سلطان العارفین، برہان العاشقین،
سید الطائفہ، غوث زمان حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ العزیز
تیرھویں صدی ہجری کے بڑے برگزیدہ اورجلیل القدر بزرگ تھے۔ آپ رحمة اللہ
تعالی علیہ نے برصغیر ہند و پاک کے شمالی کونے میں جو مرکز رشد وہدایت قائم
کیا اس کی کرنیں ہند و پاکستان کے گوشے گوشے میں پہنچیں۔ پنجاب، سندھ،سرحد،
دہلی،لکھنو ،دکن کے علاوہ افغانستان ،ایران، عربستان تک سے لوگ آپ کی خدمت
میں حاضر ہوئے اور ہدایت کا چراغ بن کرواپس لوٹے۔
آپ رحمة اللہ تعالی علیہ چشتیہ نظامیہ سلسلہ کے آخری عظیم الشان برزگ تھے،
جن کے فیوض وبرکات اور جن کی مقبولیت عامہ نے مشائخ متقدمین حضرت خواجہ قطب
الدین بختیار کاکی رحمة اللہ تعالی علیہ ، شیخ کبیر رحمة اللہ تعالی علیہ
فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ تعالی علیہ اور سلطان مشائخ خواجہ نظام الدین
اولیاء دہلوی رحمة اللہ تعالی علیہ کی یاد تازہ کردی اور ان کی خانقاہوں کا
مکمل نمونہ پیش کردیا۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے علمی تبحر، زہد و تقدس
اور روحانیت وللہیت سے اتنی دنیافیض یاب ہوئی اور اتنے لوگوں کی اخلاقی
اصلاح ہوئی جس کا شمار کرنا مشکل ہے۔
خواجہ محمد سلیمان تونسوی رحمة اللہ تعالی علیہ نے جس وقت شمالی ہندوستان
میں مسند ارشاد بچھائی اس وقت مغلیہ حکومت دم توڑ چکی تھی، پنجاب پرسکھوں
کا تسلط تھا اور انگریزی حکومت اپنے قدم جمارہی تھی، مسلمان معاشرہ پر ایک
یاس و افسردگی کا عالم طاری تھا۔ حضرت خواجہ تونسوی رحمة اللہ تعالی علیہ
نے مسلمانوں کی دم توڑتی ہوئی سوسائٹی کو سہارا دینے کیلئے توکلاً علی اﷲ
،شریعت اسلامی کے احیا کے لئے سرتوڑ کوشش کی۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے
تونسہ شریف میں اپنے پاس جید علماء کی ایک جماعت جمع کر کے ہزاروں مسلمانون
کو علوم دینیہ کی انتہائی تعلیم دینے اور اس طرح اشاعت دین کا سامان پیدا
کرنے کا اہم کام سرانجام دیا۔
پیدائش و تربیت
حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان رحمة اللہ تعالی علیہ کی ولادت ۱۱۸۴ھ ۱۷۷۰ء میں
گڑگوجی کے مقام پر ہوئی۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی ولادت سے قبل بعض اہل
کشف بزرگوں نے آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے والدین کو آپ رحمة اللہ تعالی
علیہ کے متعلق بشارات دیں۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے والد ماجد کا اسم
گرامی زکریا رحمة اللہ تعالی علیہ ہے۔گڑگوجی ضلع لورالائی (بلوچستان) میں
ہے اور تونسہ شریف سے شمال مغرب کی جانب تیس کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔
خواجہ محمد سلیمان رحمة اللہ تعالی علیہ کے والد ماجد کا انتقال آپ رحمة
اللہ تعالی علیہ کے بچپن میں ہو گیا تھا اورآپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے ایک
بڑے بھائی یوسف بھی عین عنفوان شباب میں اﷲ کو پیارے ہو گئے تھے ،آپ رحمة
اللہ تعالی علیہ کی چار بہنیں تھیں۔ جب آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی عمر چار
برس کی ہوئی تو والدہ ماجدہ نے آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کو قرآن مجید کی
تعلیم کے لئے ملا یوسف جعفر رحمة اللہ تعالی علیہ کے سپرد کر دیا۔ آپ رحمة
اللہ تعالی علیہ نے پندرہ پارے ان کے پاس رہ کر حفظ کئے۔ اس کے بعد جعفر
قوم کے ایک حاجی صاحب کے پاس چند پارے پڑھے۔ پھر تونسہ شریف میں میاں حسن
علی رحمة اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں آگئے اور تونسہ کی ’’بگی مسجد‘‘ میں
مقیم رہ کر پورا قرآن مجید حفظ کیا اور فارسی نظم ونثر کی ابتدائی کتابیں
بھی انہی میاں حسن علی صاحب رحمة اللہ تعالی علیہ سے پڑھیں۔ کچھ عرصہ بعد
لانگھ پہنچے۔ یہ مقام تونسہ سے پانچ کوس مشرق کی جانب دریائے سندھ کے کنارے
واقع تھا۔ وہاںآپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے مولوی ولی محمدصاحب رحمة اللہ
تعالی علیہ سے فارسی و عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ لانگھ سے کوٹ مٹھن
چلے گئے وہاں قاضی محمد عاقل رحمة اللہ تعالی علیہ اور ان کے صاحبزادے قاضی
احمد علی صاحب رحمة اللہ تعالی علیہ نے ایک دارالعلوم قائم کر رکھا تھا
جہاں علوم دینیہ کی انتہائی تعلیم دی جاتی تھی اس مدرسہ میں آپ نے نحو،منطق
و فلسفہ کی کتابیں پڑھیں اورفقہ پر عبور حاصل کیا۔
تمام تذکرہ نویسوں نے یہ روایت لکھی ہے کہ حضرت مولانا خواجہ فخرالدین
دہلوی رحمة اللہ تعالی علیہ نے اپنے خلیفہ اعظم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی
رحمة اللہ تعالی علیہ کو فرمایا تھا کہ کوہ سلیمان کی بلند چوٹیوں پر ایک
بلند پروازشاہباز ہے ا گر اس کو قید میں لاکر سدھا دیا گیا تو اس کی پرواز
سدرۃ المنتہی تک ہو گی اور وہ ملک سلیمان کا وارث ہو گا جس سے ہمارے سلسلہ
چشتیہ نظامیہ کی بڑی اشاعت ہو گی اور چندعلامات بھی بتلا دی تھیں۔ چنانچہ
حضرت قبلہ عالم مہاروی رحمة اللہ تعالی علیہ ہمیشہ اس شاہباز کی تلاش میں
اوچ شریف اور کوٹ مٹھن وغیرہ کی طرف سفر فرمایا کرتے تھے۔ ادھر شکارکا یہ
حال تھا کہ افغانی خون آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی رگوں میں ابل رہا تھا
اورجوش جوانی کے ساتھ دینی غیرت اور ایمانی جرأت کایہ حال تھا کہ جہاں کہیں
کوئی خلاف شریعت کام دیکھتے امر معروف کے لئے چلے جاتے۔
اسی عرصہ میں ایک روز قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاروی رحمة اللہ تعالی
علیہ کے مقام اوچ شریف پر تشریف فرما ہوئے۔ قاضی محمد عاقل صاحب رحمة اللہ
تعالی علیہ اور سب طلباء وفقرا آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی زیارت کے لئے
اوچ روانہ ہوئے ۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے سن رکھا تھا کہ قبلۂ عالم
سماع، سنتے ہیں اورا ن کے بعض مریدین وجد کی حالت میں رقص کرتے ہیں۔ آپ
رحمة اللہ تعالی علیہ کو یہ بات ناپسند تھی (انہیں یہ گمان گزرا کہ شاید
سماع مزامیر کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ آپ علیہ الرحمة جملہ شرائط و آداب مشایخ
کے ساتھ مجلس سماع سنتے تھے)۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے یہ موقع غنیمت
جانا اور امر معروف کے ارادہ سے اوچ شریف روانہ ہوئے مگر قدرت الہٰی اپنا
فیصلہ کچھ اور رقم کر چکی تھی اور جہاں امر معروف کرنے چلے تھے وہاں کے
غلام بے دام بن کے آگئے۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے اپنے پیرزادہ حضرت نور
احمد صاحب رحمة اللہ تعالی علیہ کو اپنی بیعت کا واقعہ سناتے ہوئے اس
ملاقات وبیعت کی تفصیل یوں بیان فرمائی:
’’جب ہم وہاں (اوچ) پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کے ایک گروہ کے بیچ میں ایک
بزرگ نہایت سادہ لباس میں مجلس آرا ہیں۔ ان کی سادگی دیکھ کر میرا یقین بڑھ
گیا۔ تین روز ہم ان کی خدمت میں رہے، مگر مجھے اپنا کام کرنے کی جرأت نہ
ہوئی۔ میں دیکھتا رہا کہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ بارہا میری طرف گھور گھور
کر دیکھتے اور قاضی صاحب رحمة اللہ تعالی علیہ سے میرے متعلق کچھ پوچھتے
ہیں۔ قاضی صاحب رحمة اللہ تعالی علیہ کو میرے ارادہ کا علم تھا۔ انہوں نے
بتایا کہ یہ فقیر آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں امر معروف کی نیت سے
حاضر ہوا ہے۔ یہ سن کر آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے فرمایا’’اچھا! بڑا عالی
ہمت اور بلند ارادہ شخص معلوم ہوتا ہے‘‘سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا،
آخری روز میں نے بڑی حسرت کے ساتھ اپنے ساتھی سے کہا کہ افسوس ہم اپنا کام
نہ کر سکے اوراب جارہے ہیں۔ چلو سلام کر کے رخصت ہولیں۔ میں نے سلام کے لئے
ہاتھ بڑھایا۔ ابھی میں چند قدم پیچھے تھا کہ فوراً حضرت نے آگے بڑھ کر میرا
ہاتھ پکڑ لیا۔ نہیں معلوم کیاتھا کہ لرزہ میرے جسم پر اور بے حسی میری روح
پرغالب آئی۔ چھری میرے ہاتھ میں سے گرپڑی جو میرے ساتھی نے اٹھالی۔ آپ رحمة
اللہ تعالی علیہ دیر تک میرے دائیں ہاتھ کو پکڑے رہے یہاں تک کہ جو آتا اسے
دوسرے ہاتھ سے رخصت کرتے۔ اسی حالت میں چل دیے اورایسے تیز چلے کہ میرے قدم
اکھڑے جاتے تھے یہاں تک کہ میرے ایک پاؤں سے جوتا نکل گیا۔ اسی صورت میں
مجھے آپ سید جلال الدین بخاری رحمة اللہ تعالی علیہ کے روضۂ منورہ میں لے
گئے اور مزار کے سرہانے ٹھہرا دیا۔ میرا دل اڑ گیا جی میں آیاخدا کرے میرا
ہاتھ کبھی نہ چھوڑیں۔ اپنے دونوں ہاتھ میرے ہاتھ سمیت مزارپر رکھ کر کافی
دیر چپ چاپ کھڑے رہے۔ پھرفاتحہ پڑھ کر دروازہ پر تشریف لائے۔ لوگوں کو روضۂ
سے باہر نکال کر بائیں ہاتھ سے دروازہ اندر سے بند کر کے بیٹھ گئے اور مجھے
بھی بٹھا دیا مگر ابھی تک میرا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ کچھ کلام خود پڑھی اور
کچھ مجھے پڑھائی اور میرے سینہ پر دم کی اورمیرے دونوں ہاتھ سینہ پرملے اور
پھران کو چھوڑ دیا اور فرمایا اے میاں جہاں علم حاصل کرناچاہے جا اور پڑھ‘‘
اس کے بعد وقفے وقفے سے اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دفعہ
انہوں نے دہلی میں خواجہ فخرالدین دہلوی رحمة اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں
حاضر ی کا حکم دیا۔
اس وقت آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی عمر سولہ برس کی تھی۔ چنانچہ آپ رحمة
اللہ تعالی علیہ زاد سفر کے بغیر سخت گرمی میں دہلی کے سفر پرروانہ ہوئے۔
اوچ،بہاولپور، دلاور، جودھپور،اجمیر شریف ،جے پور اور ریواڑی سے ہوتے ہوئے
دہلی پہنچے۔یہ ۱۱۹۹ھ ۱۷۸۴ء کی بات ہے۔ عشق و محبت کا یہ متوالا، ریگستان کا
طویل اور کٹھن سفر طے کر نے کے بعد جب دہلی پہنچا تو معلوم ہوا کہ دورروز
قبل حضرت مولانا خواجہ فخرالدین رحمة اللہ تعالی علیہ کا انتقال ہو گیا
ہے۔آپ رحمة اللہ تعالی علیہ حضرت کے مدرسہ میں ٹھہرے اور چالیس روز تک حضرت
کے مزار پر معتکف رہ کر روحانی فیوض حاصل کئے۔پھر واپس مہار تشریف لائے۔
مہار شریف پہنچ کر قبلۂ عالم کے حکم کے مطابق حافظ خدابخش رحمة اللہ تعالی
علیہ کی مسجد میں مقیم ہو کر ریاضت وعبادت میں مشغول ہوگئے آپ رحمة اللہ
تعالی علیہ رات دن ذکر پاس انفاس اور وقوف قلبی میں مصروف رہتے۔ صرف مجلس
کے اوقات میں حضرت قبلۂ عالم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضرت سے تصوف کی
کتابوں کا سبق پڑھتے ۔ مندرجہ ذیل کتابیں آپ نے حضرت قبلۂ عالم سے پڑھیں۔
۱۔ آداب الطالبین مصنفہ شیخ محمد گجراتی رحمة اللہ تعالی علیہ،
۲۔ فقرات خواجہ عبیداﷲ احرار رحمة اللہ تعالی علیہ،
۳۔لوائح جامی رحمة اللہ تعالی علیہ،
۴۔ عشرہ کاملہ و کشکول وغیرہ،
۵۔ فصوص الحکم مصنفہ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمة اللہ تعالی
علیہ۔
ریاضت شاقہ اور ذکر الہٰی کی وجہ سے آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کا دل عشق حق
تعالیٰ میں بھونا گیا اور آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کو محبت ذاتیہ کا مرتبہ
نصیب ہوا۔ حالات عشقیہ اور کیفیات وجد کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جا
سکتا ہے۔
ایک مرتبہ مہار شریف میں نواب غازی الدین خان کے مکان پر جملہ شرائط وآداب
مشایخ کے ساتھ مجلس سماع ہو رہی تھی۔ حضرت قبلۂ عالم خواجہ نور محمد رحمة
اللہ تعالی علیہ بھی موجود تھے۔ قوال مولانا جامی رحمة اللہ تعالی علیہ کی
غزل پڑھ رہے تھے جب یہ شعر پڑھا:
از مدرسہ بہ کعبہ روم یا بہ میکدہ
اے پیر رہ بگو کہ طریق صواب چیست
آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کو ایسا وجد ہوا کہ دونوں آنکھوں سے خون کے
آنسوجاری ہو گئے کچھ دیر بعد آپ رحمة اللہ تعالی علیہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
حضرت قبلۂ عالم رحمة اللہ تعالی علیہ نے سماع بند کرادیا اوراپنی چادر
مبارک آپِ رحمة اللہ تعالی علیہ کے اوپر ڈال دی اور آپ رحمة اللہ تعالی
علیہ کو اٹھوا کر اپنے حجرہ میں لے گئے۔ حضرت میاں نور محمد صاحب رحمة اللہ
تعالی علیہ نارووالہ اور قاضی محمد عاقل صاحب رحمة اللہ تعالی علیہ نے
فرمایا کہ یہ پٹھان بہت خوش نصیب ہے۔ ایک ہی دفعہ پرواز کر کے تجلی ذاتی کے
مقام تک پہنچ گیا ہے۔ ظہر کی اذان کے ساتھ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کو ہوش
آگیا۔ قبلۂ عالم کی چادر کو پہچانا اور سر پر رکھ کر مسجد کو چلے گئے۔
قیام تونسہ شریف
تونسہ شریف میں مقیم ہو کرآپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے اپنے مشایخ سلسلہ کی
طرح وسیع پیمانہ پر درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ آہستہ آہستہ بہت سے بلند
پایہ علماء آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی خانقاہ میں آکر مستقل طور پر آباد
ہو گئے اور ہزاروں طلبہ ان سے دینی علوم حاصل کرنے لگے۔ آپ رحمة اللہ تعالی
علیہ خود بھی تصوف کی بعض کتابیں احیاء العلوم ، عوارف المعارف ،فتوحات
مکیہ وغیرہ اپنے مخصوص مریدین وخلفا کو پڑھاتے تھے۔ آپ رحمة اللہ تعالی
علیہ کی خانقاہ میں تقریباً پچاس استاد تھے اور ہر ایک استاد کا الگ الگ
حلقہ تھا،جہاں منطق و فلسفہ کے علاوہ فقہ، حدیث، تفسیر کی تعلیم دی جاتی
تھی اورعلماء اور طلبا کے سب اخراجات آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے لنگر سے
پورے ہوتے تھے۔ اس طرح گویا کہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے تونسہ شریف میں
ایک دارالعلوم قائم کر دیا جس کے آپ رحمة اللہ تعالی علیہ خود سرپرست تھے۔
جہاں ان تمام علماء وطلبا کی اخلاقی تربیت بھی کی جاتی اس لحاظ سے یہ مدارس
اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔
اولیاء اﷲ کی کرامات حق ہیں،جیسا کہ اہلسنت والجماعت کی تمام کتابوں
میںتصریح ہے اور تواتر اور تسلسل کے ساتھ اولیاء کاملین سے ظاہر ہوتی چلی
آئی ہیں۔ حضرت خواجہ تونسوی رحمة اللہ تعالی علیہ سے بھی رات دن کشف و
کرامات اور خرق عادات کا ظہور ہوتا رہتا تھا۔
نواب اسد خان والئی سنگھڑ کے ظلم و تعدی سے لوگ تنگ آگئے ، تو آپ رحمة اللہ
تعالی علیہ کی خدمت میں شکایت کی آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے اسے بلا
کرفرمایا: تمہاری حکومت میں ہمیں صرف اتنا فائدہ ہے کہ اذان کی آواز سن
لیتے ہیں، ظلم وستم سے ہاتھ اٹھا ورنہ میں تو سکھوں کی فوج کو یہاں دیکھ
رہا ہوں۔ لیکن نواب مذکورظلم سے بازنہ آیا اور تھوڑے دنوں میں سکھوں کا
لشکر آگیا اور جس ٹیلہ کی طرف آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے اشارہ کیا تھا
وہیں آکر ڈیرہ ڈالا۔ بعد میں جب لوگوں نے اس بارے میں عرض کیا تو
فرمایا:اعمالکم عمالکم تمہارے اعمال ہی تمہارے حاکم ہیں تم نے جب شریعت کی
پابندی چھوڑ دی ہے تو حق تعالیٰ نے تم پرکافروں کو مسلط کر دیا ہے۔
آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کو ہر حال میں اس بات کا خیال رہتا تھا کہ آپ رحمة
اللہ تعالی علیہ کا قدم جادۂ شریعت سے ہٹنے نہ پائے۔ چنانچہ ہر قول و فعل
آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کا شریعت کے مطابق ہوتاتھا۔ آپ رحمة اللہ تعالی
علیہ فرماتے تھے،ہمارا اصلی کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے،
اگر ایک شخص ہوا میں اڑتا ہوانیچے اترآئے لیکن اس کا ایک فعل بھی جادۂ
شریعت سے باہر ہوتو وہ کوئی شے نہیں،ایک دفعہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے
خواب میں دیکھا کہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے دونوں پاؤں قرآن مجید کے
اوپر ہیں، گھبرا کر اٹھے، اور بہت پریشان ہوئے ۔علماء کو بلا کر تعبیر
پوچھی۔ مولانا محمد عابد سوکڑی رحمة اللہ تعالی علیہ نے تعبیر دی کہ خدا نے
آپ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی ظاہری و باطنی متابعت عطا فرمائی
ہے کہ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کے دونوں قدم قرآن مجید کے احکام پر ثابت
ہیں۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے اور سب علماء نے اس تعبیر کو پسند کیا۔
آپ رحمة اللہ تعالی علیہ اپنے مشایخ سلسلہ کی طرح امرا واہل دول سے بہت
اجتناب فرماتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے دولت مندوں کی دوستی دلوںکو مردہ کر
دیتی ہے۔
ایک مرتبہ ڈیرہ غازی خان کے نواب عبدالجبارخان نے درویشوں کے اخراجات کے
لئے جاگیر کی پیش کش کی۔ آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے فرمایا ہم ہرگز جاگیر
نہ لیں گے۔ یہ ہمارے مشایخ کی سنت کے خلاف ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ
صاحبزادہ گل محمد رحمة اللہ تعالی علیہ کے لئے قبول فرمالیں۔ فرمایا گل
محمد رحمة اللہ تعالی علیہ کو بھی اس کی حاجت نہیں۔اگر یہ فقرا کی جوتیاں
سیدھی کرتا رہا تو مقربین اس کی خدمت کریں گے۔تقریباً تریسٹھ برس تک مسند
ارشاد پر بیٹھ کر آپ رحمة اللہ تعالی علیہ نے علماء، صلحا، امراء اور عامۃ
المسلمین کی رہنمائی فرمائی آخری عمر میں آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کو سلسل
البول اور گھنٹوں کے درد کی تکلیف رہنے لگی مگر معمولات میںکوئی فرق نہ آنے
دیا حتیٰ کہ صفر ۱۲۶۷ھ کو سحری کے وقت پاس انفاس کا شغل کرتے ہوئے واصل بحق
ہوئے۔ جنازہ میں اتنی مخلوق نے شرکت کی، جس کا شمار نہیں ہو سکتا تھا۔
چند مشہور خلفاء کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
حضرت صاحبزادہ خواجہ گل محمد رحمة اللہ تعالی علیہ ،
حضرت خواجہ اﷲ بخش تونسوی رحمة اللہ تعالی علیہ ،
مولانا محمد علی مکھڈی رحمة اللہ تعالی علیہ ،
حافظ سید محمد علی خیر آبادی رحمة اللہ تعالی علیہ ،
سید حسن عسکری دہلوی رحمة اللہ تعالی علیہ ،
مولانا شمس الدین سیالوی رحمة اللہ تعالی علیہ ،
مولانا فیض بخش الہی رحمة اللہ تعالی علیہ
نوٹ: اوپر جس سماع کا ذکر ہوا وہ مزامیر سے پاک ہے جیسا کہ سردار سلسلہ
علیہ بہشتیہ حضرت سلطان الاولیا ء شیخ المشائخ محبوب الہی نظام الحق والدین
محمد رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
چندیں چیز می باید تاسماع مباح شود مستمع و مسمع آلہ سماع، مسمع یعنی
گویندہ، مرد تمام باشد کودک نباشد وعورت نباشد ومستمع آنکہ می شنود ازیاد
حق خالی نبا شد ومسموع انچہ بگویند فحش و مسخرگی نباشد وآلہ سماع مزامیر
است چوں چنگ درباب ومثل آں می باید درمیان نباشدایں چنیں سماع حلال است۔
چندچیزیں پائی جائیں تو سماع حلال ہوگا، سنانے والے تمام مرد بالغ ہوں بچے
اور عورت نہ ہوں سننے والے اللہ تعالٰی کی یاد سے خالی نہ ہوں کلام فحش
ومذاق سے خالی ہو اور آلات سماع سرنگی اور طبلہ وغیرہ نہ ہو تو ایسا سماع
حلال ہوگا (ت)
(سیرالاولیاء ، باب نہم ، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان ، اسلام آباد
، ص۰۲۔ ۵۰۱)
حضرت محبوب الٰہی کے ملفوظات کریمہ فوائد الفواد کہ حضرت کے مرید رشید میر
حسن علاسجزی قدس سرہ کے جمع کئے ہوئے ہیں ان میں بھی حضور کا صاف ارشاد
مذکور ہے کہ:مزامیرا حرام ست۔ (فوائد الفواد)
حضور کے خلیفہ حضرت مولانا فخر الدین زراوی قدس سرہ نے حضور کے زمانہ میں
حضور کے حکم سے دربارہ سماع ایک رسالہ عربیہ مسمی بہکشف القناع عن اصول
السماع تالیف فرمایا، اس میں ہے:
اماسماع مشایخنا رضی اﷲ تعالٰی عنہم فبرئ عن ہذ التھمۃ وھو مجرد صوت القوال
مع الاشعارالمشعرۃ من کمال صنعۃ اﷲ تعالٰی
ہمارے مشائخ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سماع اس مزامیر کے بہتان سے پاک
ہے وہ تو صرف قوال کی آواز ہے ان اشعار کے ساتھ جو کمال صنعت الٰہی کی خبر
دیتے ہیں۔ (کشف القناع عن اصول السماع)
مسلمانوں! یہ سچے یا وہ جو اپنی ہوائے نفس کی حمایت کو ان بندگان خدا پر
مزامیر کی تہمت دھرتے ہیں اللہ تعالٰی ہمارے بھائی مسلمانوں کو توفیق
وہدایت بخشے آمین! |