کیا ٹیکس صرف شہروں کے محنت کشوں کے لیے ہے؟

پاکستان میں ٹیکس کا نظام ایک ایسا پیچیدہ مگر متضاد ڈھانچہ بن چکا ہے جہاں عام شہری کی ہر سانس پر ٹیکس لگتا ہے، لیکن بڑے زمیندار، جاگیردار، وڈیرے اور لاکھوں روپے کمانے والے دیہی بیوپاری اکثر قانونی گرفت سے محفوظ نظر آتے ہیں۔

یہ دہرا معیار سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ٹیکس صرف شہروں کے محنت کشوں کے لیے ہے؟

عیدالاضحیٰ کے دنوں میں کراچی کی مویشی منڈی دنیا کی سب سے بڑی عارضی مویشی منڈی بن جاتی ہے۔ یہاں لاکھوں کے جانور روزانہ بیچے جاتے ہیں۔ دیہاتوں سے آئے ہوئے بیوپاری لاکھوں روپے کماتے ہیں، مگر کوئی رسید، کوئی لائسنس، اور کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ جب کہ شہر کے ایک متوسط طبقے کا فرد، جو 50 ہزار تنخواہ پر گزارا کر رہا ہو، اس کی تنخواہ سے انکم ٹیکس، پروویڈنٹ فنڈ اور دیگر کٹوتیاں بلا چون و چرا ہوتی ہیں۔

یہی نہیں، بڑے زمیندار اور جاگیردار ہر سال کروڑوں روپے کی زرعی آمدنی حاصل کرتے ہیں، مگر انکم ٹیکس سے بری الذمہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانا صوبوں کی ذمہ داری ہے، اور بدقسمتی سے صوبائی حکومتیں سیاسی مفادات کے باعث اس اشرافیہ کو ہاتھ نہیں لگاتیں۔

جبکہ دوسری طرف ایک چھوٹا دکاندار، رکشہ ڈرائیور، یا فری لانس کام کرنے والا شہری FBR کے نوٹسز سے بچنے کے لیے گوشوارے بھرتا ہے، بھاری جرمانے دیتا ہے، اور اپنی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ ریاست کو دیتا ہے۔

یہ کیسا نظام ہے جس میں غریب پر قانون سخت اور امیر پر نرم ہے؟

اگر قانون سب کے لیے برابر ہے تو دیہی بیوپاری، زمیندار اور وڈیرے ٹیکس کے دائرے سے باہر کیوں ہیں؟کیا اس کی وجہ سیاسی جماعتوں میں زمیندار طبقے کا اثر و رسوخ ہے؟ یا صوبائی و وفاقی ٹیکس قوانین میں ہم آہنگی کی کمی ہے؟ کیوں امیر جاگیرداروں کو زراعت سے وابستہ کم آمدنی والے کسانوں کے ساتھ ایک ہی صف میں رکھا جاتا ہے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر:
قانون سازی میں سیاسی دباؤ سے بالاتر ہو کر فیصلے کئے جاییں، مویشی منڈی میں فروخت کرنے والے ہر بیوپاری کو رجسٹر کرے،ان کی آمدنی کا حساب رکھے،اور زرعی آمدنی پر ایک جامع ٹیکس نظام نافذ کرے۔ایسا نہ ہو کہ ملک کا محنت کش طبقہ صرف ریاستی آمدنی کا بوجھ اٹھاتا رہے، اور اشرافیہ اپنی طاقت، تعلقات اور چالاکیوں سے آزاد گھومتی رہے۔

یہ وقت ہے کہ ٹیکس نظام کو انصاف پر مبنی بنایا جائے، ورنہ عام آدمی کا اعتماد ریاست پر سے مکمل طور پر اٹھ جائے گا۔

اگر ترقی کرنی ہے، تو ہر کمائی پر ٹیکس، اور ہر شہری پر قانون برابر لاگو ہونا چاہیےٹیکس صرف تنخواہ دار طبقے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وہ شخص جو کماتا ہے، خواہ وہ دیہی بیوپاری ہو، جاگیردار ہو یا شہری کاروباری، سب کو برابر حصہ دینا ہوگا۔ انصاف صرف عدالتی فیصلوں میں نہیں، ریاستی پالیسی میں بھی نظر آنا چاہیے۔

اگر پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے تو ہر طاقت ور طبقے کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔ ٹیکس صرف رقم کا معاملہ نہیں، بلکہ انصاف، برابری اور ترقی کا ذریعہ ہے۔
 

Muhammad Arslan
About the Author: Muhammad Arslan Read More Articles by Muhammad Arslan: 9 Articles with 2711 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.