دنیا کی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی مثال موجود نہیں کہ
کوئی ملک اپنے ہمسایوں کو غربت، جنگ اور بدامنی کے اندھیروں میں دھکیل کر
خود روشنی میں تنہا ترقی کی منازل طے کر گیا ہو۔ ترقی ایک اجتماعی سفر ہے،
تنہا پرواز نہیں۔ یہ ایک سادہ مگر پائیدار حقیقت ہے کہ خوشحالی کی ضمانت
صرف داخلی استحکام نہیں، بلکہ خارجی ماحول کی ہم آہنگی بھی ہے۔
بھارت آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، جس کا حجم 600 ارب ڈالر سے تجاوز
کر چکا ہے۔ لیکن یہ معاشی بلندی ایک نازک توازن کی مرہون منت ہے۔ اتنی بڑی
معیشت کو برقرار رکھنے کے لیے امن بنیادی شرط ہے۔ تجارت، سیاحت، سرمایہ
کاری اور ٹیکنالوجی — یہ سب کچھ تبھی پھلتا پھولتا ہے جب خطے میں استحکام
ہو، ہمسایوں سے تناؤ نہ ہو، اور داخلی و خارجی محاذ پر امن ہو۔
یہ خام خیالی ہے کہ بھارت چاند پر کمندیں ڈالے، اور پاکستان کے آسمان پر
بدامنی اور دہشت گردی کے اندھیرے چھائے رہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ
افغانستان میں عورتوں کو ملازمت سے محروم رکھا جائے، بچیوں کو اسکول جانے
کی اجازت نہ ہو، اور پاکستان کی خواتین سکون سے پائلٹ بن کر جہاز اڑائیں۔
خطے میں ایک کی آگ دوسرے کی دیواروں کو سیاہ ضرور کرتی ہے۔
دنیا کے کامیاب ترین خطے — جیسا کہ اسکینڈے نیویا، یورپی یونین، یا مشرقی
ایشیا — ہمیں یہی سبق دیتے ہیں کہ ترقی صرف باہمی تعاون، مشترکہ مفادات،
اور متوازن پالیسیاں اختیار کرنے سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ ڈنمارک، سویڈن اور
ناروے نے مل کر صحت، تعلیم، ماحول، اور معیشت کے شعبوں میں ایسا اتحاد قائم
کیا کہ نہ صرف انفرادی ممالک مستحکم ہوئے بلکہ پورا خطہ عالمی ترقی کا ماڈل
بن گیا۔
جنوبی ایشیا میں، بدقسمتی سے، ہم نے یہ سبق ابھی تک پوری طرح نہیں سیکھا۔
بھارت، پاکستان اور افغانستان — تینوں ممالک کے اندرونی حالات، سیاسی فیصلے
اور خارجی تعلقات ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک کی خرابی دوسرے کے لیے خطرہ بن
جاتی ہے۔
اگر بھارت اپنی معاشی ترقی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کے
ساتھ امن، افغانستان میں استحکام، اور پورے خطے میں پائیدار تعلقات کے لیے
ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ دوسری طرف، پاکستان اور افغانستان کو بھی تسلیم
کرنا ہوگا کہ داخلی اصلاحات اور ہمسایوں کے ساتھ تعمیری تعلقات کے بغیر
ترقی کا خواب صرف نعرہ ہی رہے گا۔
محلے کی گلی کو ایک گھر کا چراغ روشن نہیں کر سکتا ۔ سارے محلے کے گھروں سے
روشتی پھوٹنی ہے تب جا کر گلئ روشن ہوتی ہے۔ سفر جاری رکھنے کے لیے گلی کا
روشن ہونا ہی ضمانت نہیں ہے ۔ امن بھی ہونا چاہیے ۔
|