چند ریاستیں اپنے وجود سے زیادہ اپنی تخلیق کے عمل میں
چھپی کہانیوں سے جانی جاتی ہیں، اور اسرائیل ان میں سرِفہرست ہے۔ یہ ریاست
نقشے پر تو 1948 میں ابھری، مگر اس کا نظریہ، منصوبہ، اور مالی و عسکری
بنیادیں کئی دہائیوں بلکہ صدیوں پہلے رکھی جا چکی تھیں۔ آج اسرائیل ایک
ایٹمی طاقت، ٹیکنالوجی کا مرکز، اور مغربی دنیا کا اسٹریٹیجک حلیف ہے، مگر
اسی وقت فلسطینیوں کے لیے یہ ایک خونچکاں المیہ بھی ہے۔
خواب سے ریاست تک کا سفر
صہیونیت محض ایک تحریک نہیں تھی، یہودی بقا کا منصوبہ بھی تھی۔ جب یورپ میں
یہودیوں پر مظالم بڑھے، خاص طور پر نازی جرمنی کے ہاتھوں ہولوکاسٹ کی تباہی
کے بعد، تو عالمی رائے عامہ ایک "یہودی وطن" کے حق میں ہموار ہوئی۔ برطانیہ
نے بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اس خواب کو عملی شکل دینے کی راہ ہموار کی،
اور بالآخر 1948 میں اقوامِ متحدہ کے فیصلے سے اسرائیل کی ریاست وجود میں آ
گئی۔
اسی دن فلسطین کے لیے تباہی کا آغاز ہوا — لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، اور ان
کا وطن اجنبی ہاتھوں میں چلا گیا۔
اسرائیل کا مقدمہ
اسرائیل تین بنیادوں پر اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھتا ہے:
مذہبی بنیاد — کہ یہ زمین خدا کی عطا ہے،
تاریخی بنیاد — کہ یہاں کبھی داؤد و سلیمان کی سلطنتیں تھیں،
سیاسی بنیاد — کہ ایک جمہوری، جدید، اور خودمختار قوم کو بقا کا حق ہے۔
دنیا کے بڑے طاقتور ممالک، خصوصاً امریکہ اور یورپی ممالک، ان دعووں کو
قانونی و اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا تین ہزار سال
پرانی تاریخ یا مذہبی دعوے آج کی دنیا میں زمین کا قانونی قبضہ ثابت کرتے
ہیں؟
دولت اور طاقت کا گٹھ جوڑ
اسرائیل کی بقا میں دولت نے اہم کردار ادا کیا۔ یورپ اور امریکہ میں موجود
سرمایہ دار یہودی خاندان، خصوصاً روتھ شیلڈز اور دیگر صہیونی ادارے، ریاست
اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے مالیاتی بنیادیں رکھ چکے تھے۔ آج بھی امریکہ
ہر سال اسرائیل کو 4 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے۔
اسرائیل نے ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی، سائبر سیکیورٹی، اور زراعت میں حیران کن
ترقی کی ہے — یہاں دولت اور سائنس ایک نظریاتی مشن کا ایندھن بن چکے ہیں۔
اسرائیل کے اتحادی: ایک مضبوط نیٹ ورک
دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کے خفیہ یا اعلانیہ اتحادی ہیں:
امریکہ: سب سے بڑا عسکری و سفارتی محافظ
یورپی ممالک: اسلحہ و ٹیکنالوجی میں شریک
بھارت: دفاعی خرید و فروخت اور سفارتی قربت
خلیجی عرب ریاستیں: یو اے ای، بحرین، مراکش، سوڈان نے ابراہیمی معاہدے کے
ذریعے تعلقات قائم کر لیے
سعودی عرب: خاموش حمایت، مگر سیاسی مفادات کا توازن برقرار
اور فلسطین؟
فلسطینی اس تمام سیاسی گیم میں ایک زخم زدہ قوم ہیں۔ ان کے پاس نہ وہ دولت
ہے، نہ وہ اسلحہ، نہ وہ سفارتکاری جو اسرائیل کے پاس ہے۔ اسرائیل نے 1967
کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا، اور وہاں آج
بھی فوجی، آبادیاتی اور معاشی دباؤ قائم ہے۔
عالمی برادری خاموش ہے، اور امتِ مسلمہ اختلافات میں الجھی ہوئی ہے۔
ریاست یا نظریہ؟
اسرائیل ایک ریاست ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک نظریہ ہے — ایک ایسا
بیانیہ جو مذہب، تاریخ، جدیدیت، اور بقا کے جواز کو یکجا کرتا ہے۔ یہی
بیانیہ اسے طاقت دیتا ہے، اور یہی بیانیہ اسے اخلاقی کٹہرے میں کھڑا کرتا
ہے۔
یہ کہانی صرف زمین کی نہیں، شناخت کی ہے
یہ صرف سفارت کی نہیں، تاریخ، عقیدے اور مستقبل کے خواب کی بھی ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا تنازع آج بھی جاری ہے اور شاید کل بھی جاری
رہے۔
"بعض ریاستیں سرحدوں سے پہچانی جاتی ہیں،
بعض نظریات سے
اسرائیل دونوں میں شمار ہوتا ہے۔"
|