کالم: کیا ہم تیسری عالگیر جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟

کالم: کیا ہم تیسری عالگیر جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟
تحریر: افضل رضوی

دنیا ایک بار پھر اُس دہانے پر کھڑی ہے جہاں سفارتی زبان میں “شدتِ بحران” اور عسکری اصطلاح میں “تھرڈ ورلڈ وار” کے خدشات سنجیدگی سے زیرِ غور ہیں۔ روس-یوکرین جنگ، اسرائیل-فلسطین بحران، چین-تائیوان کشیدگی، اور ایران-امریکہ تناؤ جیسے عوامل ایک عالمی آتش فشاں کے دہانے کی مانند ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اس کالم میں ہم اس سوال کا تجزیہ کریں گے کہ کیا واقعی ہم تیسری عالگیر جنگ کے قریب پہنچ چکے ہیں یا یہ محض سفارتی توازن کا ایک اور مرحلہ ہے۔
1. عالمی طاقتوں کا ٹکراؤ: ایک تاریخی تناظر
عالمی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی جنگ کے آثار کئی سال قبل ظاہر ہو چکے تھے۔تاریخ دان Eric Hobsbawm اپنی کتاب The Age of Extremes (1994) میں لکھتے ہیں کہ:
’’عالمی جنگیں محض حادثات نہیں تھیں بلکہ یہ سامراجی دشمنیوں اور نظریاتی تقسیم کا نتیجہ تھیں۔‘‘
آج بھی ہمیں مشرقی یورپ میں نیٹو اور روس کا ٹکراؤ، ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت، اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل و ایران کے مابین پراکسی جنگیں اسی طرح کی علامات نظر آتی ہیں۔
2. تیزی سے عسکریت کی طرف جھکتا عالمی منظرنامہ
یوکرین میں جاری جنگ اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت عالمی طاقتوں کے درمیان پراکسی وار کا واضح مظہر ہے۔ امریکہ، چین، اور روس کھلم کھلا ایک دوسرے کے مفادات کی مخالفت کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہر John Mearsheimer کے مطابق:
"امریکہ اور چین کی دشمنی صرف اقتصادی نہیں ہے؛ یہ بالآخر بالادستی کی جدوجہد ہے، جو تاریخی طور پر جنگ کی طرف لے جاتی ہے۔"
(عظیم طاقت کی سیاست کا المیہ، 2001) (The Tragedy of Great Power Politics, 2001)اسی طرح ایران اور اسرائیل کے بیچ تناؤ کی شدت نے ایک اور علاقائی جنگ کا خطرہ بڑھا دیا ہے، جس کے عالمی سطح پر پھیلنے کے امکانات موجود ہیں۔
3. اقوامِ متحدہ اور عالمی امن کا بحران
اقوامِ متحدہ جیسے ادارے، جن کا قیام ہی جنگ روکنے کے لیے ہوا تھا، آج شدید بے اثری کا شکار ہیں۔Noam Chomsky اس ضمن میں کہتے ہیں:
"اقوام متحدہ طاقتوروں کا ایک آلہ بن گیا ہے، جو عالمی جنوب کی مرضی کی شاذ و نادر ہی عکاسی کرتا ہے۔"جب ادارے بے اثر ہو جائیں اور طاقتور ممالک خود کو قانون سے ماورا سمجھیں تو جنگ ناگزیر بن جاتی ہے۔
4. جدید ٹیکنالوجی اور ایٹمی خطرہ
آج کی دنیا نہ صرف عسکری لحاظ سے طاقتور ہے بلکہ خطرناک حد تک خود کار بھی ہے۔ Artificial Intelligence، hypersonic missiles، اور drones نے جنگ کو روایتی جنگوں سے کہیں زیادہ ہلاکت خیز بنا دیا ہے۔
Yuval Noah Harari خبردار کرتے ہیں:اگلی عالمی جنگ فوجیوں سے نہیں بلکہ الگورتھم سے شروع ہو سکتی ہے۔
نیز، 2022 کی Stockholm International Peace Research Institute (SIPRI) کی رپورٹ کے مطابق:"دنیا کی نو جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستیں حادثاتی یا جان بوجھ کر بڑھنے کے خطرات کے ساتھ اپنے ہتھیاروں کو جدید بنانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
5. اسلامی دنیا اور نیا عالمی نظام
اسلامی دنیا اس وقت شدید خلفشار کا شکار ہے۔ فلسطین، شام، عراق، یمن، اور افغانستان میں جاری جنگیں، مسلمانوں کے آپس کے انتشار اور بیرونی مداخلت کا شاخسانہ ہیں۔)آج امتِ مسلمہ کو جس قیادت، بصیرت اور اتحاد کی ضرورت ہے، وہ کہیں نظر نہیں آتا، جس کا فائدہ بڑی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔
6. کیا جنگ ناگزیر ہے؟
اگرچہ حالات انتہائی سنگین ہیں، مگر تاریخ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عالمی جنگ ہمیشہ آخری راستہ رہی ہے۔ اقتصادی انحصار، باہمی تبادلہ، اور ایٹمی تباہی کے خوف نے کئی بار جنگ کو روکا ہے۔
Immanuel Kant کے فلسفے کے مطابق:"دائمی امن صرف عقلی تعاون اور قانونی فریم ورک سے ہی ممکن ہے۔"یہی اُمید ہے جو دنیا کو اب تک بچائے ہوئے ہے۔
ہم بلاشبہ ایک نازک دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں جنگ و امن کا توازن لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمیں نہ صرف بین الاقوامی سطح پر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے بلکہ بطور فرد اور قوم، امن، انصاف، اور اعتدال کی کوششوں کو فروغ دینا ہوگا۔ بصورت دیگر، تیسری عالگیر جنگ کا دہانہ ہم سے زیادہ دور نہیں۔ایسے پر فتن دور میں ہمارے حکمرانوں پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لیے:
1. پاکستان کو سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
2. اسلامی دنیا کو متحد ہو کر عالمی فورمز پر آواز بلند کرنی چاہیے۔
3. امن و مکالمے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
““““““““““““ ““
Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 122 Articles with 216550 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More