چنگیز خان کی یہ حسرت زندگی بھر
پوری نہ ہو سکی کہ سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کو زندہ گرفتار کرلیا جائے
۔
سلطان جلال الدین نے چنگیز خان پر آخری ضرب لگانے کے لئے دریائے سندھ کے
کنارے پر پہنچ کر ایک بڑے میدان کا انتخاب کیا۔ اس جگہ دریائے سندھ کا بہاﺅ
بہت تیزاور پانی اتنا گہرا تھا کہ دریا کو پار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس
میدان کا محل وقوع اس طرح سے تھا کہ بائیں جانب بلند پہاڑ تھے اور دائیں
طرف سے دریا ئے سندھ پیچھے کی جانب ایک لمباموڑ کاٹتا تھا جسکی وجہ سے اس
میدان کا دایاں، بایاں اور پچھلا حصہ محفوظ تھا۔ صرف سامنے کا حصہ کھلا ہوا
تھا ۔ جلال الدین یہاں اپنے لشکر کے ساتھ چنگیز خان سے مقابلہ کرنے کے لئے
پوری طرح تیار تھا۔
معرکہ کا دن آپہنچا اور ایک دن صبح سویرے چنگیز خان اپنے پورے لشکر کے ساتھ
اس میدان کے سامنے سے نمودار ہوا ۔ سلطان جلال الدین نے دیکھا کہ چنگیز خان
نے اس مرتبہ اپنے لشکر میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں پہلے وہ لشکر کے درمیانی
حصے میں رہتا تھا، لیکن اس مرتبہ وہ اپنے لشکر کے پچھلے حصے میں تھا اور
اپنے گرد اس نے دس ہزار منگول سپاہی رکھے ہوئے تھے۔ شاید یہ اس نے اس لئے
کیا تھا وہ جلال الدین کی دلیری اور شجاعت سے مرعوب ہوچکا تھا وہ جانتا تھا
کہ اگر جلال الدین کسی بھی موقع پر جنگ میں کامیاب ہوا تو اس کی گردن
ضرورقلم کردے گا۔
جنگ کی ابتداءکرنے کے لئے چنگیز خان نے اپنے لشکر کے ایک حصے کو آگے بڑھایا
، نقارے پر چوٹ پڑی ، علم بلند ہوئے اورفوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف
آراءہوگئیں، سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے اپنے لشکر کے بائیں حصہ کو،
امین الملک کی کمان میں آگے بڑھنے کا حکم دیا ۔ مسلمان اور منگول آپس میں
ٹکراگئے ، گھمسان کا رن پڑا ،سلطان اور اس کے مجاہدوں نے منگولوں پر اسقدر
جان توڑ اور زوردار حملہ کیا کہ منگول فوج کے قدم اکھڑ گئے اور وہ پیچھے
ہٹنے پر مجبور ہوگئے، اس موقع پر چنگیز خان کے بیٹوں کو غیرت آئی اوروہ
اپنے لشکر لیکران کی مدد کولپکے ۔ امین الملک کا دستہ بھاگنے والوں منگولوں
کے تعاقب میں تھا، اور یہی انکی غلطی تھی کیونکہ منگول ایک حکمت عملی کے
تحت پیچھے ہٹے تھے ، جب سلطان کے سپاہی تعاقب کرتے کرتے منگولوں کے لشکر
میں کافی اندر چلے گئے ، تو گھات لگاکر بیٹھے ہوئے منگولوں کے دستوں نے ان
پر حملہ کردیا ۔جس سے امین الملک کے دستہ میں شامل سپاہیوں کا کافی جانی
نقصان ہوا۔ جنگ کا نقشہ پلٹنے لگا اور میدان جنگ کے اس حصے پر منگولوں کا
دباﺅ بڑھنے لگا۔
چنگیز خان جو اپنی فوج کے درمیان پیچھے کی جانب کھڑا ، اپنی فوج کو لڑوا
رہا تھا ،سلطان جلال الدین کی نظراس پر پڑ گئی ، اس کی آنکھوں میں غصے اور
انتقام سے خون اتر آیا،اسے دیکھ کر سلطان جلال الدین نے فیصلہ کرلیا کہ وہ
یاتو منگولوں کو نیست نابود کردے گا یا خود اپنے آپ کو موت کے سپرد کردے گا
اور اس عزم کے ساتھ سلطان نے اپنے تمام لشکر کے ساتھ چنگیز خان پر زور دار
حملہ کردیا۔
سلطان جلال الدین، چنگیز خان تک پہنچنا چاہتا تھا ، چنگیز خان نے جب یہ
دیکھا کہ سلطان منگول سپاہیوں کو کاٹتا ہوا اس پر حملہ آور ہو کر اس کی
ہلاک کرنا چاہتا ہے تو وہ ایک تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے لشکر کے
پچھلے حصے کی طرف بھاگا۔ حالانکہ سلطان جلال الدین کے لشکر کی تعداد چنگیز
خان کے لشکر کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی ۔ منگولوں کے لاکھوں کے
لشکر کے مقابلے میں سلطان کے پاس صرف تیس ہزار کا لشکر تھا۔ لیکن مسلمان جس
سرفروشی اور جوش سے لڑرہے تھے چنگیز خان نے اندازہ لگایا کہ اگر جنگ اسی
طرح جاری رہی تو جلال الدین اور اس کا لشکر لاکھوں منگولوں کو موت کے گھاٹ
اتار دے گا اور خود اس کی بھی گرد ن کاٹ دے گا۔لہٰذا چنگیز خان نے اپنے ایک
سپہ سالار اور اس کے حصے کے لشکر کو علیحدہ کیا اور حکم دیا کہ وہ کسی طرح
ان اونچی پہاڑیوں کو عبور کرکے نیچے اتر کر سلطان کی پشت پر یا اس کے بائیں
جانب سے حملہ آور ہوجائیں ، اس طرح سلطان جلال الدین پر جنگ کے دو محاذ کھل
جائیں گے اور وہ اپنے چھوٹے سے لشکر کےساتھ دو محاذوں پر نہیں لڑسکے گا۔
پہاڑ پر چڑھنے والا منگولوں کا یہ لشکر تعداد میں سلطان کے لشکر سے کئی گنا
بڑا تھا ، یہ لشکر اونچے پہاڑ پر چڑھ گیا ، جس میں منگولوں کے بہت سے سپاہی
پہاڑ سے نیچے گرکر ہلاک بھی ہوئے ، لیکن یہ لشکر پہاڑکی دوسرے جانب اترنے
میں کامیاب ہوگیا ۔ اب سامنے سے چنگیز خان اور اس بیٹوں نے اور بائیں جانب
سے پہاڑ سے نیچے اترنے والے لشکر نے اپنی پوری قوت سے سلطان جلال الدین پر
حملہ کردیا۔
سلطان جلال الدین کو اندازہ تھا کہ اس کے لشکر کی تعداد بہت کم ہے ، منگول
جس طرح سے اس پر دو جانب سے حملہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اس کے لشکر کو
بہت زیادہ نقصان ہوگا ، اپنے لشکرکواس نقصان سے بچانے کے لئے اس نے بلند
آواز سے زوردار تکبیریں کہیںتاکہ چنگیز خان کے لشکر کو پیچھے ہٹا کر اپنے
لشکر کو دریائے سندھ کے کنارے کسی محفوظ مقام پرلے جائے۔ سلطان نے وقتی طور
پر چنگیز خان کے لشکر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور بھی کردیا تھا ، لیکن جس وقت
سلطان پیچھے دریا کی جانب ہٹا ،تو پیچھے سے منگولوں سپاہی سیلاب کی شکل میں
اسکے سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے اور سلطان جلال الدین کے لشکر کو بہت زیادہ جانی
نقصان پہنچایا۔
سلطان پیچھے ہٹتے ہٹتے جب دریائے سندھ کے بلند پہاڑی سلسلے کے اوپر پہنچا
تو اس نے دیکھا کہ اسکے گرد اسوقت صرف سات سو مجاہد رہ گئے ہیں۔ اپنے مٹھی
بھر ساتھیوں کو دیکھ کر سلطان پریشان ہوگیا ، وہ سمجھ گیا کہ اس کا آخری
وقت آن پہنچا ہے ، اس نے حسرت بھری نگاہ اپنے تھکے ماندے گھوڑے اور ساتھیوں
پر ڈالی، گھوڑے سے اترا اور ایک تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوکر گھوڑے کو ایک
اونچے پہاڑ پر لے گیا ۔ ایک مرتبہ پھر اس نے حسرت بھری نگاہ اپنے پیچھے اور
دائیں بائیں ڈالی اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر بلند پہاڑ کے اوپر سے نیچے
موت کی صورت میں بہتے ہوئے دریائے سندھ میں چھلانگ لگادی۔
ابھی چنگیز خان کو یہ خبر نہیں ہوئی تھی کہ سلطان جلال الدین اپنے گھوڑے
سمیت دریائے سندھ میں کود چکا ہے ۔ جب مسلمان پسپا ہوگئے تو چنگیز خان نے
اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان کا پیچھا کرو اور کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا
جائے لیکن سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کو ہر حال میں زندہ گرفتا ر کیا
جائے۔ چنگیز خان اپنے بیٹوں اور سپہ سالاروں کے ساتھ گھوڑے دوڑاتا جب
دریائے سندھ کے کنارے پر پہنچا تو سلطان جلال الدین اس وقت دریا کی موجوں
سے لڑتا ہوا دریائے سندھ پار کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔چنگیز خان بڑی حیرت
اور عقیدت کے ساتھ سلطان جلال الدین کو دریا کی موجوں سے جہدو جہد کرتے
ہوئے دیکھتا رہا ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس موقع پر چنگیز خان ،سلطان جلال
الدین کی بہادری اور جرات مندی کی تعریف کرتے ہوئے بے اختیار پکار اٹھا ”
وہ باپ خوش قسمت ہے جس کا بیٹا اتنا بہادر ہو“۔
سلطان جلال الدین جس کی باقاعدہ کوئی سلطنت اور فوج نہ تھی ، لیکن منگول
سپاہی اس سے مقابلہ کرنے سے کتراتے تھے ۔ اگر سلطان علاﺅالدین خوارزم شاہ
اپنے بہادر بیٹے کی بات مان لیتا اوراپنے لشکر کی کمان جلال الدین کو دے
دیتا تو آج تاریخ میں چنگیز خان کا ذکرکہیں نہ ملتا ،اگر ذکر ملتا بھی تو
ایک پہاڑی سردارتموجن کا ۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو قدرت کو منظور ہوتا ہے۔
دریائے سندھ کے کنارے چنگیز خان کے خلاف سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کی یہ
آخری جنگ تھی ۔سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کی بہادری اور جرات مندی چنگیز
خان کے دل میں بیٹھ چکی تھی ، اسے اب بھی خدشہ تھا کہ اگر سلطان جلال الدین
نے دریائے سندھ کے پار ہندوستان میں دوبارہ مسلمانوں کا لشکر تیار کرلیا تو
ایک مرتبہ پھر منگولوں کے لئے جان لیوا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
چنگیز خان کافی عرصے تک دریائے سندھ کے کنارے پر پڑاﺅ ڈالے وہاں رکا رہا
اور اس نے اپنے ایک سپہ سالار کی سرکردگی میں بہت بڑا لشکر ہندوستان میں
بھیجا جس نے مختلف جگہوں پر سلطان کو تلاش کیا لیکن انھیں کامیابی نہیں
ہوئی ۔ سلطان جلال الدین کی تلاش میں منگول لاہور اور ملتان پر بھی حملہ
آور ہوئے اور یہاںبھی تباہی و بربادی کا کھیل کھیلا، لیکن سلطان جلال الدین
اس کے ہاتھ نہ لگا ۔چنگیز خان کی سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کو زندہ
گرفتا ر کرنے کی حسرت زندگی بھر پوری نہ ہو سکی اور اسکا وہ لشکر جو اس نے
جلال الدین خوارزم شاہ کی تلاش میں بھیجا تھا ناکام و نامراد لوٹ آیا۔
دریائے سندھ کے کنارے لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ کے بعد چنگیز خان کو
اپنا وطن یاد آنے لگا ،چنانچہ اس نے اپنے لشکر کے ساتھ واپس اپنے وطن جانے
کا ارادہ کرلیا اور اپنی سلطنت کے مرکزی شہر قراقرم کی طرف روانہ ہوگیا،
جودنیا کے بلند ترین صحرا گوپی کے پار، تبت کے علاقے سے تقریباََ آٹھ سو
میل کے فاصلے پر تھا۔ روانگی سے قبل چنگیز خان نے مفتوح علاقوںمیں اپنے
صوبے دار اور گورنر مقرر کئے ۔ اب تک کی جنگوں میں لوگوں کا ایک جم غفیر
قیدیوں کی شکل میں منگول لشکر کے ساتھ ساتھ گھسٹتا پھر رہاتھا۔ اس نے ان
قیدیوں سے چھٹکارہ پانے کا ارادہ کرلیا ،اور تمام قیدیوں کوقتل کرنے کا حکم
دیدیا ۔ چنگیز خان کے اس حکم پر خوارزم کے شاہی حرم کی خواتین کے علاوہ ہر
مرد و زن کو قتل کردیا گیا۔ ان بدقسمت خواتین کو آخری مرتبہ اپنے وطن کی
طرف دیکھنے اور آہ و بکا کا موقع دیا گیا۔ ان مقید خواتین میں سلطان
علاﺅالدین خوارزم شاہ کی ماں ترکان خاتون بھی شامل تھی ، اس کو حکم دیا گیا
کہ وہ اپنے خاندان کی تمام خواتین کے ساتھ ننگے سر اور ننگے پاﺅں لشکر کے
آگے آگے چلے۔ اور تمام خواتین اپنی تباہی اور بربادی کا ماتم کرتی جائیں۔
خوارزم شاہ کی ماں،بیگمات اور بیٹیوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک منگول تاریخ پر
ایک سیاہ داغ ہے۔
بہر حال چنگیز خان جب دریائے سیحوں کے کنارے پہنچا ، یہ وہی جگہ تھی جہاں
سے وہ پہلی مرتبہ سلطنت خوارزم میں داخل ہوا تھا۔ دریا کے کنارے پہنچ کر اس
نے فتح کا جشن منانے کا حکم دیا اس وقت وہ سلطان علاﺅالدین خوارزم شاہ کے
تخت پر بیٹھا ہوا تھا جو اس نے فتح کے دوران حاصل کیا تھا اور اس وقت اس کے
سر پر سلطان علاﺅ الدین کا تاج تھا اور اس ہاتھ میں سلطان علا ﺅ الدین کا
عصا تھا۔ چنگیز خان اور اس سپاہی دریائے سیحوں کے کنارے کئی دن تک فتح کا
یہ جشن منانے کے بعد اپنے وطن کی طرف روانہ ہوگئے۔
چنگیز خان اب بوڑھا ہوچکا تھامگر پھربھی وہ یہ چاہتا تھا کہ چین کے وہ
علاقے جو اب تک اس کے حملوں سے بچ گئے ہیں ان پر حملہ کرکے انھیں بھی اپنی
سلطنت میں شامل کرلے لیکن چنگیز خان کو دوبارہ چین پر حملہ آور ہوکر انھیں
فتح کرنے کی مہلت نہ ملی اوراسی دوران اسکا انتقال ہوگیا۔ مرنے کے بعد اس
کی لاش کو چھکڑے میں لاد کر صحرائے گوپی کے پاراس کے مرکزی شہر قراقرم لایا
گیا ۔ راستے میں جس جگہ سے چنگیز خان کے لاش گزرتی ان راستوں پر جوبھی
قافلہ یا مسافر ملتا اسے قتل کردیا جاتا تاکہ کسی کو یہ خبر نہ ہوسکے کہ
چنگیز خان مر گیا ہے۔
چنگیزخان کی لاش جب اس کے مرکزی شہر قراقرم لائی گئی تو اسے دفن کرنے کے
لئے صلاح و مشورہ ہوا ، منگولوں کے ایک سردار کو چنگیز خان نے بتادیا تھا
کہ جب وہ مرجائے تو اسے شہر کے سب بڑے صنوبر کے درخت کے نیچے دفن کیا جائے۔
یہ درخت بہت اونچا اور بڑا تھا، اس درخت کو دیکھ کر چنگیز خان اکثر یہ کہا
کرتا تھا کہ اس کا سایہ بوڑھے کے لئے بڑے آرام کی جگہ ہے۔ اس درخت کے ارد
گرد صنوبر کے اور بھی چھوٹے چھوٹے درخت تھے جنھوں نے ایک طرح سے اس بڑے
صنوبر کے درخت کو گھیر رکھا تھا۔ بہرحال صنوبر کے اس درخت کے سائے تلے ایک
بہت بڑی قبر کھودی گئی ۔ اس کے بعد چنگیز خان کے اس گھوڑے کو ماردیا گیا جس
پر اس نے اپنے آخری دنوں میں سواری کی تھی اور اسکی ہڈیاں علیحدہ کرکے ان
ہڈیوں کو جلا کر خشک اور صاف کرلیا گیا۔اور اس قبر کے اندر ایک چھوٹا خیمہ
نصب کیا گیا جس میںپکا ہوا گوشت ، اناج، ایک کمان، ایک تلوار اور اس کے
گھوڑے کی ہڈیاں رکھی گئیں اس کے بعد اس قبر میں چنگیز خان کو دفن کردیا
گیا۔ جب تک اس قبر کے ارد گرد چھوٹے درخت نہیں اُگ آئے اس وقت تک اس قبیلہ
کے لوگ باری باری چنگیز خان کی قبر پر پہرہ دیتے رہے یہ فیصلہ اس لئے کیا
گیا تھا کہ کسی کو اس کی قبر کا پتہ ہی نہ چلے۔بہر حال چنگیز خان جو دشمن
کو شکست دے کر ان کے سروں کے مینارتعمیر کرنے کا شوقین تھا اور دشمن کے
سروں کی کھوپڑیوں کے پیالے بناکر ان میں شراب پینے کا عادی تھا اپنے انجام
کو پہنچ گیا۔
(ماخوذ : تاریخ عالم کی اہم شخصیات ) |