غزہ کی خون میں لتھڑی ہوئی سرزمین پر ایک نئی امید کی کرن
نمودار ہوئی ہے۔ غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن کے تحت ایک نئے امدادی نظام کا
آغاز پیر کے روز کیا گیا، جس کا مقصد فلسطینیوں تک خوراک پہنچانا ہے، جو
اسرائیل کی ظالمانہ اور غیر انسانی ناکہ بندی کے باعث شدید بھوک، بیماری
اور بدحالی کا شکار ہیں۔
یہ نیا نظام امریکہ اور اسرائیل کی حمایت سے متعارف کروایا گیا ہے، جسے
اقوام متحدہ اور کئی امدادی اداروں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا
ہے کہ اسرائیل امداد کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، اور انسانی ہمدردی
کے نام پر ایک ایسا نظام متعارف کرا رہا ہے جو دراصل فلسطینی عوام پر مزید
دباؤ ڈالنے کا حربہ ہے۔
فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ وہ رواں ہفتے کے اختتام تک غزہ کی نصف آبادی، یعنی
ایک ملین افراد تک خوراک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن اس نظام کے شفاف
ہونے پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں — تقسیم کے مراکز کہاں ہیں؟ امداد کس
کو دی جا رہی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر، یہ فیصلہ کون کر رہا ہے؟
ادھر حماس نے خبردار کیا ہے کہ وہ اس نئے امدادی نظام اسرائیل اور اس کے
حامیوں کے مقاصد کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔
لیکن ان تمام معاملات کے بیچ، سب سے بڑی کہانی فلسطینیوں کی مظلومیت اور
اسرائیل کے غیر انسانی رویے کی ہے۔ پیر کے روز اسرائیلی فضائی حملوں نے ایک
مرتبہ پھر غزہ کو ماتم کدہ بنا دیا۔ ایک اسکول، جو ایک پناہ گاہ میں تبدیل
کیا گیا تھا، رات کے اندھیرے میں تین بار نشانہ بنایا گیا، جب لوگ نیند میں
تھے۔ فائر بریگیڈ کے اہلکار جلتے ہوئے اجسام کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے،
اور اسپتالوں میں لاشوں کے انبار لگ گئے۔
اس حملے میں کم از کم 36 بے گناہ شہری شہید ہوئے، جن میں ایک باپ اور اس کے
پانچ معصوم بچے بھی شامل تھے۔ اسی روز ایک اور حملے میں ایک ہی خاندان کے
16 افراد شہید ہوئے — ان میں پانچ خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔
یہ ظلم کوئی نیا واقعہ نہیں۔ اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک
تقریباً 54,000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی
ہے۔ اسرائیل نے اس دوران غزہ کو عملاً کھنڈر بنا دیا ہے، اور 90 فیصد آبادی
کو بے گھر کر دیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ "حماس کا خاتمہ" چاہتے ہیں، لیکن سوال یہ
ہے کہ ہزاروں معصوم شہریوں کی جانیں لینے، اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں
پر بمباری کرنے، اور لاکھوں افراد کو بھوک و افلاس کی دلدل میں دھکیلنے سے
کیا واقعی دہشت گردی ختم ہو گی؟ یا یہ خود ایک ریاستی دہشت گردی کی بدترین
مثال ہے؟
یروشلم میں بھی نفرت کی آگ سلگ رہی ہے۔ قوم پرست اسرائیلیوں نے مشرقی
یروشلم پر قبضے کی سالگرہ کے موقع پر جلوس نکالا، "عربوں کو موت" جیسے نعرے
لگائے، اور فلسطینی باشندوں کو ہراساں کیا۔ ایک گروپ نے اقوام متحدہ کے
فلسطینی پناہ گزین ادارے کے کمپاؤنڈ پر بھی دھاوا بولا — یہ سب کچھ دنیا کی
آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، لیکن عالمی ضمیر خاموش ہے۔
آج جب دنیا انسانی حقوق کی بات کرتی ہے، غزہ کے معصوموں کا خون پکار پکار
کر پوچھتا ہے:
کیا فلسطینی انسان نہیں؟
کیا ان کی زندگی، ان کے خواب، ان کے بچوں کی مسکراہٹیں، عالمی انصاف کے
پیمانوں پر نہیں آتیں؟
وقت آ چکا ہے کہ دنیا اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، اور اسرائیل کو اس کے
غیر انسانی اقدامات کا جواب دہ بنایا جائے۔ امدادی نظام اگر واقعی انسانی
ہمدردی کے لیے ہے، تو اسے سیاسی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ کیونکہ بھوکے
بچوں کے پیٹ اور جنگ سے ٹوٹے ہوئے دل، کسی کے ایجنڈے کا میدان نہیں ہوتے۔
|