اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو

ملک کے موجودہ دگرگوں اور ناگفتہ بہ حالات کو دیکھ کر ہر ذی شعور اور عقل و دانش رکھنے والا پاکستانی کڑھ رہا ہے، اس کے دل کی جو حالت ہے وہ کسی سے بیان نہیں کرسکتا ، اس کے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں کہ کس طرح اپنے محسوسات کو دوسروں تک پہنچائے، مہنگائی، لاقانونیت، دہشت گردی، رشوت اور سفارش جیسے مسائل نے اسے ادھ موا کررکھا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار نہیں ملتا، اگر ملتا بھی ہے تو آمدن اتنی قلیل کہ بس وہ اکیلا ہی اس میں گزارہ کرسکتا ہے، ایسی صورت میں گھر کیسے چلایا جائے، اپنی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برآءہوا جائے، یہ سوال ایک ”جن“ کی مانند اس کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ جو لوگ برسر روزگار ہیں ان کے کندھے بھی اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے جھکتے چلے جاتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی بخیریت واپسی کی دعائیں تو مانگتے مانگتے ہلکان ہوجاتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ کہیں بھی ہوسکتا ہے، پہلے صرف بیٹیوں کی اچھی قسمت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں لیکن معاشرتی حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اب بیٹوں کی اچھی قسمت کی دعائیں زیادہ مانگی جاتی ہیں۔ کوئی بھی کاروباری شخص یا نوکری پیشہ ہو، کسی کو ایک پل بھی چین نہیں، ہر وقت ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے، ایسے میں حکومت کی شاہ خرچیاں، قرضوں پرقرضے لئے جانا، نوٹ چھاپ چھاپ کر اپنے اللے تللے پورے کرنا تو ایک طرف ٹینشن کا سبب بنتے ہیں جبکہ دوسری طرف ”ماشاءاللہ“دن بدن ترقی کرتی ہوئی کرپشن اور اس کرپشن کی کہانیاں جب میڈیا پر آتی ہیں یا سینہ گزٹ سے ملک میں پھیلتی ہیں تو کسی کا ٹیکس ادا کرنے کو دل نہیں کرتا بلکہ یہ سوچ دماغ میں ابھرتی ہے کہ اگر ہمارے حکمران جن کی جیبیں پہلے ہی بھری ہوئی ہوتی ہیں وہ ایسی ایسی کرپشن کرسکتے ہیں تو یہ ہمارے لئے بھی جائز ہے۔ ”سونے پہ سہاگہ“ اس وقت ہوتا ہے جب اپوزیشن اور حکومت میں ”لفظی“جنگ بھی شروع ہوجائے اور ہر ”لیڈر“ اپنے تئیں انقلاب کی راہ ہموار کرنا شروع کردے، میاں نواز شریف جو بلا شبہ ایک بڑے ”لیڈر“ ہیں وہ ایم کیو ایم کو دہشت گرد جماعت کہتے ہیں لیکن اس سے اتحاد کے سوال پر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم اپنے آپ کو دہشت گردی سے کلیئر کردے تو ایسا ممکن ہے، جواب آں غزل کے طور پر ایم کیو ایم ان پر پنجاب میں جہادی جماعتوں سے رابطے کا الزام لگاتی نظر آتی ہے۔ میاں صاحب جب موجودہ حکومت کی کرپشن اور انقلاب کی بات کرتے ہیں تو بابر اعوان یہ جواب دیتے ہیں کہ ایک ”بھٹی“ سے بیسیوں فیکٹریاں اور چند سو روپوں سے اربوں روپے بن گئے، انقلاب تو آچکا ہے۔ بڑی بڑی کرپشن کہانیوں میں کبھی وزیر اعظم کے بیٹے کا نام آتا ہے تو کبھی شرفاءکے بیٹوں کے نام، کبھی کوئی وزیر بے شرمی کی حد کرتا ہے تو کبھی کوئی مشیر اس حد کو بھی کراس کرنے کی تگ و دو میں نظر آتا ہے۔قصہ مختصر، ایسی کرپشن کی جارہی ہے کہ الامان الحفیظ، اوپر سے ”ڈاکٹر“ رحمان ملک، جو پاکستان میں دہشت گردی کی ہر واردات کو طالبان کے کھاتے میں ڈالنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، ذوالفقار مرزا کی دو دھاری تلوار کے واروں سے گھائل ہوچکے ہیں، وہ جو طالبان کو ظالمان کہا کرتے تھے، ان کا مائی باپ امریکہ ان سے مذاکرات کے لئے مرا جارہا ہے، ایسے میں اگر یہاں کے لوگ ”پاکستان سے زندہ بھاگ“ کا نعرہ بلند کرکے دوسرے ممالک کی امیگریشن حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو ان میں ان کا کیا قصور؟ زندگی بچانا، اپنے بچوں کو محفوظ گھر دینا تو انسانی جبلت ہے!

کوئی بھی ”لیڈر“ اب تک ملک اور یہاں بسنے والے لوگوں کے مسائل کا صحیح حل پیش نہیں کرپایا، ہر کوئی انقلاب کی گردان تو کررہا ہے لیکن وہ کیسا انقلاب لانا چاہتاہے، کیاا س انقلاب میں کوئی کشت و خون بھی ہوسکتا ہے، اگر ہوسکتا ہے اور انقلاب کو کامیاب کرانے کے لئے کسی قسم کی قربانی یا قربانیوں کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے، اگر قربانیاں دینی پڑ سکتی ہیں تو وہ ”لیڈر“ موصوف اس کے لئے کس حد تک تیار ہیں، کیا وہ خود اور اپنے بچوں کو بھی اس کے لئے تیار کررہے ہیں یا صرف اپنے ”چاہنے“ والوں کو؟ وہ ”لیڈر“ کیا قربانی دیں گے جو اربوں روپے کے مالک ہونے کے باوجود اس ملک کو ٹیکس کی صورت میں سالانہ پانچ ہزار روپے دیتے ہوں، وہ ”لیڈر“ کیا قربان کرنے کی سکت رکھتے ہیں جو اس قوم کو ایک آمر کے حوالے کرکے صرف اپنی جانیں بچا کر ”دوسری دنیائیں“ دریافت کرنے نکل جاتے ہوں، وہ ”راہنما“ کیا قربانی دیں گے جو جان کے خوف سے اسلام آباد کے بنکروں سے نہ نکل سکیں اور سندھ میں سیلاب کی صورت میں آنے والی قیامت کو بھی سیٹیلائٹ سے ”مانیٹر“ کرتے ہوں، جنہوں نے اس ملک کے اربوں روپے لوٹے ہوں، جن کے بینامی اکاﺅنٹس کا شہرہ پوری دنیا میں ہو اور جو پہلے سرے محل سے انکار کرتے ہوں اور اب بڑے ”ڈھیٹانہ“ انداز میں اس پر اکڑتے بھی ہوں۔ وہ ”سائیکل سوار“ کیا قربانی دینے کی اہلیت رکھتے ہیں جنہوں نے لوٹ مار سے کمایا ہوا پیسہ راتوں رات سپین اور انگلینڈ میں منتقل کردیا ہو، وہ ”سدا بہار“ انقلاب کے داعی کیا تیر مار لیں گے جو اس ملک کی شہریت ہی چھوڑ چکے ہوں اور ”ملکہ معظمہ“کے وفادار بن چکے ہوں۔ باتوں سے اگر انقلاب آجایا کرتے تو اب تک ہماری حالت سدھر چکی ہوتی، انقلاب کے تمام داعی اگر صرف اپنی ذاتوں کے حصار سے نکل آئیں، اپنے خاندانوں کی بگڑی بنانے کی بجائے اس ملک اور قوم کے نگہبان بن جائیں، یہاں بسنے والے غریبوں کو اپنا بھائی سمجھ لیں تو مزید کسی انقلاب کی کوئی ضرورت نہ رہے گی، اگر یہ لوگ صرف اپنی ”لوٹ مار“ کی کمائی ہوئی ”جہنم“ پر ٹیکس دیدیں اور اپنا سرمایہ اس ملک میں لے آئیں تو نہ کسی امداد، نہ کسی بھیک کی ضرورت رہے۔ لیکن اب قوم کو سمجھ جانا چاہئے کہ ”بوجوہ“ ایسا نہیں ہوسکتا، ہر ”لیڈر“ اپنے انقلاب کے لئے عوام کو تو تیار کررہا ہے لیکن خود اس کی کوئی تیاری نہیں، اگر ہے تو اس حد تک کہ جب میں وزیر اعظم بنوں گا تو حلف اٹھاتے ہوئے میری ڈریسنگ کیسی ہونی چاہئے....!

ان ”کرشماتی“ لیڈروں کے پاس اس ملک اور یہاں کے عوام کے لئے کچھ نہیں، اب یہاں کے باسیوں کو خود ہی سوچنا ہوگا، کیا موجودہ نظام ہمارے مسائل کا حل پیش کرتا ہے، اگر قوم ایسا ہی سمجھتی ہے تو اسے آئندہ اپنے ووٹ کا استعمال انتہائی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا، ان کا ایجنڈہ ان ”بے غیرت“ اور ”بے حمیت“لیڈروں جیسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے بلکہ ذاتی اور سیاسی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر یہاں کے عوام کا ایجنڈہ ایک ”اسلامی پاکستان“ ہونا چاہئے اور اگر یہ سمجھ آتی ہے کہ اب یہ نظام فرسودہ ہوچکا ہے، یہ ہمارے مسائل کے حل میں فیل ہوچکا ہے، اس میں اتنی گنجائش نہیں کہ کرپشن، دہشت گردی، رشوت ،سفارش اور اقرباءپروری جیسے مسائل سے ہمیں نکال سکے تو ہمیں اپنی ”اصل“ کی طرف لوٹ جانا چاہئے، ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرمودات اور دئے گئے نظام کو نافذ کردینا چاہئے جس کا وعدہ پاکستان بنتے ہی ہم سے کیا گیا تھا، قرار داد مقاصد کے مطابق حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے دئے ہوئے نظام کو یہاں نافذ کیا جائےگا۔ قائد اعظم کا وہ فرمان کسے بھول سکتا ہے کہ ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گذارنے کے لئے ایک تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں جس کا نام پاکستان ہوگا، تجربہ گاہ تو بن گئی لیکن تجربہ ابھی تک شروع نہیں ہوا اور اس سے پہلے ہی اس تجربہ گاہ کو ملیا میٹ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ہمیں نہ صرف تجربہ شروع کرنا ہے بلکہ ابد الآباد تک اس کو کامیاب بھی بنانا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اپنے بنائے گئے خداﺅں کو چھوڑکر ایک اللہ وحدہ لاشریک کے بندے بن کر اس کے نظام کے نفاذ کی جدوجہد کریں،ہمیں ان سچے لوگوں کا دست و بازو بننا ہوگا جو اس نظام کے نفاذ کی حقیقی کوششیں کررہے ہیں!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222557 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.