امیر کبیرسیدعلی ہمدانی
(پیرآف اوگالی شریف, Khushab)
امیر کبیر، عارف ربانی ،سید علی
ہمدانی (1384۔-1314ء) سرزمین پاک وہند میں اہل اسلام وغیر مسلمین میں یکساں
مقبول ہیں اور اپنی انسان نوازی کے باعث تمام مذاہب کے ماننے والوں میں
فضیلت وبزرگی کے حامل ہیں ۔ہر دور میں بین المذاہب ہم آہنگی اور بین الملل
یکجہتی کے لئے آپ کے افکاردیگر اولیاء اللہ اور صوفیاء کی مانند نہایت
اہمیت کے حامل ہیں ۔آپ مصنف ،شاعر ،مبلغ اسلام اور مصلح اجتماعی ہیں ۔
سید علی ہمدانی ایران کے نامور عارفین میں سے ہیں ۔آپ تبلیغ دین اور نشر
واشاعت اسلام کے لئے کمر بستہ رہے ۔ ایران کے حکمران طبقہ میں پیدا ہوئے
مگر ظاہری حکومت اور فانی جاہ وحشم ٹھکرا کر علم دین ،روحانیت اور خدمت خلق
کے امور میں مصروف ہو گئے ۔رسمی علوم ،قدیم وجدید ادب ،اخلاقیات ،تدبر ،عرفان
،کلام ،فقہ ،حدیث تفسیر قرآن وحکمت میں دسترس حاصل کی ۔کلام مجید حفظ کیا
اور سیرو سلوک میں ید طولیٰ حاصل کیا ۔آپ کا نام علی تھا اور نام ہی بطور
تخلص استعمال کیا ۔ امیر کبیر ،علی ثانی اور شاہ ہمدان کے نام سے معروف ہیں
۔
رشد وہدایت کے یہ آفتاب جہاں تاب ،جہاں سے گزرے علم وعمل اور تہذیب وفن کی
وہ کہکشائیں چھوڑ گئے جو سات سو سال گزرنے کے بعد بھی انوار وتجلیات برسا
رہی ہیں ۔آپ کی ہمہ جہت وہمہ گیر شخصیت نے انسانیت کے ہر پہلو پہ انمٹ نقوش
چھوڑے ہیں ۔صدیاں گزرنے کے بعد بھی حوادثِزمانہ سید الساجدین کے اس مایہ
ناز فرزند اوراسلام کے بطل جلیل کے آثار مٹانے سے قاصر ہیں ۔
ولادت وبشارت :
12رجب المرجب 714ھ مطابق 22اکتوبر 1314ء بروز پیر پیدا ہوئے ۔صاحب رسالۂ
مستورات آپ کی پیدائش کے متعلق لکھتے ہیں کہ جس رات آپ متولد ہوئے تو شیخ
نظام الدین یحییٰ الغوری خراسانی (متوفی 725ھ)نے دیکھا کہ حضر ت خضر اور
حضرت الیاس علیہم السلام خوبصورت لباس ہاتھوں میں لئے سید شہاب الدین
ہمدانی کے گھر تشریف لائے اور فرمایا ،’’اس رات اس گھر میں جو صاحبزادہ
پیدا ہو گا وہ بلند مرتبہ ہو گا ۔یہ پیراہن بطور تبرک انہیں پہنا دیجئے ‘‘۔
سید علی ہمدانی اپنی جائے ولادت کے متعلق فرماتے ہیں
پرسید عزیزی کہ علی اہل کجائی ؟ گفتم بولایت علی کز ہمدانم
نی زاں ہمدانم کہ ندانند علی ؑ را من زاں ہمدانم کہ علی را ہمہ دانم
میرے عزیزپوچھتے ہیں کہ علی کہاں سے ہیں ؟۔میں کہتا ہوں کہ سلطنت علی
المرتضٰی کا باشندہ ہوں جو ہمدان ہے ۔
اس ہمدان سے نہیں جو علی ناشناس ہے بلکہ میں اس ہمدان سے ہوں جہاں سب علی
شناس ہیں ۔
نسب نامہ شریف:
آپ کا نسب نامہ پندررہ پشتوں بعد سید الساجدین سے ہوتا سیدنا ومولانا علی
مرتضٰی کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے ۔آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے ،
سیدعلی بن سیدشھاب الدین بن سیدمحمد بن سیدعلی بن سیدیوسف بن سیدمحمد بن
سیدمحمد بن سیدجعفربن سیدعبداللہ بن سیدمحمدبن سیدعلی بن سیدحسین بن
سیدناحسین اصغرمحدث بن سیدناامام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین
الشہیدالزکی الرضی السخی
آپ کی والدہ ء معظمہ سیدہ فاطمہ سترہ واسطوں کے بعد سرکار دوعالم کی بارگاہ
میں حاضری دیتی تھیں ۔آپ کی والدۂ معظمہ ساداتِ حسنی طباطبائی تھیں جس باعث
آپ حسنی حسینی سادات عظام میں سے ہیں ۔
خانوادہ :
سید علی ہمدانی کا خانوادہ عرصہ دراز سے انتہائی معزز ومحترم تھا ۔ہمدان کے
سادات علوی ،زمانۂ سلاطین سلاجقہ سے مقتدر صاحب اثر ونفوذ تھے اور ہمدان کی
حکومت میں بیشتر افراد اسی خانوادہ سے تھے۔سادات علویان حسنی اور بعد ازاں
سادات علویان حسینی ہمدان کے حاکم رہے ۔آپ کے والد حاکم ہمدان اور ماموں
سید علاء الدولہ سمنانی وادیء عرفان وترک تعلقات مادی میں آنے سے قبل سمنان
کے فرمانروا رہے ۔
صاحب انساب ثلاثہ :
شیخ علاء الدولہ سمنانی (متوفی 736ھ)فرماتے ہیں ،’’اہلبیت اطہار کے ساتھ
عوام کی مؤدت بعض کی تقلیدی ہے ،بعض کی صلبی ہے ،بعض کی قلبی ہے ،بعض کی
حقیقی ہے اور یہ بیچارہ تحقیق کے ساتھ نسبت صلبیہ ،قلبیہ ،حقیقیہ رکھتا ہے
اور اس پر خدا کا شکر ہے اور ان سب سے بڑھ کر کہ یہ معنی چشم خلق سے مخفی
ہے اور لوگ میرے متعلق اس سے برخلاف رائے رکھتے ہیں ‘‘۔
سید علی ہمدانی بھی اسی طور سے صلبی ،قلبی اور حقیقی مؤدت رکھتے تھے اور
’’صاحب انساب ثلاثہ‘‘معروف ہیں جس کا اظہار آپ کی تصنیف لطیف ’’مؤدۃ فی
القربیٰ ‘‘اور دیگر تصانیف کے ایک ایک جملہ سے ہوتا ہے ۔
والد بزرگوار :
آپ کے والد بزرگوار سید شہاب الدین ،سلطنت تیموری میں ہمدان کے حاکم
وفرمانروا تھے جس کے متعلق شاہ ہمدان لکھتے ہیں ،
’’در امور والد التفات نمیکردم، بداں سبب کہ او حاکم بود در ہمدان وملتفت
بہ سلاطین وامراء ‘‘۔
میں اپنے والد کے امور میں دلچسپی نہیں رکھتا اس باعث کہ وہ ہمدان کے حاکم
تھے اور سلاطین وامراء سے میلان رکھتے تھے ۔
سید شہاب الدین اگرچہ حاکم و دنیا دار تھے مگر فقراودرویشان ،علماء وفضلاء
کے ساتھ انس رکھتے تھے اور اس طبقہ سے ارادت واحترام کا رشتہ ہمیشہ قائم
رکھا ۔
دعائے چہار صد اولیاء :
جب سلطان محمد خدابندہ اولیجایتو نے گنبد شہر سلطانیہ کی بنیاد رکھی تو
بطور تبرک خواہش کی کہ ایران وعراق (عرب وعجم )کے بزرگان ودرویشان کو یہاں
اکٹھا کیا جائے ۔ سید شہاب الدین نے سلطان کی خواہش پر چار سو اولیاء اللہ
،علماء دین اور فقرا کو دعوت دی اور اس گنبد کی تاسیس کے دوسال بعد یہ دعوت
ظہور پذیر ہوئی ۔اس وقت سید علی ہمدانی دو سال کے تھے ۔
آپ کے والد ان کے ہمراہ ان بزرگوں کی محفل میں آئے اور ہر بزرگ سے ان کے
لئے دعا کرائی ۔چار سو اولیاء اللہ ،علماء دین ،فقراء ودرویشان میں سے ہر
ایک نے ان کی بلند منزلت کے لئے بارگاہ خداوندمتعال میں دست دعا بلند
فرمائے ۔ان میں سے پہلے بزرگ سید علاء الدولہ سمنانی اور آخری خواجہ قطب
الدین نیشا پوری تھے ۔
تربیت:
آپ کی تربیت میں آپ کی والدہ فاطمہ اور ماموں سید علاء الدولہ سمنانی نے
کاوشیں فرمائیں جن کا نتیجہ سید علی ہمدانی کے بلند مرتبہ روحانی شخصیت کی
صورت میں نکلا ۔ سید علی ہمدانی کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں ۔آپ کے
والدین نے آپ کی تعلیم وتربیت کے لئے بہترین وسائل فراہم کئے اور آپ نے
اپنی فوق العادہ استعداد سے ان سہولیات سے فائدہ اٹھایا ۔وہ خود کو زیادہ
تر کتاب خوانی ،کتاب نویسی اور اکتساب علم ودانش میں مصروف رکھتے اور دیگر
مصروفیات سے کنارہ کش رہتے ۔آپ نے بیشتر اکتسابات اپنے ماموں علاء الدولہ
سمنانی کی رہنمائی میں کئے ۔
حفظ قرآن:
سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا اور اس کے بعد علوم مروجہ ومتداولہ سید علاء
الدولہ سمنانی سے حاصل کئے ۔سید علاء الدولہ سمنانی نے کمال محبت سے آپ کی
تربیت کی جس کے باعث سید نے علوم اسلامی میں تبحر پیدا کیا ۔
خانقاہ مِزدقان :
حضرت علاء الدولہ سمنانی نے سلوک باطنی کے لئے سید علی ہمدانی کو ایک پرہیز
گار ابوالبرکات تقی الدین اخی علی دوستی کی خدمت میں بھیجا ۔علاء الدولہ
سمنانی حضرت علی دوستی کا بے انتہا احترام اور محبت فرماتے تھے اور کہا
کرتے تھے ،’’علی دوستی ہمارا مرید وشاگرد ہے اور ایک لاکھ شیوخ واساتذہ کا
شیخ واستاد ہے ،علی دوستی ہمارے محبوبین میں سے ہے ‘‘۔علی دوستی حضرت علاء
الدولہ سمنانی کے تربیت یافتگان میں سے بہترین لوگوں میں سے تھے ۔شاہ ہمدان
علی دوستی کی خدمت میں بارہ سال رہے اور تربیت سیر وسلوک فرمائی پھر آپ شیخ
محمود مزدقانی کی خانقاہ مزدقان (نزد تہران )حاضر ہوئے اورایک سال سخت
مجاہدہ اور ریاضت فرمائی ۔
سماع:
سید علی ہمدانی خانقاہ مزدقان میں ہفتہ میں دو بار تواتر کے ساتھ سماع کی
محفل سجایا کرتے ۔آپ سماع کو جذبات عالی کی تحریک کاذریعہ قرار دیتے اور
فرماتے کہ یہ وہ آتش ہے جوسوزوعشق اورمحبت الٰہی کے جذبات ابھار کر تیز
کرتی ہے ۔سماع عشق سے مربوط ہے ۔
خانقاہ مزدقان میں731ھ تک رہے ۔یہاں تک کہ آپ کی عمر مبارک اٹھارہ برس تک
پہنچ گئی ۔ہمدان میںذکر واذکار اوراوراد واشغال کے ساتھ دیگر درویشوں کے
ہمراہ شیخ علی دوستی کے حکم پر مجاہدہ وریاضت فرماتے رہے یہاں تک کہ 732ھ
میں آپ نے مزدقان سے روانگی کا قصد کیا ۔
وفات شیخ اخی :
ایک روز آپ شیخ اخی کی خلوت گاہ کے قریب آئے تا کہ شیخ سے اجازت طلب کریں
اور رخصت لے کر مزدقان سے روانہ ہو جائیں ۔خلاف معمول شیخ اس روز باہر نہ
آئے اور تاخیر ہو گئی ۔ درویشوں نے کہا کہ آپ خلوت گاہ تشریف لے جائیں اور
وہیں خدا حافظ کہہ لیں ۔جب علی ہمدانی اندر پہنچے تو دیکھا کہ حضرت اخی
حالت ذکر میں اپنا سر زانو پہ رکھ کر تشریف فرما ہیں اور آپ کی روح مقدس
پرواز کر چکی ہے۔
علی ہمدانی اور دیگر درویشوں نے مل کر شیخ کی تدفین کی اور مراسم قل کے بعد
علی ہمدانی شیخ محمود کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔شیخ محمود نے بیک نظر جان لیا
کہ علی ہمدانی منازل سلوک طے کر چکے ہیں۔ آپ نے حضرت علی ہمدانی کو روحانی
خلافت سے سرفراز فرمایا جس کے بعد حضرت علی ہمدانی سیر وسیاحت کو نکلے ۔
خرقۂ طریقت :
733ھ میں سید21،22سالہ نوجوان تھے جس موقع پر34بزرگان دین نے آپ کو خرقہ
عطا فرمایا اور اجازت ارشاد دی ۔
رسالہ مستورات میں ہے کہ سید علی ہمدانی دوران سفر شیخ سعید حبشی سے ملے جو
ان چوبیس مشائخ میں سے ہیں جن سے سید نے خرقۂ تبرک حاصل کیا ۔شیخ ابوسعید
اس وقت سرکار دوعالم کی زیارت سے شرفیاب ہوئے ۔رسول کریم نے آپ کو بشارت دی
کہ جلد ہی آپ کی ملاقات علی ہمدانی سے ہو گی ،معرفی میں علی ہمدانی ذکر
کرتے ہیں کہ شیخ نے فرمایا ،
’’وہ میری اولاد میں سے ہوں گے ۔میری ہجرت کے سات سو پچاس سال بعد سرزمین
عراق کے شہر ہمدان میں ایک ستارہ طلوع ہو گا ‘‘۔میں نے عرض کیا،’’اے اللہ
کے رسول !میری آنکھوں کے نور !اے اللہ کے نبی !ان کا نام کیا ہو گا
؟‘‘،فرمایا’’علی ہمدانی ‘‘۔اس کے بعد فخر موجودات نے دعا فرمائی اور اللہ
رب العزت نے قبول فرمائی ‘‘۔
سیاحت :
علم وعمل اور تقویٰ کی معراج حاصل کر کے عازم جہاں گشت ہوئے اور مختلف
ممالک میں سیاحت فرمائی ۔بارہ دفعہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ۔عرب
،افغانستان ، تبت ،وسط ایشیااور ملحقہ ممالک کی سیاحت کی ۔نامساعد حالات
اور ناہموار صورت حال سے گزرتے فقط تبلیغ وترویج اسلام اور عظمت انسانیت کا
درس دینے کی خاطر یہ صعوبتیں برداشت کیں ۔آپ کے پیش نظر تدریس معارف اسلام
اور تربیت شاگردان رہا جس کے لئے آپ مجالس وعظ وخطابت برپا فرماتے اور
اسلامی مبلغین وواعظین کو منظم فرما کر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے
روانہ فرماتے ۔
بیس سالہ سیاحت کے دور میں ایک ہزار چارسو اولیاء اللہ کی زیارت کی اور
فیوض حاصل کئے ۔چار سو اولیاء نے آپ کو گنجینۂ معرفت سے چار سو کلمات عطا
کئے جس مجموعے کا نام انہوں نے’’ اوراد فتیحیہ ‘‘رکھا ۔
زیارت امام رضا:
آپ مشہد مقدس میں آٹھویں خلیفۂ رسول سیدنا امام علی ابن موسیٰ الرضا کی
بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔امام رضانے آپ کو اپنی زیارت سے شرفیاب فرمایا اور
تبلیغ دین کا حکم دیا ۔
تاسیس مساجد وخانقاہ :
اکثر مقامات پہ مساجد ومدارس اسلامیہ کی تاسیس فرمائی اور خانقاہیں اور کتب
خانے قائم کئے ۔غیر مذاہب کے پیشواؤں سے مباحثہ میں اپنے اخلاق کامل ،شجاعت
وصراحت ،استقا مت و پامردی، جذبۂ ایثار کے باعث ہر مقام پہ غلبہ حاصل کیا
تبلیغ اسلام :
آپ نے لاکھوں ہندؤں کو خلعت اسلام سے سرفراز فرمایا جنہوں نے اپنے ہاتھوں
مندروں کو مساجد میں بدل دیا ۔آپ علمی وعرفانی مقامات میں ماہر تھے اور
اپنے مریدین سے فرمایا کرتے کہ اس حدیث رسول کو حرز جان بنا کر اس پر عمل
کیا کرو ’’ افضل الجہاد کلمۃ حق عند امام جائر ‘‘ ، ظالم حاکم کے سامنے
کلمۂ حق کہنا جہادافضل ہے ۔
دستار علی ہمدانی:
سید علی ہمدانی سیاہ عمامہ شریف زیب فرمایا کرتے تھے ۔آپ کے مرید خواجہ
اسحٰق علی شاہ ختلانی کو ایک دفعہ امیرتیمور نے دیکھ کر کہا کہ اپنے سر سے
سید علی ہمدانی کاعطا کردہ سیاہ عمامہ اتار دو ۔خواجہ اسحٰق ختلانی نے
فرمایا ،’’یہ سر کٹ تو سکتا ہے مگر علی ہمدانی کی عطا کردہ دستار اتارنے کا
تصور بھی نہیں کر سکتا ‘‘۔امیر تیمور نے یہ سن کر آپ کو بھاری جرمانہ کر
دیا اور سخت سزا کا حکم دیا ۔خواجہ اسحٰق ختلانی نے سزا قبول کر لی مگر
دستار مرشد کی حفاظت فرمائی ۔
تیموریوں نے آپ کے داماد وخلیفہ خواجہ اسحٰق ختلانی کو ان کے بھائی کے
ہمراہ شہید کر دیا اور خانوادہ سید علی ہمدانی کو قتل کی دھمکیاں دے کر
جلاوطن کر دیا مگر آپ کے انتقال کے بعد یہی امیر تیمور تھا جس نے آپ کی
شہرت سن کر آپ کا مزار اقدس تعمیر کرایا ۔اسی کی اولاد میں ایک تیموری آپ
کے مزار کے قریب دفن ہوا ۔
خانقاہ معلی:
کشمیر میں آپ جس مقام پر محو عبادت رہے ااور وعظ فرمایا کرتے تھے اور
تبلیغی وتدریسی سرگرمیاں سرانجام دیا کرتے تھے ،آپ کی وفات کے بعد پرشکوہ
انداز میں تعمیر کی گئی اور خانقاہ معلی یا مسجد شاہ ہمدان سرینگر(مقبوضہ
کشمیر)کے نام سے معروف ہے۔نانویں صدی ہجری کے اوائل میں اس کی تعمیر کا
آغاز ہوا اور یہ اہل اسلام کا تبلیغی مرکز اور مقدس متبرک مقام سمجھا جاتا
ہے ۔
ہر سال روز عاشورہ ،شہداء کربلا کی یاد میں اہل اسلام یہاں اکٹھے ہو کر
پرچم حسین بلند کرتے ہیں اور غیر مسلمین بھی احترام کا اظہار کرتے ہیں ۔دور
ونزدیک سے لوگ یہاں آکر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں ۔کشمیر،گلگت
،بلتستان ،کشمیر اور دیگر مقامات پر کئی مساجد وخانقاہیں آپ کے نام گرامی
سے منسوب ہیں۔
تصانیف :
آپ نے مختلف موضوعات پرعربی وفارسی زبان میں170کتب ورسائل تالیف فرمائے اور
تفسیر قرآن ،حدیث نبوی ،اخلاقیات ،سیاسیات، عرفانیات ،سیر وسلوک ، ادعیہ،
مباحث کلام وحکمت ،فقہ وادب ،تعبیر خواب اور اولیاء اللہ کے کے مدارج
ومقامات پر علمی آثار کا خزانہ اخلاف کے سپرد فرمایا ۔آپنے السبعین فی
فضائل امیر المومنین ، مؤدۃ فی القربیٰ ، الاربعین فی فضائل امیر المؤمنین
جیسی شاہکار کتب تالیف فرمائیں ۔ان تالیفات وتصانیف کے باعث ہزاروں مسلمان
آپ کے فیضان سے معارف وحقائق دین سے روشناس ہوئے ۔آپ کے منظومات ومنثورات
کثیر تعداد میں ہیں جن کے مندرجات وموضوعات بذات خود ایک کشش رکھتے ہیں۔
عمر مبارک کا بیشتر حصہ سیاحت وتبلیغ میں بسرکرنے کے باوجود یہ عظیم علمی
وثقافتی اثاثہ سپرد قرطاس فرمایا۔ اکثر آپ کے ہمدان قیام کے دوران لکھے گئے
۔چند تصانیف کے عنوانات درج ذیل ہیں ،
ذخیرۃ الملوک ۔ مشارب الاذواق۔ رسالہ ہمدانیہ ۔ رسالہ وجودیہ
رسالہ منامیہ ۔ رسالہ بہرام شاہیہ ۔ درویشیہ ۔ عقلیہ
۔ ذکریہ ۔ داؤدیہ ۔ موچلکہ ۔ مقامیہ
۔ اعتقادیہ ۔ فقریہ ۔ نوریہ ۔ واردات امیریہ
۔ مقامات صوفیہ ۔ دہ قائدہ ۔ مصطلحات صوفیہ ۔ اسرار النقطہ
۔ مودۃ القربیٰ ۔ مکتوبات امیریہ ۔ چہل اسرار ۔ فتوت نامہ
۔ اوراد فتیحیہ ۔ مناجات ۔ روضۃ الفردوس ۔ خواطریہ
۔ الانسان الکامل ۔ الناسخ والمنسوخ فی القرآن المجید ۔ فی سواد اللیل ولبس
الاسود
۔ معاش السالکین ۔ اقرب الطریق ازلم یوجد الرفیق ۔ حل الفصوص
۔ شرح اسماء الحسنیٰ ۔ اختیارات منطق الطیرٍ ۔ انسان نامہ
۔ آداب سفرہ ۔ منازل السالکین ۔ منہاج العارفین
۔ سوالات ۔ فقیریہ ۔ صفۃ الفقراء
۔ طالقانیہ ۔ مرادات دیوان حافظ ۔ طائفہ ہائے مردم
۔ تلقینیہ ۔ مشکل حل ۔ عبقات
۔ سیر وسلوک ۔ مشیت ۔ آداب سیر وسلوک
۔ فتحیہ ۔ حقیقت ایمان ۔ آداب المریدین
خپلو، بلتستان میں آپ کے ایک عقیدت مند موسوی صاحب کے ذاتی کتب خانے میں آپ
کی پینسٹھ قلمی اور پینتیس مطبوعہ
تصانیف کے نسخے موجود ہیں۔
یا شاہ ہمدان:
آپ کی کرامات وروحانی تصرفات کی فہرست طویل ہے ۔ہنوز آپ کے وابستگان طریقت
،’’یا شاہ ہمدان ‘‘ کا نعرہ لگا کر آپ کی روح پرفتوح سے روحانی امداد طلب
کرتے ہیں ۔
عرس وصال :
ہر سال چھ ذیقعد ،آپ کا عرس وصال نہایت تزک واحتشام سے منایا جاتا ہے جس
میں آپ کی شخصیت اور تعلیمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔شاہ ہمدان کانفرنس کا
انعقاد کیا جاتا ہے ۔ |
|