اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جملہ
خصائص و کمالات ،حُسن و خوبی، عظمت و رفعت اور اوصاف پیدا فرما کر آمنہ کے
لال۔پیکر حسن و جمال ،آقائے بلال رضی اللہ عنہ ، غمخواروں کے لجپال حضرت
محمد مصطفےٰ ﷺ کو اس سے متصف فرمایا ۔علم آدم کے امین بھی مدینے والے آقا
ﷺ،تبلیغ نوحؑ کے علمبردار بھی سرکار مدینہﷺ ،خلیل اللہ کی دعا بھی حضورﷺ ،
حسن یوسف کی کامل و اکمل صورت بھی میرے آقا ﷺ، زکریا ؑ کے ذخر اور موسیٰ ؑ
کے جلال کی تصویر بھی سرکار مدینہﷺ ، صبر ایوب ؑ اور حلم و کمالِ عیسیٰ ؑ
میں بھی ہمارے نبی ﷺ ، حتیٰ کہ کمالات مصطفےٰ ﷺ پر کتابوں کے انبار موجود
ہیں مگر مجھے تو اُس باکمال وصاحب جلال ہستی پر گفتگو کرنی ہے جس کا انتخاب
نظر نبوت نے فرمایا ۔نبوت کی نظر کا انتخاب کسی بھی لحاظ سے ناقص نہیں ہو
سکتا ۔بلکہ کامل و اکمل نظر مصطفےٰ ﷺنے صاحب کمال و خوبی شخص کو اسلام کی
سر بلندی سے منسوب فرما کر دعا فرمائی اے اللہ عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام
کو طاقت و عزت عطا فرما ۔یہ کمال بھی اسی شخصیت کے حصے کا خاصہ ہے کیونکہ
تمام صحابہ رضی اللہ عنہم مرید رسول ﷺ ہیں جبکہ آج میرے ممدوح مرید رسول ﷺ
بھی ہیں اور مراد رسول ﷺ بھی ۔منشائِ رسالت ﷺ بھی ہیں اور طلبِ رسالتﷺ بھی
۔
رسول کریم ﷺ نے اپنی نگاہ فیض سے عام انسانوں کو فیضیاب فرما کر دنیا کا
مقتداءو امام بنایا ۔صحابہ کرام کی تمام ترخوبیاں ،صفات ،عظمتیں رسول کامل
ﷺ کی تربیت باکمال کا نتیجہ ہیں ۔
معزز قارئین! باکمال رسول ﷺ کی مجلس و محفل کمال تقسیم کرتے کرتے سیدنا عمرِ
فاروق رضی اللہ عنہ پر ایسی اثر انداز ہوئی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو
فارق ِ حق و باطل بنا کر فخر اسلام بنا دیا۔
آئیے !حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی باکمال شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں ۔
نام و نسب:آپ کا نام عمر ہے ۔کنیت ابو حفص اور لقب فاروق اعظم ہے ۔آپ کے
والد کا نام خطاب اور ماں کا نام عنتمہ ہے جو ہشام بن مغیرہ کی بیٹی یعنی
ابو جہل کی بہن ہیں۔آٹھویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب سرکار اقدس ﷺکے خاندانی
شجرہ سے ملتا ہے ۔آپ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے ۔نبوت کے چھٹے
سال ستائیس برس کی عمر میں اسلام سے مشرف ہوئے ۔ آپ نے انتالیس مرد اور
تئیس عورتوں کے بعد اسلام قبول کیا ۔(تاریخ الخلفائ)
حلیہ مبارک:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رنگ گندمی تھا ۔ آپ کے سر کے بال خود
پہننے کی وجہ سے گر گئے تھے ۔قد آپ کا لمبا تھا ۔مجمع میں آپ کا سر دوسرے
لوگوں کے سروں سے اونچا معلوم ہوتا تھا ۔دیکھنے میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ
آپ کسی جانور پر سوار ہیں ۔
علامہ و اقدی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رنگ جو لوگ گندمی
بتلاتے ہیں انہوں نے قحط کے زمانہ میں آپ کو دیکھا ہو گا ۔اس لئے کہ اس
زمانہ میں زیتون کا تیل استعمال کرنے کے سبب رنگ آپ کا گندمی ہو گیا تھا ۔
(تاریخ الخلفاءص89)
عطائِی مصطفےٰﷺ لقب فاروق اعظم :حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب
میں کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا تو میرے اسلام قبول کرنے کی خوشی میں
اس وقت جتنے مسلمان حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر میں موجود تھے اتنی
زورسے نعرہ بلند کیا کہ اس کو مکہ کے سب لوگوں نے سنا۔میں نے رسول اللہ ﷺ
سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)!کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا
کیوں نہیں ؟یعنی بیشک ہم حق پر ہیں ۔اس پر میں نے عرض کیا پھر یہ پوشیدگی
اور پردہ کیوں ہے؟ اس کے بعد ہم سب مسلمان اس گھر سے دو صفیں بنا کر نکلے ۔ایک
صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری صف میں میں تھا اور اسی طرح
ہم سب صفوں کی شکل میں مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔کفار قریش نے مجھے اور
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو جب مسلمانوں کے گروہ کے ساتھ دیکھا تو ان کو بے
انتہا ملال ہوا اس روز سرکار مدینہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کا
لقب عطا فرمایا ۔اس لئے کہ اسلام ظاہر ہو گیا او رحق و باطل کے درمیان فرق
واضح ہو گیا ۔(تاریخ الخلفاءص78)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کا مسلمان ہونا اسلام کی فتح تھی ۔ان کی ہجرت نصرت الہٰی تھی اور
ان کی خلافت رحمت خدا وندی تھی ۔ہم میں سے کسی کی یہ ہمت و طاقت نہیں تھی
کہ ہم بیت اللہ شریف کے پاس نماز پڑھ سکیں ۔مگر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ
مسلمان ہو گئے تو انہوں نے مشرکین سے اس قدر جنگ و جدال کیا کہ انہوں نے
عاجز آکر مسلمانوں کا پیچھا چھوڑ دیا تو ہم بیت اللہ شریف کے پاس اطمینان
سے اعلانیہ نماز پڑھنے لگے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس نے سب سے پہلے اپنا اسلام
علی الاعلان ظاہر کیا وہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہیں ۔
منشائِ سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہ پر تائید قرآن:انتخاب ِ مصطفےٰ ﷺحضرت عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ قرآن مجید کے کئی
احکام آپ کی رائے کی تائید پر نازل ہوئے تھا ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ قرآن کریم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائیں موجود ہیں اور حضرت
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اگر کسی معاملہ میں لوگوں کی رائے
دوسری ہوتی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے دوسری ۔تو قرآن مجید حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی تائیدپر نازل ہوتا تھا اور مجاہد سے مروی ہے
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی معاملہ میں جو کچھ مشورہ دیتے تھے قرآن شریف
کی آیتیں اسی مطابق نازل ہوتی تھیں ۔(تاریخ الخلفائ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے رب نے ان کی اکیس (21)باتوں میں
تائید فرمائی ہے ۔ ان میں سے چند باتوں کا آپ لوگوں کے سامنے ذکر کیا جاتا
ہے ۔
1):۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار مدینہ ﷺ سے عرض کیا
کہ حضور ! آپ کی خدمت میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے ہیں اور حضور کی خدمت میں
ازواج مطہرات بھی ہوتی ہیں ۔بہتر ہے کہ آپ ان کو پردہ کرنے کا حکم فرمائیں
۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری اس عرض کے بعد امہات المومنین
کے پردہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔واذا سالتموھن متاعا فسئلو ھن من
وراءحجاب۔یعنی ”اور جب تم امہات المومنین سے استعمال کرنے کی کوئی چیز
مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو ۔(پارہ 22رکوع4)
2):۔حضرت عبد الرحمن بن ابو یعلیٰ بیان فرماتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ملا اور آپ سے کہنے لگا کہ جبریل فرشتہ جس کا
تذکرہ تمہارے نبی ﷺ کرتے ہیں وہ ہمارا سخت دشمن ہے ۔اس کے جواب میں حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا من کان عد وا للّٰہ و ملٰئکتہ ورسولہ وجبریل و
میکال فان اللّٰہ عدو للکٰفرین۔”جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور
اس کے رسولوں اور جبریل و میکائیل کا ،تو اللہ تعالیٰ دشمن ہے کافروں کا
۔“(پارہ 1رکوع 12،تاریخ الخلفائ)
تو جن الفاظ کیساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو جواب دیا بالکل انہی
الفاظ کے ساتھ قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔آیت مبارکہ کے آخری
جملہ فان اللّٰہ عدو للکٰفرین ۔سے معلوم ہوا کہ انبیاءو ملائکہ کی عداوت
کفر ہے اور محبوبان حق سے دشمنی کرنا خدائے تعالیٰ سے دشمنی کرنا ہے ۔
3):۔پہلے شریعتوں میں روزہ افطار کرنے کے بعدبھی کھانا پینا اور ہمبستری
کرنا عشا کی نماز تک جائز تھا ۔بعد نماز عشا ساری چیزیں رات میں بھی حرام
ہو جاتی تھیں۔
یہ حکم حضوراکرم ﷺ کے زمانہ مبارکہ تک باقی رہا ۔یہانتک کہ رمضان شریف کی
راتیں بعد نماز عشا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی بیوی سے ہمبستری ہو گئی
جس پر وہ بہت نادم اور شرمندہ ہوئے ۔حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر
ہوئے اور واقعہ بیان کیا تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔احد لکم لیلة
الصیام الرفث الیٰ نسآئکم ۔اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کی راتوں
میں اپنی عورتوں کے پاس جانا (یعنی ان سے ہمبستری کرنا تمہارے لئے حلال ہو
گیا ۔(پارہ2رکوع7)
4):۔بِشر نامی ایک منافق تھا اس کا ایک یہودی سے جھگڑا تھا ۔یہودی نے کہا
چلو سید عالم ﷺ سے فیصلہ کرالیں ۔منافق نے خیال کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ حق
فیصلہ کریں گے کبھی کسی کی طرفداری اور رعایت نہ فرمائیں گے جس سے اس کا
مطلب حاصل نہ ہو سکے گا اس لئے اس نے مدعی ایمان ہونے کے باوجود کہا کہ ہم
کعب بن اشرف یہودی کو پپخ بنائیں گے ۔یہودی جس کا معاملہ تھا وہ خوب جانتا
تھا کہ کعب رشوت خور ہے اور جو رشوت خور ہوتا ہے اس سے صحیح فیصلہ کی امید
رکھنا غلط ہے ۔اس لئے کعب کے ہم مذہب ہونے کے باوجود یہودی نے اس کو پپخ
تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو منافق کو فیصلہ کے لئے سرکار مدینہ ﷺ کے
یہاں مجبوراً آنا پڑا۔حضور نبی اکرم ﷺ نے جو حق فیصلہ کیا وہ اتفاق سے
یہودی کے موافق اور منافق کے مخالف ہوا ۔منافق حضور ﷺکا فیصلہ سننے کے بعد
پھر یہودی کے درپے ہوا اور اسے مجبور کرکے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے
پاس لایا ۔یہودی نے آپ سے عرض کیا کہ میرا اور اسکا معاملہ حضور ﷺ طے
فرماچکے ہیں ۔لیکن یہ حضور ﷺ کے فیصلہ کو نہیں مانتا آپ سے فیصلہ چاہتا ہے
۔آپ نے فرمایاٹھہرو میں ابھی آکر فیصلہ کئے دیتا ہوں ۔یہ فرما کر مکان میں
تشریف لے گئے اور تلوار لا کر اس منافق مدعی ایمان کو قتل کر دیا اور
فرمایاجو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کو نہ مانے اس کے متعلق میرا یہی
فیصلہ ہے تو بیان کردہ واقعہ کے لئے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔الم ترا الی
الذین یزعمون انھم اٰمنو بمآ اُنزل الیک ومآ انزل من قبلک یریدون ان
یتحاکموآ الی الطاغوت وقد اُمرو ان یکفرو ا بہ ، ویرید الشیطٰن ان یضلھم
ضللا بعیداً۔”کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لائے اس
پر جو تمہاری طرف اترااور اس پر جو تم سے پہلے اترا۔پھر چاہتے ہیں کہ اپنا
پپخ شیطان کو بنائیں اور ان کو تو حکم یہ تھا کہ اسے ہر گز نہ مانیں اور
ابلیس یہ چاہتا ہے انہیں دور بہکادے۔(پارہ 5رکوع6،تفسیر جلالین و صاوی)
پھر کسی نے سید عالم ﷺ کو اطلاع دی کہ حضرت عمر نے اس مسلمان کو قتل کر دیا
جو حضور کے دربار میں فیصلہ کے لئے حاضر ہواتھا ۔آپ نے فرمایا کہ مجھے عمر
سے ایسی امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر ہاتھ اٹھا نے کی جرات کر سکے
تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھر مندرجہ ذیل آیت مبارکہ نازل فرمائی۔(تاریخ
الخلفائ)
فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم
حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیماً،”تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ لوگ
مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ تسلیم کرلیں ۔پھر
جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس کی رکاوٹ نہ پائیں اور دل سے مان
لیں ۔(پارہ 5رکوع6)
ان واقعات سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی
عزت و عظمت کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی باتوں کی تائید میں وحی الہٰی اور قرآن
مجید کی آیتیں نازل ہوتی تھیں ۔
فضیلت سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ بزبان مصطفےٰ ﷺ:انتخاب مصطفےٰ حضرت
عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں ۔
1):۔ترمذی شریف کی حدیث ہے سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔لوکان بعدی نبی
لکان عمر بن الخطاب ۔یعنی اگر میرے بعد نبی ہوتے تو عمر ہوتے (مشکوٰة شریف
ص558)
سبحان اللہ یہ ہے مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کہ اگر نبی اکرم ﷺ خاتم
النبیین نہ ہوتے تو عمرنبی ہوتے ۔اس حدیث شریف میں جہاںحضرت عمر رضی اللہ
عنہ کی فضیلت کا عظیم الشان بیان ہے۔وہاں مرزائیت وقادیانیت کا بھی رد بلیغ
ہے جوتا جدار ختم نبوت ﷺ کے بعد ایک منشی کو درجہ نبوت پر فائز کرتے ہیں۔
2):۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :انی
لا نظر الی شیاطین الجن والانس قد فروا من عمر۔”میں بلا شبہہ نگاہ نبوت سے
دیکھ رہا ہوں کہ جن اورانسان کے شیطان دونوں میرے عمر رضی اللہ عنہ کے خوف
سے بھاگتے ہیں ۔ (مشکوٰة شریف ص558)
یہ رعب و دبدبہ ہے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا کہ چاہے جن کا
شیطان ہو یا انسان کا دونوں ان کے ڈر سے بھاگ جاتے ہیں ۔بلکہ ذِکر عمر رضی
اللہ عنہ سے بھاگ جاتے ہیں ۔
3):۔مدارج النبوة جلد دوم ص426میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عمررضی اللہ
عنہ مجھ سے ہیں اور میں عمر رضی اللہ عنہ سے ہوں اور عمررضی اللہ عنہ جس
جگہ بھی ہوتے ہیں حق ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔
4:۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ رسول
اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا تو خواب دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش
کئے جارہے ہیں اور مجھ کو دکھائے جا رہے ہیں ۔وہ سب کرتے پہنے ہوئے تھے ۔جن
میں سے کچھ لوگوں کے کرتے ایسے تھے جو صرف سینے تک تھے ۔اور بعض لوگوں کے
کرتے اس سے نیچے تھے ۔پھر عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو پیش کیا گیا جو اتنا
لمبا کرتا پہنے ہوئے تھے کہ زمین پر گھسیٹے ہوئے چلتے تھے ۔لوگوںنے عرض کیا
کہ یا رسول اللہ (ﷺ)!اس خواب کی تعبیر کیا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ دین
۔(مشکوٰہ شریف ص557)اس حدیث شریف میں اس بات کا واضح بیان ہے کہ حضرت عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دینداری اور تقویٰ شعاری میںبہت بڑھے ہوئے تھے۔
5):۔ترمذی شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا ان اللّٰہ جعل الحق علیٰ لسان عمر و قلبہ ۔اللہ تعالیٰ نے عمر
کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرمادیاہے ۔(مشکوٰة شریف 557)مطلب یہ ہے کہ
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہمیشہ حق ہی بولتے ہیں ۔ان کے قلب اور
زبان پر باطل کبھی جاری نہیں ہوتا۔
طبرانی اوسط میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار
مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے عمر سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی
رکھی اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور اللہ تعالیٰ نے
عرفہ والوں پر عموماًاور عمر پر خصوصاً فخر و مباہات کی ہے ۔اور جتنے
انبیائے کرام علیہم السلام دنیا میں مبعوث ہوئے ہر نبی کی امت میں ایک محدث
ضرور ہوا ہے اور اگر کوئی محدث میری امت میں ہے تو وہ عمر ہیں ۔صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! محدث کیسا ہوتا ہے؟ حضور نے
فرمایا کہ جس کی زبان سے ملائکہ بات کریں وہ محدث ہوتا ہے ۔(تاریخ الخلفائ)
باکمال حکمران کا قابل تقلید عمل:حضرت ابن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کسی شخص کو کہیں کا والی مقرر فرماتے
تو اس سے چند شرطیں لکھوا لیتے تھے ۔اول یہ کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں
ہو گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اعلیٰ درجہ کا کھانا نہیں کھائے گا ۔تیسرے یہ کہ وہ
باریک کپڑا نہیں پہنے گا ۔ چوتھے یہ کہ حاجت والوں کے لئے اپنے دروازہ کو
بند نہیں کرے گا اور دربان نہیں رکھے گا۔
پھر جو شخص ان شرائط کی پابندی نہیں کرتا تھا اس کے ساتھ نہایت سختی سے پیش
آتے تھے ۔حاکم مصر عیاض بن غنم کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ریشم پہنتا ہے
اور دربان رکھتا ہے تو آپ نے حضرت محمد بن مسلمہ کو حکم دیا عیاض بن غنم کو
جس حالت میں بھی پاﺅ گرفتا رکر کے لے آﺅ ۔جب عیاض خلیفة المسلمین حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کے سامنے لائے گئے تو آپ نے ان کو کمبل کا کرتا پہنایا اور
بکریوں کا ایک ریوڑان کے سپرد کیا اور فرمایا کہ جاﺅ ان بکریوں کو چراﺅ تم
انسانوں پر حکومت کرنے کے قابل نہیں ہو ۔یعنی عیاض بن غنم کو گورنر سے ایک
چرواہا بنا دیا ۔یہی وجہ ہے کہ پوری مملکت اسلامیہ کے حکام اور گورنر آپ کی
ہیبت سے کانپتے رہتے تھے ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ کاروبار خلافت اس وقت تک
درست نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں اتنی شدت نہ کی جائے جو جبر نہ بن جائے اور
نہ اتنی نرمی برتی جائے کہ جو سستی سے تعبیر ہو۔
امام شبعی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ طریقہ تھا کہ جب آپ
کسی حاکم کو کسی صوبہ پر مقرر فرماتے تو اس کے تمام مال و اثاثے کی فہرست
لکھوا کر اپنے پاس محفوظ کر لیا کرتے تھے ایک بار آپ نے اپنے تمام عمال کو
حکم فرمایا کہ وہ اپنے اپنے موجودہ مال و اثاثے کی ایک ایک فہرست بنا کر ان
کو بھیج دیں ۔انہی عمال میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی تھے جو
عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔جب انہوں نے اپنے اثاثوں کی فہرست بنا کر بھیجی تو
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کے سارے مال کے دو حصے کئے جن میں
سے ایک حصہ ان کے لئے چھوڑ دیا اور ایک حصہ بیت المال میں جمع کر دیا
۔(تاریخ الخلفائ)
انتخاب مصطفےٰ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رعایا کی خبر گیری کے لئے بدوی کا
لباس پہن کر مدینہ طیبہ کے اطراف میں راتوں کو گشت لگایا کرتے تھے ۔
ایک رات آپ گشت فرما رہے تھے کہ ایک مکان سے آواز آئی بیٹی دودھ میں پانی
ملا دے ۔دوسری آواز آئی جو لڑکی کی تھی ۔ماں امیر المومنین کا حکم تجھکو
یاد نہیں رہا جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ دودھ میں کوئی شخص پانی نہ ملائے
۔ماں نے کہا امیر المو ¿منین یہاں دیکھنے نہیں آئیں گے پانی ملا دے ۔لڑکی
نے کہا کہ ایسا نہیں کر سکتی کہ خلیفہ کے سامنے اطاعت کا اقرار اور پیٹھ
پیچھے ان کی نافرمانی ۔اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سالم رضی
اللہ عنہ تھے ۔آپ نے ان سے فرمایا کہ اس گھر کو یاد رکھو اور صبح کے وقت
حالات معلوم کر کے مجھے بتاﺅ ۔حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے دربار خلافت میں
رپورٹ پیش کی کہ لڑکی بہت نیک جواں اور بیوہ ہے ۔کوئی مرد ان کا سرپرست
نہیں ہے ماں بے سہارا ہے ۔آپ نے اسی وقت اپنے سب لڑکوں کو بلاکر فرمایا کہ
تم میں سے جو چاہے اس لڑکی سے نکاح کر لے ۔تو حضرت عاصم رضی اللہ عنہ تیار
ہو گئے ۔آپ نے اس بیوہ لڑکی کو بلاکر حضرت عاصم رضی اللہ عنہ سے عقد کر کے
اپنی بہو بنا لیا ۔(عشرہ مبشرہ)
معزز قارئین !آج کے حکمران ملک و قوم کے سرمایہ پر عیاشی کے ریکارڈتوڑ دیتے
ہیں ۔ضرورت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اصولِ حکمرانی کو اپنایا
جائے۔
عقیدہ سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ وسیلہ:آپ کے زمانہ خلافت میں ایک بار
زبر دست قحط پڑا ۔آپ نے بارش طلب کرنے کے لئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے
ساتھ نماز استسقاءادا فرمائی ۔حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور اس کو بلند کر کے اس
طرح بارگاہ الہٰی میں دعا کی۔ا الہٰ العالمین !ہم تیرے نبی ﷺ کے چچا کو
وسیلہ بنا کر تیری بارگاہ میں عرض کرتے ہیں قحط اور خشک سالی کو ختم فرمادے
اور ہم پر رحمت والی بارش نازل فرما۔یہ دعامانگ کر ابھی آپ واپس بھی نہیں
ہوئے تھے کہ بارش شروع ہو گئی اور کئی روز تک مسلسل ہوتی رہی۔(تاریخ
الخلفاءص90)
معلوم ہوا کہ حضور ﷺ سے نسبت رکھنے والوں کو اپنی کسی حاجت کے لئے وسیلہ
بنانا شرک نہیں ہے بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طریقہ اور ان کی سنت ہے
اور حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے علیکم بسنتی وسنة الخلفاءالراشدین۔میری اور
خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرو۔(مشکوٰة شریف ص30)
آپ کی شہادت:بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ الہٰی
میں دعا کی اللّٰھم ارزقنی شھادة فی سبیلک واجعل موتی فی بلدرسولک ۔یا اللہ
!مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے موت نصیب
فرما۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ رضی
اللہ عنہ کے مجوسی غلام ابو لُولُوہ نے آپ سے شکایت کی کہ اس کے آقا حضرت
مغیرہ روزانہ اس سے چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرادیجئے ۔آپ نے
فرمایا کہ تم لوہار اور بڑھی کا کام خوب اچھی طرح جانتے ہو اور نقاشی بھی
بہت عمدہ کرتے ہو تو چار درہم یومیہ تمہارے اوپر زیادہ نہیں ہیں ۔اس جواب
کو سن کر وہ غصہ سے تلملاتا ہوا واپس چلا گیا ۔کچھ دنوں کے بعد حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے اسے پھر بلایا اور فرمایا کہ تو کہتا تھا کہ ”اگر آپ کہیں
تو میں ایسی چکی تیار کردوں جو ہوا سے چلے“ اس نے تیور بدل کر کہا کہ ہاں
میں آپ کے لئے ایسی چکی تیار کردوں گا کہ جس کا لوگ ہمیشہ ذکر کیا کریں گے
۔جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ لڑکا مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے
۔مگر آپ نے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ابو لُولُوہ غلام نے آپ کے قتل
کا پختہ ارادہ کر لیا ۔ایک خنجر پر دھار لگائی اور اس کو زہر میں بجھا کر
اپنے پاس رکھ لیا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کے لئے مسجد نبوی میں
تشریف لے گئے اور ان کا طریقہ تھا کہ وہ تکبیر تحریمہ سے پہلے فرمایا کرتے
تھے کہ صفیں سیدھی کر لو ۔یہ سن کر ابو لُولُوہ آپ کے بالکل قریب صف میں
آکر کھڑا ہو گیا اور پھر آپ کے کندھے اور پہلو پر خنجر سے دو وار کئےے جس
سے آپ گر پڑے ۔اس کے بعد اس نے اور نمازیوں پر حملہ کر کے تیرہ آدمیوں کو
زخمی کر دیا جن میں سے بعد میں چھ افرادکا انتقال ہوگیا ۔جس وقت وہ لوگوں
کو زخمی کررہا تھا ایک عراقی نے اس پر کپڑا ڈال دیا اور جب وہ اس کپڑے میں
الجھ گیا تو اس نے اسی وقت خود کشی کر لی۔
چونکہ اب سورج نکلنا ہی چاہتا تھا اس لئے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ
عنہ نے دو مختصر سورتوں کے ساتھ نماز پڑھائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو
آپکے مکان پر لائے ۔پہلے آپ کونبیز پلائی گئی جو زخموں کے راستے سے باہر
نکل گئی پھر دودھ پلایا گیا مگر وہ بھی زخموں سے باہر نکل گیا کسی شخص نے
آپ سے کہا کہ آپ اپنے فرزند عبد اللہ کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیں ۔آپ نے
اس کو جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں غارت کرے۔مجھے ایسا غلط مشورہ دے رہے
ہو۔جسے اپنی بیوی کو صحیح طریقہ سے طلاق دینے کا بھی سلیقہ نہ ہو کیا میں
ایسے شخص کو خلیفہ مقرر کردوں؟ پھر آپ نے حضرت عثمان ،حضرت علی ،حضرت طلحہ
،حضرت زبیر ،حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد رضی اللہ عنہم کی انتخاب
خلیفہ کےلئے ایک کمیٹی بنا دی اور فرمایا کہ ان ہی میں سے کسی کو خلیفہ
مقرر کیا جائے ۔
اس کے بعد آپ نے اپنے صاحبزادہ حضرت عبد اللہ سے فرمایا کہ بتاﺅ ہم پر کتنا
قرض ہے ۔انہوں نے حساب کر کے بتایا کہ تقریباً چھیاسی ہزار قرض ہے ۔آپ نے
فرمایا کہ یہ رقم ہمارے مال سے ادا کر دینا اور اگر اس سے پورا نہ ہوتو بنو
عدی سے مانگنا اور اگر ان سے بھی پورا نہ ہو تو قریش سے لینا ۔پھر آپ نے
فرمایا جاﺅ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کہو کہ عمر اپنے دونوں دوستوں کے
پاس دفن ہونے کی اجازت چاہتا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر ام المومنین حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور اپنے باپ کی خواہش کو ظاہر کیا ۔انہوں
نے فرمایا کہ یہ جگہ تو میں نے اپنے لئے محفوظ کر رکھی تھی مگر میں آج اپنی
ذات پر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ )کو ترجیح دیتی ہوں ۔جب آپ کو یہ خبر ملی تو
آپ نے خدا کا شکر ادا کیا۔
26ذوالحجہ 23ھ بدھ کے دن آپ زخمی ہوئے اور تین دن بعد دس برس چھ ماہ چار دن
امور خلافت کو انجام دے کر 63سال کی عمر میں وفات پائی۔
وہ عمر جس کے اعدا پہ شیدا سقر
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام
ترجمان نبی ہم زبان نبی
جان شان عدالت پہ لاکھوں سلام
معزز قارئین کرام:انتخاب مصطفےٰﷺ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
اسلام و بانی اسلام کے سچے شیدائی تھے ۔اشاعت اسلام کے لئے آپ کی خدمات
تاریخ کا سنہرا باب ہیں ۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت و کردار کو
پڑھ کر غیروں نے کہا اگر ایک عمر اور ہوتا یا اس عمر کی اتنی عمر اور ہو
جاتی تو دنیا میں سوائے اسلام کے دوسرا کوئی مذہب نہ ہوتا۔
آج کے اسلامی حکمرانوں کے لئے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک
ایک پہلو مشعل راہ ہے ۔پہلوئے رسول ﷺ میں آرام کرنے والے باکمال خلیفة
المسلمین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے چند سالوں میں
دنیائے اسلام کا نقشہ بدل دیا ۔اصلاحات کا یہ عالم تھا کہ پولیس ، ڈاک
،سرائیں ،شاہرات سمیت ایسے ایسے انقلابی اقدام فرمائے کہ تا قیامت ان
اقدامات کے بغیر نظام حکومت و معاشرت چلانا ناممکن ہے ۔حکومت پاکستان آپ کے
یوم شہادت پر سرکاری تعطیل کے ساتھ ساتھ اُن کے مجاہدانہ کردار کو شامل
نصاب کرے۔ |