالیوں کو جمعہ تک رہا کر نے کی یقین دہانی
کی تو اس کے بعد شمالی غزہ میں فلسطینیوں کے راستے سے اسرائیل ہٹ گیا ۔ یہ
کام ہفتے کے آخر میں ہونا تھا مگر اسرائیل کے اڑیل پن نے دو دن کی تاخیر
کروادی خیر دیر آید درست آید کی مصداق فلسطین کی تاریخ میں پہلی بار
اسرائیل نے جنگ کے ذریعہ ہتھیائے ہوئے مقبوضہ علاقے خالی کیے اور اپنی فتح
کا پرچم لہراتے ہوئے ہزاروں فلسطینی حالیہ جنگ میں سب سے زیادہ تباہ شدہ
شمالی غزہ میں لوٹنے لگے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی رہی ہے کہ جب وہ فلسطینیوں
کو اُن کے علاقوں سے بے دخل کرتا ہے تو واپسی کی اجازت نہیں دیتا۔حماس کے
ساتھ جنگ کے ابتدائی ہفتوں کے15 ماہ بعد لاکھوں فلسطینیوں کی شمالی غزہ
میں واپسی نے ڈرامائی انداز میں تاریخ الٹ دی ۔
یہ نہایت ایمان افروز منظر تھا کہ جب فلسطینیوں کا پرجوش ہجوم، بچوں کے
ہاتھ تھامے بزرگوں کو وہیل چیئرز دھکیلتے ہوئے اپنی سرزمین میں داخل ہورہے
تھے ۔ ان ساتھ بستر ، پانی کی بوتلیں اور دیگر سامان تھا ۔ دیکھتے دیکھتے
لوٹنے والوں کی تعداد تقریباً تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ سارا دن اور رات سمندر
کنارے پیدل سفر کرکے یہ قافلۂ سخت جاں جب اپنی منزل مقصود کے قریب پہنچا
تو مسلح حماس کے مجاہدین فتح کا نشان اٹھاکر ان کااستقبال کیا ۔ یہ ایک
مشترکہ جشنِ فتح تھا ۔ ٹرمپ اگر اس کے مناظر ٹیلی ویژن پر دیکھ لیں تو ان
کے دماغ میں ان کی منتقلی کا خیال بھی کبھی نہیں آئے گا۔ 6 کلومیٹر پیدل
چلنے کے بعد تین بچوں کی ماں یاسمین ابو امشاہ جب غزہ سٹی کے اپنے تباہ شدہ
لیکن رہائش کے قابل گھر تک پہنچنے پر ایک سال بعد اپنی چھوٹی بہن سے ملیں
تو ان کی ساری تھکن راحت میں بدل گئی۔ یاسمین نے کہا، یہ طویل ہونے کے
باوجود خوشگوار سفر تھا۔ایساجملہ وہی کہہ سکتا ہے جو اس سفر کے اگلے پڑاو
میں یقین رکھتا ہو اور اس کو قیصرا لجعفری نے یوں بیان کیا ہے؎
کھلیں گے مسجدِ اقصیٰ کے بند دروازے
تمھاری ساری خدائی خدا کی زد پر ہے
جنگ کے ابتدائی دنوں میں، اسرائیل نے شمال سے انخلاء کا حکم دینے کے بعد
زمینی دستوں کوبھیج کراسے سیل کر دیا۔ اس دراندازی کے نتیجے میں تقریباً دس
لاکھ لوگ جنوب کی طرف چلے گئے اور سیکڑوں ہزار شمال میں رہ گئے ۔شدید ترین
جنگ اور بدترین تباہی کے شکار ہونے والے یہ استقامت پہاڑ انسانی تاریخ کی
بدترین سفاکی کے چشم دید گواہ ہیں ۔ ان میں سے ایک شمالی غزہ کے رہنے والے
اسماعیل نے اپنے پر مسرت جذبات کا اظہار کرتےہوئے کہا، لوگ گنگنا رہے ہیں ،
دعائیں کر رہے ہیں اوران کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہیں ۔ واپسی کی خوشی
بیان کرتے ہوئے وہ بولے ان کا خاندان 1948 کی جنگ کے دوران نقل مکانی کرنے
والے لاکھوں لوگوں میں شامل تھا ۔ اسماعیل کے مطابق وہ سوچنے لگے تھے کہ
انہیں بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح واپسی نصیب نہیں ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا
۔ وہ یہودیوں کی مانند مصائب سے خوف کھاکر دنیا بھر میں بکھر جانے کے بعد
دوسروں کی مدد سے سازش کرکے اپنا ملک بنانے والوں میں سے نہیں بلکہ دشمن کے
دانت کھٹے کرکے فتحیاب ہونے والی جانباز قوم کا حصہ ہیں ۔ ایسے لوگوں کی
بابت قیصرا لجعفری کہتے ہیں ؎
جہادِ شب کا مقدر نظر میں روشن ہے
چراغِ مصطفوی رہ گزر میں روشن ہے
|