ایران اسرائیل جنگ میں بھارت کا خفیہ کردار اور پاکستان کیلئے خطرات

مشرق وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی اب صرف بیانات تک محدود نہیں رہی، بلکہ فوجی کارروائیوں، سائبر حملوں، اور پراکسی گروہوں کی متحرک سرگرمیوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو نشانہ بنانے کے اشارے اور ایران کی جانب سے ہر محاذ پر جوابی ردعمل نے خطے کو آگ کے دریا کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ایران کی جانب سے حال ہی میں کچھ بھارتی شہریوں کی گرفتاری کا اعلان سامنے آیا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ اسرائیلی خفیہ ادارے ''موساد'' کے لیے ایران کے اندر جاسوسی کر رہے تھے۔ یہ خبر اس لیے تشویشناک ہے کہ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان خفیہ معلومات اور سکیورٹی نیٹ ورک کا تبادلہ اب صرف کاغذی معاہدوں سے آگے بڑھ چکا ہے۔ ایران میں بھارتی ایجنٹوں کی موجودگی اور ان کی اسرائیل کے ساتھ وابستگی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بھارت اب اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے نہ صرف سفارتی محاذ پر بلکہ خفیہ کارروائیوں میں بھی شراکت دار بن چکا ہے۔یہ منظرنامہ اس وقت مزید گھمبیر ہو جاتا ہے جب ہم بھارت اور اسرائیل کے دفاعی تعلقات کی نوعیت پر غور کرتے ہیں۔ بھارت گزشتہ دو دہائیوں سے اسرائیلی اسلحہ، ڈرون، میزائل سسٹمز اور سائبر ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان انٹیلیجنس تعاون بھی ایک اہم پہلو ہے، جسے زیادہ تر منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ ان تعلقات کا عملی مظاہرہ حالیہ برسوں میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب بھارت نے پاکستان کے خلاف اسرائیلی ساختہ ہاروپ (Harop) ڈرونز استعمال کیے۔ یہ ڈرونز خودکش نوعیت کے تھے جو پاکستانی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجے گئے، اور جن میں سے اکثریت پاکستانی افواج نے فضا میں ہی تباہ کر دی۔

یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اسرائیلی ٹیکنالوجی کو نہ صرف اپنے دفاع کے لیے، بلکہ خطے میں جارحانہ عزائم کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیلی ڈرونز کے ذریعے پاکستانی حدود میں کارروائیاں کرنا بین الاقوامی قوانین اور علاقائی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مگر بھارت نے اسرائیل سے عسکری تعاون کو صرف دفاعی حد تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے پاکستان کے خلاف اپنی حکمت عملی کا حصہ بنا لیا ہے۔پاکستان کیلئے اس تمام صورتحال میں سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ خفیہ اتحاد صرف ڈرون حملوں یا دفاعی تعاون تک محدود نہیں، بلکہ پاکستان کے اندرونی معاملات تک پہنچ چکا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال کلبھوشن یادیو کا کیس ہے۔ کلبھوشن، جو بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر تھا، پاکستان میں گرفتار ہوا اور اس نے خود اعتراف کیا کہ وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا اور پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس نے جعلی شناخت اختیار کی، اور پاکستان میں موجود علیحدگی پسند عناصر سے روابط قائم کیے۔ یہ امر ثابت کرتا ہے کہ ایران کی سرزمین کو بھارت نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا، اور اسی طرح موساد کے ساتھ مل کر خطے میں ایک خفیہ نیٹ ورک کو تقویت دی جا رہی ہے۔

ایران اسرائیل جنگ، بھارت کی مداخلت، اور خطے میں پھیلتے ہوئے جاسوسی نیٹ ورکس نے جنوبی ایشیا کو بھی ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان نہ صرف اس جنگی ماحول کے معاشی اثرات سے دوچار ہو سکتا ہے، بلکہ اس کے داخلی استحکام اور خارجہ پالیسی کو بھی شدید چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے، بیرونی سرمایہ کاری میں کمی، ترسیلات زر میں رکاوٹ، اور مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی سیکیورٹی جیسے مسائل مستقبل میں اور بھی گہرے ہو سکتے ہیں۔ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ جنگ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی۔ مشرق وسطیٰ کا یہ تنازعہ رفتہ رفتہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ حزب اﷲ، حماس اور دیگر گروہوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ردعمل، اور اسرائیل کے ممکنہ زمینی یا فضائی حملے، پوری عرب دنیا میں بے چینی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں تیل کی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے، عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ سکتی ہیں، اور عرب ممالک میں غیر ملکی کارکنان بشمول لاکھوں پاکستانیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

پاکستان، جو پہلے ہی داخلی و خارجی چیلنجز سے نبردآزما ہے، اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور قطر میں کام کرنے والے پاکستانی مزدور، ترسیلات زر کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، اور ان ممالک میں عدم استحکام کی صورت میں پاکستان کی معیشت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر عالمی طاقتیں اس جنگ میں مداخلت کرتی ہیں تو علاقائی توازن بگڑنے کا اندیشہ ہے، جس کے اثرات نہ صرف سفارتی میدان میں، بلکہ دفاعی اور اقتصادی شعبوں میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر متحرک کردار ادا کرے، جنگ کو روکنے کے لیے عالمی پلیٹ فارمز پر آواز بلند کرے، اور ساتھ ہی داخلی سطح پر مکمل چوکسی اختیار کرے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹا جا سکے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس ساری صورتحال کا نہایت سنجیدگی سے جائزہ لے اور خطے میں بدلتی ہوئی جغرافیائی حقیقتوں کے مطابق اپنی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کو ازسرنو ترتیب دے۔ بھارت اور اسرائیل کی خفیہ شراکت داری کے خلاف بین الاقوامی سطح پر مؤثر آواز اٹھائی جائے، اور ایران سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ انٹیلیجنس شیئرنگ اور سفارتی تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ملکی سلامتی اداروں کو بھی اندرونی طور پر چوکنا رہنا ہوگا تاکہ دشمن عناصر ملک کے اندر کسی قسم کی تخریب کاری نہ کر سکیں۔
 

Muhammad Altaf Shahid
About the Author: Muhammad Altaf Shahid Read More Articles by Muhammad Altaf Shahid: 12 Articles with 8640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.