امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سےتین دن قبل جب پوچھا گیا کہ کیا
وہ ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں میں شریک ہوں گے تو ان کا جواب تھا کہ
’میں شاید ایسا کروں یا پھر شاید نہ کروں؟ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنا
چاہتا ہوں۔‘ اس کوئی میں وہ خود بھی شامل تھے یعنی انہیں یہ نہیں پتہ تھا
کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟ اس کے بعد ٹرمپ نے دو ہفتوں کا وقت دے کر ایران کو
جھانسہ دینے کی کوشش کی مگر اگلے ہی دن اس کے 3 جوہری ٹھکانوں پر حملہ کرکے
اعلان کیا کہ’ ہم نے ایران کے فردو، نطنز اوراصفحان میں موجود جوہری
تنصیبات کو تباہ کردیا‘ ہے ۔ ٹرمپ یہ سوچ کر اپنی فوج کو مبارکباد دی کہ
ایران خوفزدہ ہو کر گھٹنوں پر آجائے گا لیکن اس نے تو اسرائیل پر جوابی
حملہ کرکےبتا دیا کہ اصلی جنگ تو اب شروع ہوئی ہے اور اس کی قیمت اسرائیل
سے وصولی جائےگی۔ امریکہ نے حملہ کرکے اسرائیل کو غزہ بنا دینے کا جواز پیش
کردیا ہے اور یہ ہوکر رہے گا ان شاء اللہ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے امریکہ، اسرائیل اور دنیا کے لیے ایک تاریخی
لمحہ قرار دے کر ایران کے جنگ کو ختم کرنے پر راضی ہونے کی توقع ظاہر کی ۔
انہیں امید تھی کہ ایران حملے کا انکار کرےگا اور وہ ثبوت پیش کرکے اسے
رسوا کریں گے مگر ایران نے حملے کی تصدیق کردی ۔قم صوبے میں سرکاری ترجمان
مرتضی حیدری نے کہا کہ ’فردو نیوکلیئر سائٹ کے ایک حصے پر فضائی حملہ کیا
گیا۔‘ اصفہان کے ڈپٹی گورنر اکبر صالحی نےمانا کہ ’نطنز اور اصفہان میں
متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور جوہری مقامات کے قریب حملےہوئے۔‘لیکن
اس کےساتھ ایران کے ڈپٹی پولیٹیکل ڈائریکٹر حسن عابدینی یہ کہہ کر امریکہ
کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا کہ ’ایران نے کچھ عرصہ قبل ان تین جوہری
تنصیبات کو خالی کرا لیا تھا۔ وہاں سے ریڈیائی مواد پہلے ہی نکالاجاچکا
تھا۔‘ اس طرح امریکہ نے کوئی بڑی کامیابی تو نہیں حاصل کی مگر ایران کے
خلاف جنگ میں شامل ہوکر اسرائیل کی مشکلات میں بے شمار اضافہ ضرورکردیا ۔
ایران کو اب اسرائل پر جوابی حملے پورا حق حاصل ہے کیونکہ ایک اسرائیلی
اعلیٰ عہدیدار نے یہ تسلیم کیا کہ امریکہ کی کارروائی اس کی مکمل ہم آہنگی
اور رابطہ میں کی گئی۔ ٹرمپ نے بھی بنیامن نتن یاہو کو مبارکباد دیتے ہوئے
کہا کہ انھوں نے ایک ’ٹیم‘ کی طرح کام کیا اور ’اسرائیل کے لیے بدترین
خطرے‘ کو مٹا دیا۔عالمی عدالت کے مطابق نیتن یاہوغزہ میں نسل کشی کا ارتکاب
کرنے والا جنگی مجرم ہے ۔وہ وہاں جاکر اپنا دفاع کرنے بجائے منہ چھپاتا پھر
رہا ہے۔ اس نے گزشتہ ہفتے بلاشتعال ایران پر اچانک حملہ کرکے اس کی اعلیٰ
فوجی قیادت، سائنس دانوں، میزائل تنصیبات اور جوہری مراکز کو نشانہ بنانے
کے بعد اس حملے کا دفاع کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر ایران کو نہ روکا
گیا تو وہ جلد مدت میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا
ہے۔بنیامن نیتن یاہو کے جرائم میں اب ٹرمپ برابر کا شریک کار ہوگیا ہے۔
نیتن یاہو کے مطابق اسرائیلی قیادت کا ماننا ہے کہ ایران آئندہ چند مہینوں
میں تجرباتی یا ابتدائی جوہری ہتھیار حاصل کر سکتا ہے، اور یہ مدت ایک سال
سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ یہ دعویٰ وہ شخص کررہا ہے جس کے پاس تقریباً سو ایٹم
بم ہیں ایسے میں اسے دوسروں کو روکنے کا حق کیسے مل گیا؟ نیتن یاہو جب یہ
اوٹ پٹانگ ہانک رہا تھا تو ا س کی توجہ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کی سابق
سربراہ تُلسی گیبرڈ کے اس بیان کی جانب مبذول کرائی گئی ، جس میں کہا گیا
تھا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اس پر اسرائیلی
وزیر اعظم کا کہنا تھا: "ہم نے جو انٹیلی جنس معلومات حاصل کی ہیں اور
امریکہ سے شیئر کی ہیں ا ور بالکل واضح ہیں۔ ایران یورینیم کو خفیہ طور پر
ہتھیاروں میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی پر کام کر رہا ہے۔" سوال یہ ہے کہ
کیا اسرائیل کی خفیہ ایجنسی امریکہ سے زیادہ موثر ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ
امریکہ کے آگے صبح و شام مدد کی گہار کیوں لگا رہا ہے؟
نیتن یاہو کہتا ہے کہ "ہم نے اتنا افزودہ یورینیم دیکھ لیا ہے جو۹؍جوہری بم
بنانے کے لیے کافی ہے"۔ سوال یہ ہے کہاں اور کیسے دیکھا ؟ اگر یہ خواب و
خیال کی بات نہیں ہے تو عالمی جوہری توانائی کا ادارہ(انٹرنیشنل اٹامک
انرجی ایجنسی) سے شکایت کیوں نہیں کرتا؟ کیونکہ اسرائیل نے ضرور این پی ٹی
پر دستخط کیے ہیں مگرایران تو اس کا پابند ہے۔ اس کے شواہد فراہم کرکے اسے
روکا جاسکتا ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں ناکہ ’جھوٹ کو پاوں نہیں ہوتے ‘وہی چیز
نیتن یاہو کے پیروں کی زنجیر بنی ہوئی ہے۔امریکی صدر کو چاہیے تھا کہ وہ
نیتن یاہو کو اس حماقت سے روکتے مگر وہ خود اس جرم کے شراکت دار بن گئے۔
ٹرمپ نے کینیڈا میں جی سیون سربراہی اجلاس سے درمیان ہی میں واپس ہوتے ہوئے
صدارتی طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نیشنل انٹیلی جنس کی سابق
سربراہ تُلسی گیبرڈ کے اس بیان کو رد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ
ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔
امریکی اخبار "نیویارک پوسٹ" کے مطابق ٹرمپ نے متنبہ کیا تھا کہ ایران
جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب ہے۔ ٹرمپ کو جب تلسی کا بیان دلایا گیا تو
وہ بولے "مجھے پروا نہیں کہ اس نے کیا کہا، میرا خیال ہے کہ وہ (ایرانی)
جوہری ہتھیار کے حصول کے بہت قریب پہنچ چکے تھے"۔ سوال یہ ہے کہ اگر ٹرمپ
خود امریکہ کی سابق اہلکار کے بیان کوا میں اڑا سکتے ہیں تو لوگ ان کے ساتھ
یہی سلوک کیوں نہیں کرسکتے اس لیے کہ بے سر پیر کی چھوڑنے میں تو وہ جارج
ڈبلیو بش اور نریندر مودی کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں ۔ رواں برس مارچ میں
تُلسی گیبرڈ نے سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہا تھا
کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2003ء میں معطل کیے گئے
جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی منظوری نہیں دی ہے۔ ان
کی گواہی کو نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ہٹ دھرمی سے مسترد کردیا مگر
اس بیچ الجزیرہ نے آئی اے ای اے کےسربراہ رافیل گروسی نے بھی ایران کے
ایٹمی ہتھیار بنانے کی تردید کردی۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران میں
ایٹمی ہتھیار بنانے کی مربوط کوشش نہیں ہورہی،60 فیصد یورینیم افزودہ کرنے
پر شبہات تھے لیکن ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔
ان کے مطابق 2009 کے بعد اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اقوام
متحدہ نے آئی اے ای اے کو جوہری اسلحہ کے پھیلاو کو روکنے کے لیے قائم کیا
ہے اور دنیا بھر میں وہ ادارہ اس کی نگرانی کرتا ہے۔ ایسے میں اگر اسے بھی
جھٹلا دیا جائے تب تو من مانی والی بات ہوجائے گی۔ عراق کو تباہ کرنے کے
لیے عمومی تباہی کے ہتھیار( ڈبلیو ایم ڈی) کا جھوٹ گھڑا گیا اور جب عرق
تباہ برباد ہوگیا تو اس کے بعد کہہ دیا گیا کہ وہ الزام خفیہ اداروں کی غلط
رپورٹ پر منحصر تھا۔ اس وقت تک کافی تاخیر ہوچکی تھی لیکن رافیل گروسی کا
بیان تو دوران جنگ سامنے آگیا۔ اس لیے نیتن یاہو نے بہتان تراشی کرکے ایک
خود مختار ملک پر بیجا حملہ کرنے کا جرم کیا ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل کی
اعلیٰ قیادت دوسری بار جنگی مجرم بنی ہے۔غزہ اور ایران پر حملے کی سزا
امریکہ و ایران کو کیوں نہیں ملتی اس سوال کا جواب عاصم واسطی کے اس شعر
بیان ہوا ہے ؎
عدل عدالت اس بستی میں کیسے قائم ہو عاصم
جس میں ملزم مجرم خود قانون بنانے والے ہیں
امریکی حملے کا سبق یہ ہے کہ ایران سنجیدگی سے ایٹمی دھماکہ کرکے جوہری
طاقت کا حامل بن جائے۔ صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدار میں جب شمالی کوریا نے
امریکہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے بین البراعظمی میزائلوں کا
تجربہ کیا تھا تو اسے جوہری تنصیبات پر حملے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ کم جونگ
نے اس وقت ایٹمی دھماکہ کرکے واشنگٹن کو خبردار کیا کہ وہ ایسی حماقت سے
گریز کیا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ امریکہ نے جنگ پر سفارتکاری کو فوقیت دی ۔
شمالی کوریا نے ثابت کردیا کہ امریکہ کسی جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک پر
حملہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا ۔ ایران نے 2015 میں امریکہ اور یورپ کے
ساتھ معاہدے کے تحت افزودہ یورینیم کو ضائع کرنے کا عہد کیا تھا۔ ٹرمپ کی
انٹیلی جنس سربراہ تلسی گیبرڈ نے چند ماہ قبل یہ تسلیم بھی کیا کہ ایران
جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا ہے اس کے باوجود اس پر حملہ ہوگیا۔ ایران کے لیے
بھی اب شمالی کوریا کی پیروی کرنےکے سوا کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے مگر اس
سے قبل اسرائیل کو تباہ و تاراج کا جو جواز ٹرمپ نے اسے فراہم کیا اس کا
فائدہ ضرور اٹھایا جائے گا ۔ وہ دن دور نہیں جب اسرائیل کے اندر بھی غزہ کے
کئی مناظر نظر آئیں گے ۔ان شااللہ۔
|