الحاق کے نام پر بھارت کا ریاست کشمیر پر قبضہ

15 اگست 47 ءکو برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے وقت 600 دیسی ریاستوں کے مستقبل کا سوال سامنے آیا یہ ریاستیں ہندومہاراجوں ٬ مسلمان نوابوں اور سکھ سرداروں کے قبضے میں تھیں 3 جون 47 ءکے قانون آزادی ہند میں ان ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان سے الحاق کریں یا دونوں سے الگ آزاد رہیں۔ مگر اس صورت میں حکومت برطانیہ ان کو دولت مشترکہ میں شامل نہیں کرے گی۔ 25 جولائی 47 ءکو برصغیر میں انگریزی حکومت کے آخری نمائندہ یعنی وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن نے والیان ریاست ہائے ہند کو چیمبر آف پرنسز کے ایڈریس کے جواب میں ریاستی حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ وہ الحاق کے سوال کا فیصلہ کرتے وقت ملکی حالات عوام کی خواہشات اور ریاست کے جغرافیائی محل وقوع کا خیال رکھیں انہوں نے ان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ خود مختار رہنے کی لائن پر نہ سوچیں کیونکہ ایسا کرنا عوام کے مفاد سے غداری ہوگی۔ ان حالات میں جموں وکشمیر کی صورتحال واضح تھی یہاں مسلمانوں کی آبادی 77 فیصد سے بھی زیادہ تھی البتہ حکمران ہندو تھا۔ ریاست کی قابل عبور سرحد کا بیشتر حصہ پاکستان سے ملتا تھا۔ سیاسی ٬ اقتصادی٬ جغرافیائی اور اس قسم کے دیگر تمام امورات پاکستان سے الحاق کے حق میں جاتے تھے۔ یہ بات بھی محل نظر تھی کہ یہاں کے عوام بالخصوص مسلمان عوام ربیع صدی سے ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد آزادی میں مصروف تھے۔

مہاراجہ ہری سنگھ ریاستی عوام کی خواہشات سے بے نیاز رہ کر کانگرسی لیڈر وں کے ساتھ ایک گہری اور عوا م دشمن سازش میں مصروف تھے ٬ کانگریسی لیڈر بھی ریاست کو بھارت میں شامل کرنے کے لئے بے تاب تھے اور اس مقصد کے لئے سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔ 3 جون 47 ءکے اعلان سے چند دن قبل ہی کانگرس کے صدر آچاریہ کرپلانی کشمیر آئے اور یہاں نیشنل کانفرنسی کارکنوں ٬ہندو لیڈروں اور مہاراجہ ہری سنگھ اور ا نکے مشیروں کے ساتھ پراسرار ملاقاتیں کرتے رہے۔ کانگریس کے کمیونسٹ لیڈر بھی ان دنوں بار بار کشمیرآئے۔ اگست 47 کے پہلے ہفتے میں کانگرس کے ”روحانی باپ“ گاندھی جی بھی غالباً زندگی میں پہلی اورآخری بار کشمیر چلے آئے۔ جونہی انہوں نے اپنے دورے کا اعلان کیا تو ریاست کے عوامی نمائندوں نے ان کے خلاف زبردست احتجاج کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ گاندھی جی کانگرسی لیڈروں اور ہری سنگھ کی ناپاک سازش کی آخری منزلیں طے کرانے آ رہے ہیں۔

جب ریاست میں گاندھی جی کے دورے کے خلاف ایک طوفان برپا ہوا تو انہوں نے کشمیر جانے سے قبل دہلی میں ایک بیان جاری کیا ” میں کشمیر اس لئے نہیں جارہا ہوں کہ مہاراجہ بہادر پر کسی قسم کا دباﺅ ڈال دوں کہ وہ انڈین یونین میں شامل ہوں۔ اس سوال کا فیصلہ کرناکہ ریاست کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے یا ہندوستان میں وہاں کے عوام کا کام ہے میں اس میں کوئی دخل نہیں دینا چاہتا ۔ نہ میں وہاں نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ عبداللہ اوران کے رفقاء کو جیلوں سے رہا کرانے کے لئے جا رہا ہوں“۔
(روزنامہ ”ٹریبون“ لاہور)

لیکن اس کے ساتھ ہی ٹریبون اپنے نامہ نگار خصوصی کے حوالہ سے مندرجہ ذیل خبر بھی شائع کرنا ہے۔
” گاندھی جی کا دورہ کشمیر اس مقصد کے لئے ہو رہا ہے کہ مہاراجہ صاحب گاندھی جی سے ملاقات کریں گے اورالحاق کے بارے میں ان کا مشورہ حاصل کرینگے“ جب گاندھی جی اپنے اس پراسرار مشن کے سلسلہ میں کشمیر آئے تو بارہ مولااور سری نگر میں ان کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔ مشتعل عوام نے ان کی کار پر پتھروں کی بارش کی۔“

دوسری طرف ان ہی دنوں کشمیری عوام نے ہری سنگھ کی معزولی اور آزادکشمیر حکومت کے قیام کا اعلان کردیا تھا اور آزاد مجاہدین ریاست کو آزاد کراتے ہوئے تیزی کے ساتھ کشمیر کے صدر مقام سرینگر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ 26 اکتوبر 47 ءکو مہاراجہ ہری سنگھ نے بھاگ کر جموں میں پناہ لی اور وہاں سے اس وقت کے گورنر جنرل ہندوستان لارڈمونٹ بیٹن کے نام مندرجہ ذیل خط روانہ کیا۔

” مائی ڈیئر مونٹ بیٹن!
میں یوئر ایکسیلنسی کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میری ریاست میں ایک تشویش ناک صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ جس میں ٬میں آپ کی حکومت کی طرف سے فوری امداد کی استدعا کرتا ہوں آپ اس امر سے آگاہ ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر نے اب تک ہندوستان یا پاکستان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق تسلیم نہیں کیا ۔ جغرافیائی اعتبار سے ریاست دونوں ملکوں سے متصل ہے اور دونوں کے ساتھ نہایت اہم اقتصادی اور کلچرل تعلقات رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ میری ریاست کی سرحدیں جمہوریہ سوویت روس اور چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان اپنے خارجہ تعلقات میں اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ میں اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کچھ مہلت چاہتا تھا کہ مجھے ان دونوں میں سے کسی ڈومینین کے ساتھ شامل ہونا چاہئے اور آیا میری ریاست اور دونوں ملکوں کا بہترین مفاد اس میں نہ ہوگا کہ میری ریاست آزادرہے او ردونوں سے دوستانہ اور خوشگوار تعلقات قائم رکھے ۔ اسی مہلت کے لئے میں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں سے درخواست کی کہ وہ ریاست کے ساتھ ساکن معاہدے کر لیں۔ حکومت پاکستان نے اس چیز کو قبول کر لیا اور ہندوستان نے میری حکومت کے نمائندے کے ساتھ مزید بات چیت کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ لیکن محولا بالا حالات کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے میں اس گفت وشنید کا انتظام نہ کر سکا ۔ واقعہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان ساکن معاہدے کے ماتحت ریاست میں ڈاک وتار کے محکموں کا انصرام کر رہی ہے۔

اگرچہ حکومت پاکستان کے ساتھ ہمارا ساکن معاہدہ ہوچکا ہے لیکن یہ حکومت میری ریاست کو اشیاء خوراک ٬ نمک اور پٹرول کی بہم و رسانی کے معاملے میں روزافزوں مشکلات پیدا کررہی ہے۔ افریدیوں بے وردی سپاہیوں اور غنڈوں کو جو جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں ریاست میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جو پہلے پونچھ کے علاقے میں پھر سیالکوٹ میں اور آخر میں اس رقبے میں درانہ گھس آئے جو رام کوٹ کی طرف ضلع ہزارہ کے متصل واقع ہے۔ اس یورش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کے پاس جو محدود سی فوج تھی وہ منتشر کرنی پڑی۔ اسے بیک وقت کئی مقامات پر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا۔ چنانچہ جان و مال کی تباہی اور لوٹ مار کو روکنا بے حد دشوار ہو رہا ہے۔ مہورہ کا بجلی گھر جس سے سارے سری نگر کو بجلی کی طاقت بہم پہنچائی جاتی تھی جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ جب میں ان عورتوں کی تعداد پر غور کرتا ہوں جو اغواءاور عصمت دری کا شکار بنائی گئیں تو میرا دل خون روتا ہے ۔ یہ وحشی لشکر جو ریاست پر چھوڑ دیئے گئے ہیں اب میری حکومت کے گرمائی صدر مقام سری نگر پر قبضہ کرنے کی نیت سے بڑھے چلے آ رہے ہیں تاکہ اس کو فتح کر کے ساری ریاست پر چھا جائیں۔

شمال مغربی سرحدی صوبہ کے دور دست علاقوں سے قبائل کے لوگ ہجوم کی صور ت میں مانسہر ہ ٬ مظفرآباد کی سڑک پر موٹر ٹرکوں میں باقاعدہ چلے آ رہے ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ کافی تعداد میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے صوبہ سرحد کی حکومت اور پاکستان کی حکومت کے علم کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ میری حکومت نے بار بار اپیلیں کی ہیں کہ ان حملہ آوروں کو روکنے یا میری ریاست میں آنے سے منع کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ پاکستان ریڈیو اور پاکستانی اخبارات تو ان واقعات کی اطلاعات شائع کر رہے ہیں اور پاکستانی ریڈیو نے یہ کہانی بھی نشر کی ہے کہ کشمیر میں ایک عارضی حکومت بھی قائم کر دی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ میری ریاست کے مسلم و غیر مسلم لوگوں نے بالعموم اس ہنگامے میں کوئی حصہ نہیں لیا۔

ان حالات میں جو آج میری ریاست میں پیدا ہو رہے ہیں اور صورت حال کی اس شدت میں میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ میں انڈین ڈومینین سے امداد کی استدعا کروں یہ فطرتی بات ہے کہ جب تک میری ریاست ہندوستان کے ساتھ الحاق قبول نہ کرے حکومت ہند مجھے امداد نہیں دے سکتی ۔ لہذا میں نے الحاق کا فیصلہ کر لیا ہے او ر الحاق نامہ اس عریضے کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں۔ تاکہ آپ کی حکومت اسے منظور کرے۔ اس طرز عمل کے سوا دوسرا راستہ صرف یہی ہو سکتا ہے کہ میں اپنی ریاست اور اپنی رعایا کو لٹیروں اور ڈاکوﺅں کے حوالے کر دوں۔ لیکن اس بنیاد پر نہ کوئی مہذب حکومت زندہ رہ سکتی ہے ۔ نہ قائم رکھی جا سکتی ہے ۔ اس لئے جب تک میں ریاست کا حکمران ہوں اور اپنے جسم میں جان رکھتا ہوں ٬ ملک کے دفاع کے لئے ایسی صورت کبھی پیدا نہ ہونے دوں گا۔ میں آپ کی حکومت کو اس ارادے کی اطلاع بھی دینا چاہتا ہوں کہ میں فوراً ایک عبوری حکومت قائم کر دوں گا۔ او رشیخ عبداللہ سے کہوں گا کہ اس نازک صورتحال میں میرے وزیراعظم کی حیثیت میں حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائیں۔ اگر میری ریاست کو بچانا مقصود ہے تو اس کے لئے فوری امداد سرینگر پہنچ جانی چاہئے۔ مسٹر مینن(سیکرٹری اور ریاست ہائے ہند) کو صورتحال کی سنگینی کا پورا علم ہے اور اگر کسی مزید تصریح کی ضرورت باقی رہ گئی ہے تو وہ آپ کی خدمت میں تفصیلاً عرض کر دیں گے۔ میں بہت عجلت میں ہوں آپ میرا آداب قبول فرمائیے“
آپ کا مخلص ٬ہری سنگھ 26 اکتوبر 1947 ء

گورنر جنرل ہند ٬لارڈ مونٹ بیٹن نے 28 اکتوبر 47 ءکو الحاق منظور کرتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ کو لکھا ،” آپ کی ریاست کا الحاق عارضی طورپر ہندوستان کے ساتھ منظور کیا گیا اور ہماری حکومت کی خواہش ہے کہ جونہی کشمیر میں امن وانتظام بحال ہو اس کی سرزمین حملہ آوروں سے پاک ہوجائے تو ریاست کے الحاق کا فیصلہ استصواب رائے عامہ سے کیا جائے۔ اس دوران فوری طور پر ہندوستانی فوج کشمیر بھیجی جارہی ہے تاکہ آپ کی مملکت کے دفاع اور آپ کی رعایا کے جان و مال اورآبرو کی حفاظت میں آپ کی فوجوں کا ہاتھ بٹائے میں اور میری حکومت نے اس امر کو اطمینان بخش طورپر دیکھا ہے ک یوئر ہائینس نے شیخ محمد عبداللہ کو عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے وزیراعظم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے۔“

”ہم اعلان کر چکے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے۔ ہم یہ عہد دے چکے ہیں مہاراجہ کشمیر بھی اس کی تائید کر چکے ہیں۔ ہم اس عہد سے انحراف نہیں کریں گے۔ ہم اس امر کے لئے تیار ہیں کہ امن بحال ہونے کے بعد کشمیر میں اقوام متحدہ جیسے ادارہ کے ماتحت استصواب رائے کیا جائے ہم چاہتے ہیں کہ وہ آزادانہ مبنی پر انصاف ہو۔ ہم عوام کے فیصلے کا احترام کریں گے ۔ اس دوران ہم کشمیریوں سے ان کی حفاظت کا جو وعدہ کر چکے ہیں اسے بھی پورا کریں گے۔ “

نومبر 47 ءکے پہلے ہفتے میں مسٹر نہرو نے لال چوک سری نگر کے ایک جلسہ عام میں کہا۔

”جونہی کشمیر حملہ آوروں سے آزاد ہوجائے گا ، ہماری فوجوں کو مزید یہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہ ہوگی ٬ اور آپ اپنی خواہشات کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حقدار ہوں گے۔“

2 نومبر کو شیخ محمد عبداللہ کو ریاست کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ 4 نومبر کو وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان مرحوم نے ریڈیو پاکستان سے اس پرفریب ڈرامے میں یہ امر قابل ذکرہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ عوامی بغاوت اور آزاد مجاہدین کی یلغار سے سری نگر چھوڑ کر بھاگ چکا تھا اور جموں میں پناہ لے چکا تھا۔ مسٹر مینن (سیکرٹری اور ریاست ہائے )26 اکتوبر کو کاغذات الحاق لے کر جموں آئے تھے ۔ ان حقائق کے پیش نظر مہاراجہ کا خط صرف ایک دکھلاوا تھا۔ ورنہ وہ سازش جو جولائی 47 ءسے ہی کانگریسی لیڈروں اور ہری سنگھ کے درمیان پک رہی تھی یہ خط تو دراصل اسی سازش کی تکمیل تھی ٬ یہ بات بھی واضح رہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن کا جواب آنے سے قبل ہی یعنی 28 اکتوبر کی صبح کو بھارتی فوج سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتر رہی تھی۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699453 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More