ایران، اسرائیل تنازعہ ! ایران نے جنگ کے نئے اصول متعارف کرا دئے

مشرق وسطیٰ میں ایران، اسرائیل جنگ میں واضح ہوا کہ طاقت ضروری نہیں ،حوصلہ اور قیادت کا تدبر کبھی کبھی کمزوروں کو طاقتور کے مقابلے میں کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں!

خوش آئند بات ہے کہ حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطیٰ کے افق پر منڈلاتے ہوئے جنگ کے سیاہ بادل چھٹ گئے، اور امن کی ایک نئی صبح نے سر اٹھایا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایک بار پھر دنیا کو اس نکتے پر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ تباہی کا دوسرا نام ہے۔ خوش قسمتی سے جنگ کی دہلیز تک پہنچ جانے والا یہ تنازعہ کسی بڑے تصادم میں تبدیل ہونے سے رک گیا، اور ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ اصل زندگی کا حسن امن میں ہے، نہ کہ بارود کے دھویں میں۔

ایران نے اس حالیہ کشیدگی میں جس حکمت، حوصلے اور خودداری کا مظاہرہ کیا، وہ دنیا بھر کے اقوام کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ دور وہ نہیں رہا جب صرف ایٹمی طاقت یا عسکری قوت کی بنیاد پر اقوام اپنا وقار منوا لیا کرتی تھیں، بلکہ اب دنیا یہ جان چکی ہے کہ اصل طاقت اصولوں کی پاسداری، قیادت کی بصیرت، اور قومی غیرت میں پنہاں ہوتی ہے۔ ایران نے واضح کر دیا کہ دشمن کو صرف ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ وقار، استقامت اور جرأت سے بھی پسپا کیا جا سکتا ہے۔

جب قیادت باوقار ہو، فیصلوں میں دوراندیشی ہو، قوم میں شعور، قربانی اور غیرت ہو، اور سب اپنے اصولوں پر ثابت قدم ہوں، تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں بھی اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یہی وہ منظر تھا جو ایران نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ صرف عسکری یا سیاسی کامیابی نہیں تھی، بلکہ ایک فکری برتری بھی تھی جس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

ایران نے بتا دیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی چمک وقتی ہوتی ہے، مگر قومی غیرت، حکمت، جرأت اور اپنی مٹی و قوم سے سچی محبت وہ دولت ہے جو اقوام کو تاریخ میں ہمیشہ سرخرو رکھتی ہے۔ یہ قیادت کا کمال تھا کہ اس نے اشتعال کے ماحول میں تحمل کا مظاہرہ کیا، جذبات کے بجائے عقل کو رہنما بنایا، اور جنگ کی آگ کو بھڑکانے کے بجائے حکمت سے بجھایا۔
یہ واقعہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک سبق ہے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اسلحہ نہیں، بلکہ قومی کردار، نظریاتی استقلال اور اجتماعی شعور ہے۔ اگر ایک قوم اپنی شناخت، وقار اور اصولوں پر ڈٹ جائے، تو بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کے سامنے بےبس ہو جاتی ہے۔

ایران کی یہ پالیسی آنے والے دنوں میں دیگر اقوام کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم صرف فوجی طاقت یا بیرونی حمایت پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی قومی خودی، داخلی اتحاد، اور بااصول قیادت پر توجہ دیں۔ کیونکہ قومیں صرف ہتھیاروں سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں اور کردار وہ شعلہ ہے جو وقت کے اندھیروں میں بھی روشنی بانٹتا ہے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 117 Articles with 78249 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.