ایران اور اسرائیل کی جنگ کے نشیب و فراز خرگوش اور کچھوے
کی کہانی یاد دلاتے ہیں۔ بچپن میں سنا تھا کہ ایک مرتبہ خرگوش نے دوڑ لگانے
کا چیلنج کیا تو کچھوے نے اسے خندہ پیشانی سے قبول کرلیا ۔ ایک کو اپنی
رفتار کا گھمنڈ تھا اور دوسرا مستقل مزاجی پر اعتماد کرتا تھا ۔ مسابقہ
شروع ہوا تو خرگوش نے توقع کے مطابق تیزی کے ساتھ چھلانگ لگاتے ہوئے اپنی
بڑھت بنالی ۔ پہلے ہی حملے میں کئی فوجی جرنیل، بڑے بڑے سائنس دان یہاں تک
کہ رہبر اعلیٰ علی خامہ ای کی مشیر خاص تک کو شہید کرکے یہ پیغام دیا کہ اب
کوئی بھی محفوظ نہیں ہے اس لیے بلاتاخیر ہتھیار ڈال دو ۔ خرگوش تیزی سے دوڑ
لگا رہا تھا کہ ایک پیڑ کے نیچے اسے اپنا پرانا دوست بھیڑیا مل گیا ۔ اس نے
کہا بھیا اتنے ہانپتے کانپتے کیوں بھاگے جارہے ہو ؟ کچھوا تو بہت پیچھے
چھوٹ گیا ہے۔ وہ کبھی بھی تم سے آگے نہیں نکل سکتا اس لیے بدحواسی چھوڑو
اور تِنک آرام کرلو’میں ہوں نا‘۔ خرگوش اپنی تعریف پر خوش ہوگیا۔
بھیڑیااپنی پیار بھری تھپکی سے اسے سلاکرنئے شکار کی تلاش میں جنگل کی طرف
نکل گیا۔ مونگیری لال کے حسین سپنوں میں غوطہ زن خوابِ خرگوش میں وہ دیکھ
رہا تھا کہ ایران کی قیادت گھٹنوں پر آ گئی ہے۔ صدام حسین اور کرنل معمر
قذافی کی مانند اسے بھی عبرتناک انجام سے دوچار کردیا گیا ہے لیکن حقیقت
میں ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ ہوگیا جو غالب نے کہا تھا؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر یہ تماشا نہ ہوا
ایران نے سب سے پہلے سائبر اٹیک سے مفلوج اپنے مواصلاتی نظام کو درست کیا
اور پھر اسرائیل پر ایک ہی رخ سے میزائیلوں کی برسات کردی۔ اسرائیل کا
آئرن ڈوم مختلف سمت سے آنے والے حملوں کو گھوم گھوم کر مارنے کے تیار کیا
گیا تھا مگر جب سارے حملے ایک قطار میں آئے تو وہ اندھا ہوگیا۔ اس کے
باوجود اس نے اسیّ فیصد میزائل گرائے مگر پھر بھی بیس فیصد زمین پر گرے ۔
وہیں سے اسرائیل کے تباہی کاآغاز ہوا جو بتدریج آگے بڑھتا جارہا ہے ۔ اس
جوابی کارروائی سب سے پہلے تو اسرائیل کا غرور و تکبر ٹوٹ کر بکھر گیا۔
اپنے دیسی میزائل سے دنیا کا سب سے طاقتور جنگی جہازایف 35ایس گر اکر ایران
نے ثابت کردیا کہ اس بار اسرائیل نے غلط پنگا لے لیا ہے۔ امریکہ کے پاس صرف
اسلحہ کی صنعت میں برتری حاصل ہے اور اگر وہ بھی زمین بوس ہوجائے تو امریکہ
پاتال میں چلا جائے گا ۔ لوگ سوویت یونین کی طرح اسے یاد کرکے کہیں گے ’ایک
تھا ریاستہائے متحدہ امریکہ‘ لیکن ہائے ہائے وہ اپنےمعشوقِ مجازی اسرائیل
کے چکر میں برباد ہوگیا ۔
فی الحال خرگوش سمیت بھیڑئیے کے ارمان بھی آنسووں میں بہہ رہےہیں ۔یہ حسن
اتفاق ہے کہ مشیت ایزدی نے سوویت یونین کا قلع قمع افغانستان سے کروایا
اوراب امریکہ کی قبر ایران سے کھدوا رہی ہے۔ کچھوے کا سفر مستقل مزاجی سے
جاری رہا ۔ اسے راستے میں ایک پیڑ کے نیچے سویا ہوا خرگوش نظر آیا ۔ اس
موڑ پر کہانی میں نیا ٹویسٹ آگیا ۔ خرگوش کوسویا ہوا دیکھ کر پرانے زمانے
کا کچھوا خوش ہوگیا تھا ۔ اس نےسوچا تھا اسے سونے دو ورنہ جاگے گا تو آگے
نکل کر مجھے ہرا دے گا۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھ کر ریس جیت گیا مگر عصرِ
حاضر کے کچھوے نے سوچا کہ میری رفتار ضرور کم ہے مگر میرے پاس ڈنک بھی تو
ہے کیوں نہ اس کا استعمال کرکے خرگوش کی ایسی حالت کی جائے کہ وہ زندگی
بھردوڑ جیتنا تو دور چیلنج بھی نہیں کر سکے ۔ اس نےخرگوش کے قریب جاکر اس
کے کان میں ڈنک مارکر یعنی موساد کے مرکز کو نشانہ بنا کر زمین دوزکردیا ۔
خرگوش نے ہوش سنبھال کر کچھوے پر چھلانگ لگائی تو اس نے اپنی گردن خول میں
چھپا لی ۔ خرگوش پریشان ہوکر سوچ ہی رہا تھا کہ اب اس کا کیا کیا جائے
توکچھوے نے موقع دیکھ گردن نکالی اور اس کےپیروں پر ڈنک ماردیا پھر کیا تھا
وزارت دفاع کی عمارت مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ۔ اب خرگوش نے غصے پاگل
ہوکر بھیڑئیے کو پکارا اور دہائی دی کہ مجھے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای
کو شہید کرنے کی اجازت دی جائے۔ بھیڑیا بولا بھیا یہ غلطی مت کرنا ورنہ روس
سے بھالو اور چین سے چیتا آدھمکے گا ۔ خرگوش پھر تذبذب میں مبتلا ہوگیا
اور سوچنے لگا کہ اگلا قدم کیا ہو۔ بڑی خبر بنانے کے چکر میں اس نے ایٹمی
ٹھکانوں کے ساتھ ٹیلی ویژن سینٹر کو بھی اڑا دیا۔ جواب میں کچھوے نے حصص
بازار (اسٹاک ایکسچینج) کی عمارت کو زمین بوس کردیا ۔ مادہ پرست یہودی کے
لیے دل اور پیشانی کا زخم قابلِ برداشت ہے مگر وہ پیٹ پر لات نہیں سہہ سکتا
۔ اس لیے خرگوش کرب سے کراہتے ہوئے اپنے باشندوں کے کتے بلی کی مانند فرار
ہونے سے روکنے کے لیے سارے ہوائی اڈے بند کروادیئے ۔
اسرائیل میں پردیس سے آکر بسنے والے بیشتر لوگوں کے پاس دو پاسپورٹ ہیں ۔
ان کی ناز برداری کے لیے اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو اپنی زمین سے بے دخل
کرتی ہے ۔ ان غیر ملکیوں کی کالونیوں کو دیوار بنا کر تحفظ دیا جاتا ہے۔
انہیں ہر طرح کے ظلم و زیادتی کی اجازت دی جاتی ہے لیکن جب آسمان سے شعلے
برسنے لگے تو نازو نخرے میں پلنے والے یہ خود سر لوگ پریشان ہوگئے ۔ دوہری
شہریت کے سبب انہیں دوسرے ملک میں جانے کے لیے ویزا کی ضرورت نہیں ہے۔
اسرائیل میں وہ اپنے مذہب کی محبت میں نہیں بلکہ تحفظ اور خوشحالی کے لیے
آئے تھے مگر اس جنگ نے انہیں زیر زمین بنکر کے اندر ہندوستانی مسکین
مزدوروں کے ساتھ گھٹ گھٹ کر مرنے پر مجبور کردیا ۔ ا س لیے اب ان کو دوسرے
پاسپورٹ کا استعمال کرکے عافیت کی زندگی گزارنے سے کیونکر روکا جا سکتا ہے؟
فی الحال اسرائیل کی ایک بڑی آبادی راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے پر تول
رہی ہے اور ہوائی اڈہ بند ہونے کے سبب روہنگیا مہاجرین کی مانند کشتی کے
ذریعہ قبرص کے راستے فرار ہورہی ہے۔
یہ وہی قبرص ہے جہاں امریکی فوجی اڈے نیتن یاہو کے فرار ہونے کی قیاس
آرائی کی گئی تھی اور مودی جی بھی کینیڈا جاتے ہوئے وہاں رکے تھے۔ نیتن
یاہو نے خود کو نامعلوم مقام پر روپوش کرکے اپنی عوام کو زبردست عدم تحفظ
کا شکارکیا ہے۔ اس دوران جنوبی اسرائیل کے شہر بئیر الشیبا کا مشہور و
معروف سورکا اسپتال بھی ایرانی بمباری زد میں آگیا ۔ اس پر اسرائیل نے شور
مچانا شروع کیا ایران فوجی ٹھکانوں کو چھوڑ کر شہری بلکہ صحت عامہ کے مراکز
کو بھی نشانہ بنارہا ہے۔ اسرائیل کو توقع تھی کی اس طرح دنیا بھر کی ہمدردی
اس کے حصے میں آ جائے گی لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔ سوشیل میڈیا پر لوگوں نے
اسرائیل کو ایسا آئینہ دکھایا کہ اسے اپنے چہرے سے نفرت ہوگئی ہوگی۔ پہلے
تو یہ پوچھا گیا کہ اسرائیل نے جس ٹیلی ویژن سینٹر کو نشانہ بناکر فخر
جتایا تھا کیا وہ فوجی مرکز تھا؟ لیکن بات وہیں نہیں رکی لوگوں نے سوال کہ
آخر غزہ میں کون سا اسپتال اسرائیلی بمباری سے تباہ و تاراج نہیں
ہوا؟۷؍اکتوبر کوحماس پر شروعات کرنے کا الزام لگانے والوں سے پوچھا گیا کہ
اس بار حملہ آور کون ہے؟
سوشیل میڈیا کے صارفین نے اسرائیل کو وہ پرانی دلیل بھی یاددلائی کہ حماس
نے اسپتالوں کے نیچے اپنا مرکز بنا رکھا ہےاور اپنے مجاہدین وہاں چھپا رکھے
ہیں ۔ اسپتالوں کو انسانی ڈھال کے طور پر اسپتال کو استعمال کیا جارہا ہے۔
ایک صارف نے اس اسرائیلی قانون کا حوالہ دے دیا جس کی روُ سے60فیصد
اسرائیلی آبادی پر فوج میں شمولیت لازمی ہے اور انہیں تربیت دے کر جنگ کے
لیے تیا ر رکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اسپتالوں میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد
عام شہری نہیں فوجی ہے۔ خلاصہ یہ کہ کسی کو ایران کے تردید کی ضرورت بھی
پیش نہیں آئی ۔ یہودیوں نے اسی دن غزہ کے اندر غذا کی قطار میں کھڑے 59
فلسطینیوں کو شہید کرکے اپنےچہرے پر کالک پوت لی اب وہ کیا منہ لے کر دنیا
بھر کے لوگوں سے ہمدردی وصولتے ۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی والا محاورہ ایسے ہی
مواقع پر استعمال ہوتا ہے۔ صہیونیوں نے چونکہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان
پر ایسا برا وقت بھی آئے گا اس لیے نہ صرف مظالم کرتے تھے بلکہ جوش و خروش
کے ساتھ ان کی پشت پناہی بھی کی جاتی تھی۔
ایران پر اسرائیلی حملے کےفوراً بعدکسی اسرائیلی نے نہیں پوچھاکہ اس حماقت
کی اسے کیا ضرورت تھی ؟اس وقت چہار جانب شادیانے بج رہے تھے لیکن اب بنکر
میں چھپے لوگ نتین یاہو پر لعنت ملامت کر ہےہیں ۔ انہیں جنگ چھیڑنے کے بعد
اپنے وزیر اعظم کاوہ خطاب یاد آرہا ہےجس میں ایرانیوں کو اپنے حکمران طبقہ
کے خلاف متحدہوکر اس کا خاتمہ کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ ایرانی حکمرانوں
کو جابر اور ظالم قرار دےکر کہا گیا تھا کہ ایرانی عوام کے متحد ہو کر
آزادی حاصل کرنے کا وقت آچکا ہے اورنیتن یاہو ایرانی عوام کی آزادی کا
راستہ صاف کر رہاہے ۔ایران کے ہاتھوں نیتن یاہو کی زبردست رسوائی کے بعد
ہوگیا اب یہودی خود اس کا راستہ صاف کرکے اپنی آزادی کے لیے فکر مند ہو
گئےہیں اور ایران کے نام نہاد نجات دہندہ سے نجات حاصل کرنے کی فکر میں ہیں
۔ کچھوے کےلیے کھودے جانے والے گڑھے میں گر کر مغرور خرگوش کراہ رہا ہے۔
|