”تجربات کا قائل ہوں،ہر دم کچھ
نیا کرنے کے لیے بے چین رہتا ہوں!“
ملاقات: سائرہ غلام نبی
کچھ سالوں پہلے جب اس سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ کہانیاں لکھتا ہے
اور لکھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح جس طرح بولتا ہے اور بولتا چلا جاتا ہے۔ ان
دنوں باتوں باتوں میں جب وہ اپنے بارے میں کچھ کہتا تو میں اس کو بھی ایک
”کہانی“ سمجھتی اور آگے بڑھ جاتی۔ ایک دن روک کر اس نے کہا کہ میں کہتا ہوں
کہ میں روڑی کوٹنے والا مزدور تھا‘ تو تم اس کو مذاق سمجھتی ہو؟“ میں نے بے
جھجک کہا” ہاں میں مذاق سمجھتی ہوں۔
اس کی باتوں کی گہرائی‘ گیرائی اور سوچ وفکر کے زادیوں سے آشنا ہوئی تو
محسوس ہوا، جس نے تجربوں سے براہ راست زندگی کو برتا ہو، وہ کبھی سطحی مذاق
نہیں کرسکتا اور یوں بھی اسے بہت کچھ”مذاق” ہی لگتا ہے۔ ابن آس ایسا شخص ہے
جس کی گفتگو میں زندگی کا سچ‘ بنا کسی تلخی کے ہے۔ وہ حقیقت سے آنکھ ملا
سکتا ہے۔ ابن آس ایسا ہی شخص ہے۔ اس نے اس عمر میں زندگی کے رنگ ہر شیڈ میں
دیکھے ہیں۔ وہ محرومیوں سے مایوس ہونے کے بجائے امیدوں کے خوش رنگ پھول
اپنی ہتھیلی پر کھلا سکتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں تھکن اور رت جگوں کے بجائے
خواب ہی خواب ہوتے ہیں اور ہر خواب کسی قندیل کی طرح روشن....!
ابن آس کہانی نویس ہے۔ ڈرامہ رائٹر ہے‘ صحافی ہے‘ مترجم ہے۔ اب تک اس کی
مجموعی طور پر ساڑھے چھے ہزار کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔ فیچر‘ انٹرویوز،
مضامین کی تعداد ساڑھے چار ہزار کے قریب ہے۔ جب کہ تراجم ڈیڑھ ہزار کے قریب
ہیں۔ ایک سو ستر کے قریب ڈرامے نشر ہوچکے ہیں۔ جبکہ اعزازات کی تفصیل کچھ
یوں ہے۔
ذیشان ادب ایورڈ‘ ساتھی رائٹرز ایورڈ(5دفعہ) چائلڈ اسٹار ایورڈ‘ روزنامہ
امت سے تین سال بہترین کارکردگی ایوارڈ۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن سے مسلسل آٹھ
ایوارڈز۔ علاوہ ازیں اور بے شمار ایوارڈز مل چکے ہیں۔ آیئے ابن آس کی
جدوجہد کی داستان ‘ ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔
”سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ ابن آس کیوں ہیں؟“
ابن آس نے بے ساختہ کہا” نہ ہوتاتو کیا ہوتا‘ ظاہر سی بات ہے امید کا بیٹا
ہوں۔“
جس آس پہ دنیا قائم ہے وہ آس، قسم سے میں ہی ہوں۔ اچھا بھئی‘ تم الجھو نہیں،
یہ میرے والد کا نام ہے۔ وہ محمد آس تھے‘ سو میں ابن آس ہوگیا۔“
نام کے حوالے سے تسلی ہوئی تو میں نے اگلا سوال کیا۔
” آس اور امیدوں کا سفر کہاں سے شروع ہوا؟“
اور پھر انہوں نے یہ سنتے ہی گویا یادوں کا پٹارہ کھول کر رکھ دیا۔ تفصیل
بتاتے ہوئے کہا۔
” یوں سمجھو کہ آس اور امید کا سفر وہیں سے شروع ہوا‘ جہاں سے امیدوں نے دم
توڑاتھا۔ مجھے بتایا گیا کہ تین دن ہوگئے ہیں فاقے کرتے ہوئے اور چوتھے دن
بھی بھوکا رہنا پڑے گا۔ اس دن کسی نے میرے سارے خواب درخت کی سب سے اونچی
ٹہنی پر باندھ دیئے۔ان دنوں ہم غریب آباد کی جھگی میں رہتے تھے۔ میں کمپری
ہینسو اسکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اچھا خاصا ذہین طالب علم تھا۔
اسکول چھوڑا اور دوسرے دن مزدوری کیلئے نکل کھڑا ہوا، دھان پان سالڑکا تھا۔
ایک جگہ مزدوری ڈھونڈی‘ وہاں کنسٹرکشن کاکام ہورہا تھا۔دوسرے مزدور میرا
مذاق اڑانے لگے‘ یہ کام کرے گا۔ انہوںنے پوچھا کیا بیلچہ اٹھالو گے، میں نے
کہا اٹھالوں گا اور میں نے بیلچہ اٹھالیا۔ صبح سے شام تک کام کیا۔ بیس روپے
ملے۔ مزدوری کے کام کا آغاز ہوا تو کراچی کی گلیوں، سڑکوں پر پتھر توڑے،
سڑکیں بنائیں، بارہ چودہ سال تک یہ کام کیا۔ ہر طرح کی مزدوری کی‘ چنائی‘
پلستر سے لے کر ریلوے اسٹیشن پر قلی تک کاکام کیا۔ ساتویں منزل پر بوریاں
چڑھاتا رہا۔ اورنگی ٹاؤن کی پہاڑیوں پر پتھر تک توڑے اور میں تمہیں بتاؤں‘
پڑھائی تو میں چھوڑ ہی چکا تھا۔ مگر کتاب سے تعلق نہیں توڑا تھا۔ جہاں مجھے
موقع ملتا۔میں کہانیوں کی کتاب نکالتا اور پڑھتا‘ کتنی کتابیں میں نے نالے
کے اندر چھپ کر پڑھیں۔“
” لکھنے کا سلسلہ کیسے شروع ہوا؟ یا کیسے پتہ چلا کہ آپ کہانیاں لکھ سکتے
ہیں۔“ گفتگو کا تسلسل توڑتے ہوئے میں نے پوچھا ‘ جواباً انہوں نے کہا۔
” میرا ایک دوست عاصم اقبال تھا۔ وہ بچوں کے رسالے لے کر آتا تھا۔ میں ے
تیسری کلاس سے کہانیاں پڑھنا شروع کردی تھیں۔ میں نے اس وقت سے رومانی ناول
بھی پڑھنے شروع کردیئے تھے۔ گرچہ کہ سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ اشتیاق احمد کا
جو سب سے پہلا ناول آیا تھا‘ وہ میں نے خرید کر پڑھا۔ اس دوران میں نے
کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔ سب سے پہلے میںنے ایک مزدور کی کہانی لکھی۔82ءکا
دور تھا۔ میری کہانیاں شائع ہونے لگیں۔ دن بھر کے تجربات کہانیوں کی شکل
میں لکھ دیتا تھا۔ گرچہ میرے تمام تجربات تلخ رہے۔ بہت‘ بہت تلخیاں دیکھیں
لیکن یہ اچھی بات ہوئی کہ جیسے جیسے لوگوں سے ملتا رہا۔ مجھے اتنی ہی
کہانیاں ملیں۔ اس دوران دو ہزار کے قریب بچوں کی کہانیاں لکھیں۔“
|
|
ابن آس رکے تو‘ میں نے اس سے سوال کیا” اس سخت کوشی کے دور میں کسی نے
حوصلہ افزائی کی؟“
جواب میں انہوںنے شکوے شکایت سے عاری لب ولہجہ میں کہا۔
” جب میری کہانیاں شائع ہورہی تھیں۔ ڈائجسٹوں میں بھی کہانیاں ری رائٹ
کررہا تھا۔ اسی دوران مختلف طرح کی کہانیاں پڑھنے کا موقع ملا۔ 88ءمیں میری
ایک کہانی چھپی۔ کسی نے کاوش صدیقی سے متعارف کروایا۔ وہ بھی کہانیاں لکھتے
تھے۔ ان سے بحث ہوگئی۔ انہوںنے چیلنج دیا، کہانی لکھ کر دکھاؤ۔ پھر میں نے
تیس صفحے کی کہانی لکھی۔ وہ شائع ہوئی۔ میں محمد اختر آس کے نام سے کہانیاں
لکھا کرتا تھا۔ اس کہانی پر ابن آس کا نام تھا۔ جب سے میرا قلمی نام ابن ِ
آس ہوگیا۔ جس رسالے میں یہ کہانی شائع ہوئی تھی، اس کے ایڈیٹر حنیف سحر تھے۔
جن کامیں بہت احساس مند ہوں۔ وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے پہنچے‘ میں ڈبو کھیل رہا
تھا۔ انہوںنے مجھ سے ہی کہا کہ مجھے ابن آس سے ملنا ہے۔ ان کو بتایا کہ میں
ہی ابن آس ہوں۔ پھر وہیں چائے پینے بیٹھ گئے۔ انہوںنے میری بہت حوصلہ
افزائی کی اور کہا تمہاری کہانی بہت پختہ ہے۔ پھر ایک گھنٹے تک لیکچردیا کہ
تم جاسوسی کہانیاں لکھنا چھوڑو، معاشرتی کہانیاں لکھو۔ ان کے کہنے پر میں
نے معاشرتی کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا، اس کے بعد ایک بار پھر رابطہ کر کے
انہوںنے مجھ سے کہا، بچوں کی کہانیوں میں زیادہ ترقی کے مواقع نہیں ہیں۔
شوبز کے پرچوں کو جوائن کرو۔ پھر پہلی جاب انہوں نے ہی دلوائی۔ وہاں پہلی
شرط یہی بتائی گئی کہ مجھے ترجمہ کرنا ہوگا اور مجھے ترجمہ کرنے کیلئے ایک
صفحہ دیا۔ تم یقین کرو مجھے اے‘ بی ‘سی تک نہیں آتی تھی۔ خیر میں نے وہ
صفحہ لے لیا۔ لیکن میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا لکھا ہے ۔پھر میں نے
اسی ایک رات میں ترجمہ کرنا سیکھا۔ دوست سے ڈکشنری لی اور تین کتابیں گرامر
کی لیں۔ ایک ایک لفظ کے آگے اس کا ترجمہ لکھا۔ تقریباً ڈھائی ہزار الفاظ
تھے۔ جب ان کا مفہوم سمجھ میں آیا تو اپنے انداز میں کہانی کی طرح لکھ دیا۔
صبح وہ ایڈیٹر کے پاس لے کر گیا۔ وہ حیران رہ گیا۔ پھر یہ طے ہوا کہ مجھے
بیس صفحے ترجمے کرنا ہوں گے۔ بس گاتے گاتے گویا بن گیا۔ اس کے بعد میں نے
بے شمار تراجم کئے اور اس طرح کام کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔“
” مزدوری کرتے کرتے لکھنے پڑھنے کی طرف آئے۔ اس دوران بگڑے تو نہیں‘ جس کے
بہت چانسز تھے۔“ یہ سوال سن کر وہ بولے۔
” بگڑ بگڑ کر ہی یہاں تک پہنچاہوں۔ غنڈوں بدمعاشوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا
تھا۔ سگریٹ ضرور پیتا تھا۔ تاش نہیں کھیلتا تھا۔ گرچہ برائیوں کے بہت راستے
ملے‘ مگر ایک بات بتاؤں ‘ اگر آپ بگڑنا چاہتے ہیں تو اپنی مرضی سے بگڑتے
ہیں۔ اگر نہیں تو کوئی آپ کو بگاڑ نہیں سکتا۔“ میں نے ان کی بات سے اتفاق
کرتے ہوئے پوچھا۔
” کوئی ایسی شخصیت جس نے آپ کی راہ متعین کی ہو‘ کہ جس سے ملنے کے بعد آپ
نے سوچا کہ اب یہی کرنا ہے۔ “ابن آس نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا۔
”88ءکی بات ہے۔ ”ٹوٹ بٹوٹ“ میں کہانیاں لکھا کرتا تھا۔ اس کے چیف ایڈیٹر
معروف صحافی محمود شام تھے۔ ان کا خط ملا کہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ،میں
مزدوری کرتا تھا اور اس دن بھی میں سیمنٹ میں نہایا ہوا تھا ۔اسی طرح ان سے
ملنے چلا گیا‘ اس حلیے میں دیکھ کر انہوںنے کوئی توجہ نہیں دی‘ جب میں نے
انہیں بتایا کہ میں ابن آس ہوں تو انہوںنے مجھے گلے لگالیا۔ مجھ سے میرے
حلیے کے متعلق پوچھا تو میں نے انہیں اپنے حالات کے متعلق بتایا‘ وہ بڑے
متاثر ہوئے۔ پھر انہوںنے پوچھا کہ میں کتنا کمالیتا ہوں میں نے ڈینگے
ہانکتے ہوئے بتایا کہ پندرہ سو تک کما لیتا ہوں۔ اسی دوران انہوںنے مجھ سے
کہا کہ صاف ستھرے آدمی کی جاب کروگے ۔یوں میں نے ان کے یہاں جاب کرلی‘ پہلے
ہی دن مجھے پتہ چلا کہ پروفیشنل جیلسی کیا ہوتی ہے چونکہ میں پڑھا لکھا
نہیں تھا کہ کوئی مجھے برداشت کرتا۔ا س پرچے کی ایڈیٹر نزہت شیریں تھیں۔
ایک دن انہوںنے میری شکایت محمود شام سے کی جس پر انہوںنے کہا کہ اس لڑکے
میں کہانی کی زبردست پرکھ ہے اور یہ جملہ میرے لئے کہاتھا‘ میں بتا نہیں
سکتا اس ایک جملے نے میرے اندر بہت یقین اور اعتماد بڑھادیا۔“
اس بات کے تسلسل میں‘ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کبھی تعلیم حاصل کرنے
کاخیال نہیں آیا۔ جواباً ابن آس نے کہا۔
”اسی دوران میری زندگی میں ایک لڑکی آئی اور اس لڑکی کی خاطر میں نے تعلیم
دوبارہ شروع کی‘ محمود شام صاحب کے پاس جاب بھی کررہا تھا اور میں نے
دوبارہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ آرٹس گروپ میں اے گریڈ سے میٹرک پاس کرلیا۔
اردو سائنس کالج میں ایڈمیشن لیا۔ پری انجینئرنگ کے پہلے سال میں تھا کہ
ایک بار پھر پڑھائی چھوڑنا پڑی۔ ”ٹوٹ بٹوٹ“ کی ایڈیٹر نے میری شکایت محمود
شام سے کردی کہ میں آفس وقت پر نہیں آتا ہوں۔کسی دوسری جگہ نوکری کررہا ہوں۔
محمو د شام نے مجھ سے کہا”ایک چیز چھوڑدو“ سو میں نے وہاں سے نوکری چھوڑ دی۔
” ارے وہ بات تو درمیان میں رہ گئی۔ وہ لڑکی ملی کہ نہیں ملی۔“میں نے جلدی
سے پوچھا۔
”ہاں.... وہ لڑکی مجھے مل گئی۔ اب وہ میرے چار بچوں کی ماں ہے ۔اس کی وجہ
سے میری زندگی بدل گئی۔“
”اخباری صحافت کی طرف کیسے آنا ہوا۔“ میں نے اخباری صحافت کی تفصیل جاننا
چاہی کہ وہ صحافی بھی رہ چکے ہیں۔
”اخباری صحافت کی طرف ایسے آیا کہ ایک میگزین کررہا تھا۔ اقبال سہوانی صاحب
جن کا تعلق اخباری صحافت سے تھا۔ ان سے ملاقات ہوئی‘ باتوں میں کہا‘ منتھلی
میگزین سے نکلواور رونامے کی طرف آؤ‘ وہاں آگے بڑھنے کے چانس زیادہ ہیں۔ ان
دنوں آصف زرداری کا ایک اخبار ”مالیات“ کے نام سے نکل رہا تھا۔ چھ مہینے تک
وہاں کام کیا۔ ڈیسک پر بیٹھ کر تراجم کرتا۔ خبریں بناتا‘ کاپی جڑواتا۔ سب
کام دیکھتا تھا۔ وہاں چھ مہینے تک کام کرنے کے باوجود ایک روپیہ بھی نہیں
ملا۔ وہیں معین کمالی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ ان
ہی دنوں امت اخبار کا اجرا ہورہا تھا۔ وہاں ایک سلسلہ وار ناول لکھنا شروع
کیا۔ اس اخبار کے مالک رفیق افغان کو میری صلاحیتوں کا اندازہ ہوا۔ انہوںنے
وہاں پارٹ ٹائم جاب دی، چھ مہینے بعد مکمل جوائن کرلیا۔ اخباری صحافت کا
مجھے تجربہ نہیں تھا۔ احفاظ الرحمن جو سینئر صحافی ہیں۔ ان سے اخبار کی ڈمی
لے کر دیکھی اور اس سے بالکل مختلف ڈمی بنائی اور کام شروع کردیا۔ اس سلسلے
میں احفاظ الرحمن کو اپنا استاد مانتا ہوں۔ بعد میں دوسرے بڑے اخباروں نے
میرے بنائے ہوئے صفحات کی نقل شروع کردی۔ امت اخبار میں کام کرنا ایک بڑا
تجربہ تھا۔ وہاں نو سال کام کیا۔“
” اخباری صحافت کا تجربہ کیسا رہا“اسی حوالے سے میں نے پوچھا۔
” میں بائیس صفحات تن تنہا کرتا تھا۔ 75فیصد مواد میں خود تحریر کرتا تھا۔
ترجمہ کرتا تھا۔ طبع زاد مضامین لکھتا تھا۔ یہاں تک کہ گھر نہیں جاتا تھا۔
رفیق افغان نے مجھے کھل کر کام کرنے کا موقع دیا۔ یادگار تجربہ تھا مگر میں
نے تکلیف دہ وقت گزارا۔ مجھے پیسے اس حساب سے نہیں ملتے تھے۔ جتنا میں کام
کرتا تھا۔“
”ڈراموں کی طرف کیسے آنا ہوا۔
”ہمیشہ میری دوسری جاب اس وقت ہوتی تھی۔ جب میرے ساتھ زیادتی ہوتی تھی۔ میں
جنات کی طرح کام کرتا تھا اور کئی کئی کام میرے ذمے آجاتے تھے۔ پھر میرے
سینئرز کو خیال آتا تھا کہ ایک جاہل آدمی کو بٹھایا ہوا ہے۔ وہاں میرے لئے
پرابلم کھڑے ہوجاتے تھے۔ جن دنوں میں اخبار میں کام کررہا تھا۔ بیس بائیس
صفحات میرے ذمے ہوتے تھے۔ میں نئے سے نئے آئیڈیا شروع کرتا اور وہ صفحات
بہت پاپولر ہوتے۔ ان دنوں چینل نئے نئے شروع ہوئے تھے۔ میں پریس کلب میں
بیٹھا تھا۔ ایک دوست نے کہا‘ ٹی وی کے لئے فیچر بنادو۔ میں نے وہیں بیٹھے
بیٹھے ”افغان بچوں نے کیسے عید منائی“ کے عنوان سے ایک فیچر لکھ کردیا۔ پھر
مجھے اندازہ ہوا کہ میں یہ کام بھی کرسکتا ہوں۔ امین صادق ڈرامہ ڈائریکٹر
تھے‘ ان کی سیریز چل رہی تھی۔ انہوںنے مجھ سے ایک ڈرامہ لکھوایا جس کے مجھے
چار ہزار ملے۔ جس اخبار میں کام کررہا تھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میرا ڈرامہ
ٹی وی پر چلا ہے تو نوٹس دیا کہ چونکہ تم اس ادارے کے ملازم ہو، تمہیں پیسے
ملے ہیں اس میں سے آدھے جمع کروا دو۔ جس پر میں نے اسی کاغذ پر استعفیٰ لکھ
کردے دیا۔ پھر مجھے پیسے کی ضرورت تھی۔ عاطف حسین میرے دوست ہیں۔ میں نے
انہیں فون کیا کہ میں ڈرامے لکھنا چاہتا ہوں۔ اگر چہ مجھے ڈرامے لکھنا پسند
نہیں تھا۔ پھر ان کے کہنے پر ایک ٹیلی فلم لکھ کر دی۔ پھر سلسلہ چل نکلا۔
|
|
” یہ تجربہ کیسا رہا؟“ میں نے کریدا۔
” ٹھیک لگا۔ مگر میںنے یہاں یہ دیکھا کہ مجھے تو دس ہزار مل رہے ہیں اور
ہیروئن کو چالیس ہزار‘ مجھے اس بات پہ دکھ ہوا۔ میں نے لڑائی شروع کردی کہ
مجھے اتنے ہی پیسے ملنا چاہئیں۔ پھر میرا سیریل ”کالک“ چلا جس سے بڑی
پذیرائی ہوئی۔میرا ایک پلے ”کاش“ انڈس و ژن سے چلا توچینل پر میری جاب
ہوگئی۔ مجھے ”انڈس“ پر غضنفر علی صاحب نے بلوایا اور اسکرپٹ کے شعبے کا
انچارج بنادیا۔وہاں سے جاب چھوڑی تو مزید مصروف ہوگیا،حال ہی میں اے آر
وائی سے دو کامیاب سیریلز” بہو رانی“ اور ” رانی بیٹی راج کرے“ کر چکا
ہوں،ان دنوں ثمینہ ہمایوں سعید اور شہزاد نصیب کے ادارے سکس سگما ،سے
وابستہ ہوں،ان کا سوپ ”مڈل کلاس“ لکھ کر دیا ہے۔ایک فلم لکھی ہے جو انٹر
نیشنل فیسٹیولز میں دکھائی جارہی ہے۔کافی سارے پروجیکٹس کر رہا ہوں ۔جن کی
تفصیلات فی الحال نہیں بتا سکتا۔
” پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں تو کون کون لوگ یاد آتے ہیں‘ جنہوںنے آپ کی
صلاحیتوں کو مہمیز کیا۔“ ابن آس نے بغیر کسی توقف کے ان لوگوں کے نام لیتے
ہوئے کہا۔
” میں آج جس مقام پر ہوں‘ اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت‘ ماں کی دعاؤں کے
علاوہ حنیف سحر‘ محمود شام‘ نعیم حبیب‘ رفیق افغان‘ عامر محمود‘ سید عاطف
حسین‘ عظیم احمد‘ غضنفر علی کے علاوہ شوبز کے جرنلسٹ دوستوں کا بہت بڑا
ہاتھ ہے۔ ان کے احسانا ت کو نظر انداز کرنا میرے لئے مشکل ہی نہیں‘ نا ممکن
بھی ہے۔ یہ سب میرے استاد بھی ہیں‘ دوست بھی اور گاڈ فادر بھی‘ ان لوگوں نے
مجھ پتھر کو تراش خراش کر ابن آس بنادیا۔ میری ساری خوبیاں ان لوگوں کی
مرہون منت ہیں اور ساری خامیاں‘ برائیاں میری اپنی ہیں۔“
جدوجہد کی داستان سننے کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آج کہ زندگی اور پچھلی
زندگی میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے۔“ انہوںنے سہولت سے کہا۔
” بھئی اس کا جواب یہ ہے کہ پچھلی زندگی میں میری بیوی نہیں تھی اب ہے‘ بس
یہی فرق ہے اور میں بتاؤں کہ دنیا کے کسی موضوع پر ہماری رائے ایک نہیں
ہوتی۔ فطری زندگی میں ٹکراؤ بہت ضرور ی ہے۔ ازدواجی زندگی میں اختلاف رائے
ہی اس رشتے کا حسن ہے ۔ ویسے میری آئیڈیل لائف ہے جو چاہئے تھا وہ مل گیا
ہے۔“
اب میں نے آخری سوال ان کے سامنے رکھا ” آگے کہاں تک جانا چاہتے ہیں۔“
” جہاں تک زندگی لے جائے گی۔ طنابیں چھوڑ دیتا ہوں۔ ایک پلاننگ آپ کرتے
ہیں۔ ایک قدرت کرتی ہے۔ آپ خواب دیکھیں اور محنت کریں، مطمئن ہونا سیکھیں۔
میں پہلے بھی مطمئن تھا۔ آج بھی مطمئن ہوں۔“ |