ایران بمقابلہ اسرائیل: مزاحمتی نظریے کا تقابلی جائزہ

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اگر کوئی دو ریاستیں سب سے زیادہ ایک دوسرے کے مخالف دھارے پر کھڑی ہیں، تو وہ ایران اور اسرائیل ہیں۔ یہ دشمنی صرف سفارتی یا عسکری سطح تک محدود نہیں بلکہ ایک گہری نظریاتی، مذہبی اور تہذیبی تقسیم کی نمائندہ ہے۔
ایک طرف ایک ایسی یہودی ریاست ہے جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد ظلم و ستم کی کوکھ سے جنم لیا، تو دوسری طرف ایک قدیم تہذیب کا وارث ایران، جو 1979 کے انقلاب کے بعد مغربی سامراج کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔

ایران کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ہے۔ کوروش اعظم کی ہخامنشی سلطنت سے لے کر صفوی حکمرانوں تک، ایران نے ایک تہذیب، ایک قوم، اور ایک شناخت کے طور پر دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔
اسرائیل جدید ریاست ہے، مگر اس کی بنیادیں یہودی عقیدے اور دیاسپورا کی صدیوں پرانی امید پر رکھی گئیں — ایک ایسی سرزمین جہاں یہودی اپنے مذہب، قوم اور شناخت کے ساتھ محفوظ رہ سکیں۔

مگر یہاں اصل بات صرف تاریخی تسلسل کی نہیں، بلکہ نظریاتی ترجیح کی ہے۔ ایران نے اسلامی انقلاب کے بعد اپنے بیانیے کو سامراج مخالف مزاحمت میں ڈھال لیا — اسرائیل اس بیانیے میں "غاصب ریاست" کی علامت ہے۔
دوسری طرف، اسرائیل کا بیانیہ "بقا ہر قیمت پر" ہے — چاہے وہ جنگ ہو، نیوکلیئر تیاری ہو یا پراکسی خطرات کا سدِ باب۔

اسرائیل کا رقبہ چھوٹا سہی، مگر عسکری اعتبار سے وہ خطے کی سب سے جدید اور منظم فوجی طاقت ہے۔
F-35
جیسے جنگی طیارے، آئرن ڈوم دفاعی نظام، اور نیوکلیئر ہتھیار — یہ سب اس کی حفاظت کی چھتری بن چکے ہیں۔
ایران کے پاس نیوکلیئر بم نہیں، مگر اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام، سپاہِ پاسداران، اور پراکسی نیٹ ورک (جیسے حزب اللہ، حماس، حوثی) اسے ایک "زمینی طاقت" بناتا ہے۔
اگر اسرائیل "فضائی اور ٹیکنالوجی کی برتری" کا ترجمان ہے تو ایران "نظریاتی اور زمینی اثر" کا حامل ہے۔
ایران کا نعرہ ہے: "مرگ بر اسرائیل"
اسرائیل کا نعرہ ہے: "Never Again"
ایک مزاحمت کو فرض سمجھتا ہے، دوسرا اپنی بقا کو مقدس مانتا ہے۔
ایران فلسطینی کاز کو ایک مذہبی فریضہ اور شیعہ–سنی اتحاد کی بنیاد سمجھتا ہے۔
اسرائیل اسے دہشت گردی کی پشت پناہی تصور کرتا ہے۔
یہ اختلاف جغرافیہ یا حکمتِ عملی کا نہیں، بلکہ اخلاقی اور مذہبی برتری کے دعوے کا ہے۔
اسرائیل مغرب کی آنکھ کا تارا ہے۔ امریکہ، یورپ، برطانیہ، خلیجی عرب ریاستیں — سب کے سب یا تو اس کے
حلیف ہیں یا اس کی دشمنی سے پرہیز کرتے ہیں۔
ایران چین، روس، بھارت شام اور عراق میں اثر رکھتا ہے، مگر
موجودہ کشیدہ حالات میں بھارت نے اسے زبردست دھوکہ دیا ہے تو عراق اور شام بھی اس کا ساتھ دینے سے
۔ عاجز پائے گئے ہیں
البتہ پاکستان دل و وسائل کے ساتھ ایران کےساتھ کھڑا ہے
اسے عالمی پابندیوں، معاشی مشکلات، اور داخلی احتجاجات کا سامنا ہے۔
پھر بھی ایران عالمی منظرنامے سے غائب نہیں — وہ خطے کی ہر جنگ میں موجود ہے، چاہے پردے کے پیچھے۔
یہ صرف دشمنی نہیں، دو الگ دنیاؤں کا تصادم ہے
اسرائیل اور ایران کا تنازع دراصل ایک تہذیبی جنگ ہے۔
ایک طرف ایک سیکولر، یہودی قوم پرست ریاست ہے جس کی بنیاد بقا پر ہے۔
دوسری طرف ایک مذہبی انقلابی ریاست ہے جس کی بنیاد مزاحمت پر ہے۔
کیا یہ تصادم کبھی ختم ہو گا؟
کیا کبھی ایسا دن آئے گا جب تل ابیب اور تہران ایک دوسرے کو صرف دشمن کے طور پر نہیں، ایک انسانی وجود کے طور پر دیکھیں گے؟
شاید نہیں — کیونکہ جب دشمنی نظریاتی ہو، تو جنگ میدان میں نہیں، ذہنوں میں ہوتی ہے… اور وہ طویل ہوتی ہے۔

"یہ لڑائی زمین کی نہیں، نظریے کی ہے۔
اور نظریہ کبھی میزائلوں سے نہیں مرتا… صرف فہم سے بدلتا ہے۔"

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 190 Articles with 192854 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.