دنیا ایک بار پھر تاریخ کے اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں ہر طرف
بارود کی بو، جنگ کے سائے، اور انسانیت کی کراہیں سنائی دے رہی ہیں۔ روس کے
صدر ولادیمیر پیوٹن کی حالیہ دھمکیاں، یوکرین میں بڑھتا ہوا تصادم، اور
نیٹو ممالک کے ساتھ سرد جنگ کی حدوں سے آگے نکلتا تناؤ — یہ سب تیسری عالمی
جنگ کے خدشے کو حقیقت میں بدلنے کے قریب لے آئے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا یہ سب
محض سیاسی مفادات کی کشمکش ہے؟ یا قدرت کا وہ بدلہ ہے جسے ہم انصافِ فطرت
کہہ سکتے ہیں؟
گزشتہ دو دہائیوں میں مشرقِ وسطیٰ کے کئی ملکوں میں انسانیت کا جنازہ
اٹھایا گیا۔
فلسطین کے معصوم بچوں پر اسرائیلی بمباری ہوئی، اور دنیا کے طاقتور ممالک
نے صرف مذمتی بیانات پر اکتفا کیا۔
عراق میں کیمیکل ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر لاکھوں انسانوں کو مٹی میں
دفن کر دیا گیا۔
شام میں خانہ جنگی کو ہوا دی گئی، اور عالمی طاقتیں تماشائی بنی رہیں۔
لبنان، یمن اور افغانستان جیسے ممالک کو میدانِ جنگ بنا دیا گیا۔
یہ سب کچھ عالمی ضمیر کی مردہ خاموشی کے سائے میں ہوتا رہا۔ انسانی حقوق کے
ٹھیکیدار، جمہوریت کے علمبردار، اور عالمی انصاف کے نعرے لگانے والے مغرب
نے، اس بے گناہ خون پر اپنی آنکھیں بند رکھیں۔
لیکن قدرت خاموش نہیں رہتی
تاریخ گواہ ہے کہ ظلم اور ناانصافی کا بدلہ دیر سے سہی مگر ضرور آتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
تمہیں لگتا ہے کہ اللہ ظالموں کے ظلم سے غافل ہے؟ نہیں، وہ انہیں مہلت دیتا
ہے، ایک دن کے لیے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
آج وہی مغرب جو اسرائیلی مظالم پر خاموش رہا، خود روسی میزائلوں کے نشانے
پر ہے۔
یوکرین میں آگ لگ چکی ہے، پولینڈ، فن لینڈ اور دیگر نیٹو ممالک جنگی
تیاریوں میں مصروف ہیں۔
پیوٹن کے الفاظ: "اگر نیٹو نے حد پار کی، تو ہم ایسا جواب دیں گے جو تاریخ
نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔"
کیا یہ وہ لمحہ ہے جہاں قدرت کا ترازو جھک رہا ہے؟
کیا یہ وہ وقت ہے جہاں معصوم فلسطینی بچوں کی چیخیں، شامی یتیموں کے آنسو،
اور عراقی ماؤں کے نوحے آسمان پر پہنچ چکے ہیں؟
تیسری عالمی جنگ کا خطرہ
روس، چین، ایران، شمالی کوریا ایک طرف۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی،
نیٹو دوسری طرف۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا ایک بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، اور اگر ایسا
ہوا تو یورپ میں وہی کچھ ہوگا جو گوانتانامو، غزہ، بغداد اور حلب میں ہوا۔
لیکن فرق یہ ہوگا کہ اس بار مقتول نہیں، قاتل خود مارا جائے گا۔
آخری سوال — کیا مغرب سیکھے گا؟
اگر مغرب پر جنگ کی تباہی برستی ہے، اگر لندن، پیرس اور برلن میں سائرن
گونجتے ہیں، اگر نیویارک میں نیوکلیئر حملے کا خوف پیدا ہوتا ہے — تو کیا
یہ اُن ضمیروں کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہوگا جنہوں نے کبھی غزہ کے بچوں پر
خاموشی اختیار کی تھی؟
یا یہ انسان کبھی بھی اپنی غلطیوں سے نہ سیکھنے والی مخلوق ہی رہے گا؟
ظلم کے بازار میں خاموشی بھی جرم ہوتی ہے۔
شاید اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کو قدرت دکھا دے کہ جو خون زمین پر بہتا ہے،
وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
شاید اب وہ دن آ رہا ہے جب مغرب خود کہے گا:
"یہ بدلہ نہیں، یہ فطرت کا انصاف ہے!
|