اعلٰی حضرت عظیم البرکت قدس سرہ
ان ہستیوں میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالٰی نے فرمایا !
افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علٰی نور من ربہ
یہ شرح صدر ہی تو تھا کہ قلیل عرصہ میں جملہ علوم و فنون سے فراغت پالی
ورنہ عقل کب باور کر سکتی ہے کہ چودہ سال کی عمر میں علوم و فنون ازبر ہوں
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
( یہ سعادت بزور بازو نہیں ملتی جب تک کہ بخشنے والا خداوند تعالٰی نہ عطا
کرے )
اور یہ علوم و فنون صرف ازبر نہ تھے بلکہ ہر فن پر مبسوط تصانیف موجود ہیں
اور وہ بھی کسی سے مستعار نہیں بلکہ قلم رضوی کے اپنے آب دار موتی ہیں اور
تحقیق کے ایسے بہتے ہوئے بحر ذخار کو دیکھ کر بڑے بڑے محققین انگشت بدنداں
ہو جاتے ہیں۔ آپ کو قلم کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔
تجربہ اور شواہد بتاتے ہیں کہ جس بندہ خدا کو جس فن کی مہارت نصیب ہو وہ
دوسرے فن میں ہزاورں ٹھوکریں کھاتا ہے مثلاً امام بخاری قدس سرہ کو دیکھیئے
کہ دنیائے اسلام نے فن حدیث کا انہیں ایسا امام مانا ہے کہ جس کی نظیر نہیں
ملتی لیکن فقہاء کے کے استنباط اور تاریخی حیثیت سے آپ کو وہ مرتبہ حاصل
نہیں جو فن حدیث میں ہے لیکن اعلٰٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی یہ خصوصیت
ہے کہ فن کے ماہرین نے مانا ہے کہ آپ ہر فن میں مہارت تامہ رکھتے ہیں چناچہ
شاعروں نے آپ کو امام اشعراء سمجھا ، فقہاء نے آپ کو وقت کا ابو حنیفہ مانا،
محدثین نے امیر الحدیث وغیرہ وغیرہ
اس لئے خود اعلٰٰی حضرت قدس سرہ نے اپنے لئے فرمایا اور بجا فرمایا ۔
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
اس وقت فقیر کا موضوع سخن فن تفسیر ہے واضح کروں گا کہ آپ اس فن کے بھی
مسلم امام ہیں اگرچہ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے پورے قرآن پاک کی کوئی تفسیر
نہیں لکھی لیکن حق یہ ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے
تفسیری عبارات جمع کئے جائیں تو ایک مبسوط تفسیر معرض وجود میں آ سکتی ہے
چنانچہ فقیر اویسی غفر لہ نے اس کام کا آغاز کر رکھا ہے اللہ تعالٰی اس کے
اہتمام کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
شرائط فن تفسیر
امام جلال الملۃ والدین حضرت علامہ سیوطی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے اتقان
میں لکھا ہے کہ مفسّر اس وقت تفسیر قرآن لکھنے اور بیان کرنے کا حق رکھتا
ہے جب چودہ فنون کی مہارت حاصل کر لے ۔ ورنہ تفسیر نہیں تحریف قرآن کا
مرتکب ہو گا ۔
اس قاعدہ پر اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ، نہ صرف ان چودہ فنون کے ماہر
ہیں بلکہ پچاس فنون پر کامل دسترس رکھتے ہیں بلکہ بعض فنون پرآپ کی درجنوں
تصانیف ہیں ، یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ کو مستقل طور پر تفسیر لکھنے کا موقعہ
نہیں ملا لیکن آپ کی تصانیف سے قرآنی ابحاث کی ایک ضخیم تفسیر تیار ہو سکتی
ہے اور فقیر اویسی نے اس کے اکثر اجزاء کو جمع کیا ہوا ہے بنام تفسیر امام
احمد رضا ،، خدا کرے کوئی بندہ اس کی اشاعت کیلئے کمر بستہ ہو جائے ۔ (آمین)
علاوہ ازیں تفاسیر پر آپ کی عربی حواشی کے اسماء ملتے ہیں مثلاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔الزلال الانقی من بحر سفینۃ اتقی
2۔۔۔حاشیہ تفسیر بیضاوی شریف
3۔۔۔حاشیہ عنایت القاضی شرح تفسیر بیضاوی
4۔۔۔حاشیہ معالم التنزیل
5۔۔۔حاشیہ الاتقان فی علوم القرآن سیوطی
6۔۔۔حاشیہ الدر المنثور (سیوطی)
7۔۔۔حاشیہ تفسیر خازن
علاوہ ازیں بعض آیات اور سورتوں پر آپ کی متعدد تصانیف موضوع تفسیر پر ملتی
ہیں جنہیں ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے جمع فرمایا
ہے چند ایک کے اسماء درج ہیں !
8۔۔۔انوار العلم فی معنٰٰی میعارواستجب لکم فارسی زبان میں ہے 1327ء تک غیر
مطبوع تھی اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے تحقییق فرمائی ہے کہ
اجابت دعا کے کیا کیا معنٰی ہے ۔ اثر ظاہر نہ ہونا دیکھ کر بے دل ہونا
حماقت ہے ۔
9۔۔۔االصصام علی مشک فی آیۃ علوم الارحام اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی
قدس سرہ نے پادریوں کا رد فرمایا ہے اردو زبان میں طبع شدہ موجود ہے ۔
10۔۔۔انباء الحی ان کتاب المصون تبیان لکل شئی عربی ،اردو زبان میں ہے اس
میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے ثابت فرمایا ہے کہ قرآن مجید اشیائے
عالم کی ہر چیز کا مفصل بیان ہے ۔
11۔۔۔النفحۃ الفائحہ من مسلک سورۃ الفاتحہ اردو زبان میں ہے اس میں اعلٰی
حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے سورۃ فاتحہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے فضائل کو ثابت فرمایا ہے ۔
12۔۔۔نائل الراح فی فرق الریح والریاح فارسی زبان میں ہے۔
مذکورہ رسائل صرف تفسیر سے متعلق ہیں ۔ بعض اوقات کسی مسئلہ کے متعلق
استفسار پر آپ نے تفسیری نقطہ نگاہ سے حل فرمایا
دراصل آپ کو عالم دنیا سے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے فتاوٰی کے جوابات سے
فرصت کم ملی ورنہ اگر اس طرف توجّہ دیتے تو تفسیر کا ایک جز ہزاروں صفحات
پر پھیلتا۔ صرف بسم اللہ شریف کی تقریر پر مختصر سے وقت میں آپ کا ایک طویل
مضمون موجود ہے جو آپ نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع
پر بریلی شریف میں بیان فرمایا تھا جو سوانح اعلٰی حضرت میں صفحہ 98 سے
شروع ہو کر صفحہ 112 تک ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح پھر دوسرا وعظ صفحہ 112 سے
شروع ہو کر صفحہ 131 تک ختم ہوا یہ بھی تقریر کے رنگ میں ہوا جو تحریر کے
میدان میں کوسوں دور سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اتنے صفحات کا مضمون
بیان کر جانا کسی مرد میدان کا کام ہے اور وہ بھی مفسّرانہ رنگ میں اور پھر
تفسیر سورہ والضحٰی لکھی تو سینکڑوں صفحات پھیلا دئیے ۔ جس کی ایک ایک سطر
کئی تفاسیر کے مجموعے کو دامن میں لئے ہوئے ہے ۔
آپ کے تلامذہ کو رشک ہوگا کہ ایسے بحر بے پایاں کے قلم سے جس طرح فقہ اور
حدیث اور دیگر فنون کے دریا بہائے گئے ہیں کچھ تفسیری نوٹ بھی آپ کی یادگار
ہوں تو زہے قسمت اگر چہ اجمالی طور پر ہی سہی ، چناچہ صدر الشریعۃ حضرت
مولانا حکیم امجد علی صاحب مصنف بہار شریعت قدس سرہ کو اللہ تعالٰٰی اپنی
خاص رحمتوں سے نوازے ،انہوں نے اہلسنت پر احسان عظیم فرمایا کہ اعلٰٰی حضرت
قدس سرہ کی عدیم الفرصتی کے باوجود قرآن مجید کا ترجمہ لکھوا ہی لیا چناچہ
سوانح نگار حضرات قرآن مجید کے ترجمے کے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ صدر
الشریعۃ حضرت مولانا حکیم امجد علی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ترجمہ قرآن کی
ضرورت پیش کرتے ہوئے اعلٰٰی حضرت سے گزارش کی آپ نے وعدہ تو فرمالیا لیکن
دوسرے مشاغل دینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی ، جب حضرت صدر
الشریعۃ کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلٰٰی حضرت نے فرمایا
چوں کہ ترجمے کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے آپ رات کو سونے کے
وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت کے وقت آجایا کریں ۔ چنانچہ حضرت صدر الشریعۃ
ایک دن قلم و دوات لے کر حاضر ہو گئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہوگیا۔
ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلٰی حضرت زبانی طور پر ترجمہ آیۃ کریمہ کا
فرماتے جاتے اور حضرت صدر الشریعۃ لکھتے جاتے لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں
تھا کہ آپ پہلے کتب تفسیر و حدیث و لغت کو ملاحظہ فرماتے اور آیات کو سوچتے
پھر ترجمہ بیان فرماتے قرآن مجید کافی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر
اس طرح بولتے جاتے تھے جیسے کوئی پختہ یاداشت یاداشت کا حافظ اپنی قوّت
حافظ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف پڑھتا چلا جاتا ہے۔ علمائے کرام جب دوسری
تفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلٰی حضرت کا یہ
برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر معتبرہ کے بالکل عین مطابق ہے ،الغرض اسی
قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہا پھر وہ مباراک ساعت بھی آئی کہ قرآن
مجید کا ترجمہ ختم ہو گیا اور حضرت صدر الشریعت کی کوشش بلیغ کی بدولت
سنّیت کو کنز الایمان کی دولت عظمٰی نصیب ہوئی۔ ( فجزاء اللہ تعالٰی عنا و
عن جمیع اہل السنۃ جزاء کثیرا و اجرا جزیلا )
حضرت محمد کچھوچھوی سیّد محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ
اعلٰی حضرت کے علم قرآن کا اندازہ اس اردو ترجمہ سے کیجیئے جو اکثر گھروں
میں موجود ہے اور جس کو کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے نہ فارسی میں
ہے اور نہ اردو میں اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا
لفظ اس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو یہ بظاہر ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن
مجید کی تفسیر ہے اور اردو زبان میں روح قرآن ہے بلکہ فقیر اویسی کا ذوق
یوں گواہی دیتا ہے ۔
ہست قرآن بزبان اردوی
ہمچوں مثنوی بزبان پہلوی
اس ترجمہ کی شرح میں حضرت صدر الافاضل استاذ العلماء مولانا نعیم الدین
علیہ الرحمۃ حاشیہ پر فرماتے ہیں کہ دوران شرح میں ایسا کئی بار ہوا کہ
اعلٰی حضرت کے استعمال کردہ لفظ کے مقام استنباط کی تلاش میں دن پر دن گذرے
اور رات پر رات کٹتی رہی اور بالآخر ماخذ ملا تو ترجمہ کا لفظ اٹل ہی نکلا
اعلٰی حضرت خود حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالٰی کے فارسی ترجمہ کو سراہا
کرتے تھے ۔ لیکن اگر حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اردوزبان کے اس
ترجمے کو پاتے تو فرماہی دیتے کہ
ترجمہ قرآن شئی دیگر است و علم القرآن شئی دیگر ست
۔۔۔۔۔۔۔۔علمائے دیوبند نہ صرف حریف بلکہ وہ آپ کو ہر معاملے میں ترچھی نگاہ
سے دیکھتے تھے لیکن وہ بھی اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ واقعی اعلٰی حضرت
کا قرآن مجید کا ترجمہ بالکل صحیح اور درست ہے ۔
اور آپ کے ترجمے کے مقابلے میں موجود دور کے تمام اردو تراجم کو دیکھا جائے
تو ان میں سینکڑوں غلطیاں ہیں اس لئے محققین نے اس کو دیکھ کر ذیل کی آرا
قائم فرمائی ہیں ۔
1۔ ۔ ۔ ترجمہ اعلٰی حضرت تفاسیر معتبرہ قدیمہ کے مطابق ہے ۔
2۔ ۔ ۔ اپنی تفویض کے مسلک اسلم کا عکس ہے ۔
3۔ ۔ ۔ اصحاب تاویل کے مذہب سالم کا موید ہے ۔
4۔ ۔ ۔ زبان کی روانی اور سلامت میں بے مثل ہے ۔
5۔ ۔ ۔عوامی لغات و بازاری زبان سے یکسر پاک ہے ۔
6۔ ۔ ۔ قرآن پاک کے اصل منشاء مراد کو بتایا ہے ۔
7۔ ۔ ۔ آیات ربّانی کے انداز خطاب کو پہنچا ہے ۔
8۔ ۔ ۔ قرآن کے مخصوص محاوروں کی نشاندہی کرتا ہے ۔
9۔ ۔ ۔ قادر مطلق کی روائے عزت و جلال میں نقص و عیب کا دھبہ لگانے والوں
کیلئے تیغ بران ہے ۔
10۔ ۔ ۔حضرات انبیاء علیہم السلام کی عظمت و حرمت کا محافظ و نگہبان ہے ۔
11۔ ۔ ۔ عام مسلمین کیلئے بامحاورہ اردو میں سادہ ترجمہ ہے ۔
12۔ ۔ ۔ لیکن علماء کرام و مشائخ عظام کیلئے معرفت کا امنڈتا ہوا سمندر ہے
۔
بس اتنا ہی سمجھ لیجئے کہ قرآن حکیم قادر مطلق جل جلالہ کا مقدس کلام ہے
اور کنزالایمان اس کا مہذب ترجمان ہے ۔
فقیر نے جہاں بھی آپ کی تصانیف میں تحقیق مفسرانہ دیکھی تو رازی و غزالی
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما کے قلم سے آفرین و تحسین سنی اختصار کے پیش نظر
چند ایک نظائر مشتے نمونہ خر وار ملاحظہ ہوں جو آپ کی تصنیف سے اخذ کئے گئے
ہیں ۔
پیشانی کا داغ
سائل نے صرف اتنا استفسار کیا کہ بعض نمازیوں کو بہ کثرت نماز کے نام یا
پیشانی پر جو سیاہ داغ ہو جاتا ہے اس سے نمازی کو قبر و حشر میں خداوند
کریم جل جلالہ کی پاک رحمت کا حصہ ملتا ہے یا نہیں اور زید کا کہنا یہ ہوتا
ہے کہ جس شخص کے دل میں بغض کا سیاہ داغ ہوتا ہے اس کی شامت اس کی ناک یا
پیشانی پر کالا داغ ہوتا ہے ، یہ قول زید کا باطل ہے یا نہیں اس کے جواب
میں اعلٰی حضرت قدس سرہ کے قلم کو جنبش آئی تو چھ صفحات مفسرانہ حیثیت سے
لکھے اور ثابت فرمایا کہ اس نشانی کے متعلق چار قول ماثور ہیں اور ہر ایک
کا حکم جدا جدا اور آیت سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود کا ایسا مفہوم ادا
فرمایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان اوہام کا ازالہ فرمایا جو
پیشانی کے داغ کو سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود میں سمجھتے ہیں ۔
یہ مضمون سوانح احمد رضا میں چند صفحات پر پھیلا ہوا ہے جو نہایت قابل
مطالعہ ہے اور تمام تحقیق تفاسیر معتبرہ کے حوالہ جات سے مزین ہے ۔
آیت میثاق
واذ اخذ اللہ میثاق النبیین الخ سے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
فضیلت مطلقہ پر گفتگو فرماتے ہوئے آخر میں تحریر فرمایا اقول و باللہ
التوفیق پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس مضمون کو قرآن کریم نے کس قدر مہتمم
بالشان ٹھرایا اور طرح طرح سے موکد فرمایا!
اوّلا۔۔۔۔ انبیاء علیہم السلام معصومین ہیں زنہار حکم الٰہی کے خلاف ان سے
کوئی کام صادر نہیں ہوتا کہ رب تعالٰی بہ طریق امر انہیں فرماتا کہ اگر وہ
نبی تمہارے پاس آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا مگر اس پر اکتفاء
نہ فرمایا بلکہ ان سے عہد و پیمان لیا یہ عہد عہد است بر بکم کا دوسرا
پیمان تھا جیسے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم تاکہ ظاہر ہو کہ تمام ما سوائے اللہ پر پہلا فرض ربوبیّت
الٰہیہ کا اذعان ہے پھر اس کے برابر رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پر ایمان ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وبارک و شرف و بجل وعظم )
ثانیا۔۔۔۔ اس عہد کو لام قسم سے موکد فرمایا لتومنن بہ التنصرنہ جس طرح
نوابوں سے بیعت سلاطین لی جاتی ہے ۔ امام سبکی رحمۃ اللہ تعالٰٰی علیہ
فرماتے ہیں۔
مسئلہ ۔۔۔ بیعت اس آیت سے ماخوذ ہوئی ہے۔
ثالثاً۔۔۔۔ نون تاکید
رابعاً۔۔۔وہ بھی ثقیلہ لا کر ثقل تاکید اور دو بالا فرمایا ۔
خامساً۔۔۔۔یہ کمال اہتمام ملاحظہ کیجیئے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام ابھی
جواب نہ دینے پائیں کہ خود ہی تقدیم فرماکر پوچھتے ہیں اقررتم کیا اس امر
پر اقرار لاتے ہیں یعنی کمال و تعجیل و تسجیل مقصود ہے۔
سادساً۔۔۔ اس قدر پر بھی بس نہ فرمائی بلکہ ارشاد فرمایا واخذتم علٰٰی
ذالکم اصری خالی اقرار ہی نہیں بلکہ اس پر میرا بھاری ذمّہ لو۔
سابعاً۔۔۔ علیہ یا علی ھذا کی جگہ علٰی ذالکم فرمایا کہ بعد اشارت عظمت ہو۔
ثامناً۔۔۔۔ اور ترقی ہوئی کہ فاشھدوا ایک دوسرے پر گواہ ہو جائے۔ حالانکہ
معاذ اللہ اقرار کر کے مکر جانا ان پاک مقدّس جنابوں سے معقول نہ تھا ۔
تاسعاً۔۔۔۔کمال یہ ہے کہ صرف ان کی گواہی پر اکتفاء نہ ہوا بلکہ فرمایا انا
معکم من الشاھدین میں خود بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
ّعاشراً۔۔۔۔سب سے زیادہ نہایت کار یہ ہے کہ اس عظیم جلیل تاکیدوں کے بعد
بآنکہ انبیاء علیہم السلام کو عصمت عطا فرمائی یہ سخت شدید تہدید بھی
فرمادی گئی کہ فمن تولٰی بعد ذالک فاولئک ھم الفٰسقون اب جو اس اقرار سے
پھرے گا فاسق ٹھہرے گا
اللہ اللہ یہ وہی اعتنائے تام و اہتمام تمام ہے جو باری تعالٰٰی کو اپنی
توحید کے بارے میں منظور ہوا کہ ملائکہ معصومین کے حق میں بیان فرماتا ہے
ومن یقل منھم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم کذالک نجزی الظالمین ، جو
ان میں سے کہے گا کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں اس کو جہنم کی سزا دیں گے
ہم ایسے ہی سزا دیتے ہیں ستم گروں کو گویا اشارہ فرماتے ہیں
جس طرح ہمیں ایمان کے جز اول لاالہ الا اللہ کا اہتمام ہے یوں ہی جز دوم
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعتنائے تام ہے کہ میں تمام
جہانوں کا خدا کہ ملائکہ مقربین بھی میری بندگی سے سر نہیں پھیر سکتے اور
میرا محبوب سارے عالم کا رسول ومقتداء کہ انبیائے مرسلین بھی اس کی بیعت و
خدمت کے محیط دائرہ میں داخل ہوئے اور اس سے قبل اس آیۃ کا تبصرہ کئی صفحات
پر فرمایا تبصرہ کر کے پھر معتبرہ تفاسیر اور محققین علمائے کرام کی تصانیف
کے خلاصہ کو دریا کوزہ کی مثالی قائم فرمائی ۔ |