سقو ط بغداد اور عثمانی خلافت کے
بکھرنے کے بعد سقوط ڈھاکہ ایسا روح فرسا اور دل شکن واقعہ ہے جس کی یاد
تازہ ہوتے ہی نہ صرف محب وطن پاکستانیوں بلکہ اہل اسلام کی آنکھوں میں
آنسوآجاتے ہیں بدن ٹوٹنے لگتاہے اوردل میں درد کی ٹیسیں اُٹھتی ہیں۔اس
اندوہناک واقعے کی تصویر کا ایک رخ اگر ہماری فوجی و سیاسی قیادت کی نااہلی
‘ناعاقبت اندیشی‘انا پرستی ظاہر کرتا ہے تو تصویر کا دوسرا رُخ حلیف نما
دشمنوں کا تعین کرتا ہے ۔لیکن آج تلک واقعہ کے اصل محرکات و مجرم کا تعین
کھٹائی میں پڑا دکھائی دیتاہے۔قیام پاکستان کے بعد چاہیئے تو یہ تھا کہ ہم
اس خطہ وطن کو اسلامی فلاحی و جمہوری مملکت کے روپ میں ڈھالتے مگر ہم نے اس
جانب کوئی خصوصی توجہ ہی نہ دی اور جس کسی نے دی اسے رجعت پسند‘پاگل دیوانہ
کہہ کر دھتکار دیا گیا۔اور عصر ِحاضر میں بھی اس کی کوئی صورت نہیں نظر آتی
۔تبھی تو ایک پرجوش جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے فخرسے
کہاتھا”ہم نے نظریے پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا“۔ہماری قوم و
دانشوروں کی عجیب منطق ہے جب اس وطن کے آئین کی بات ہوتی ہے تو نظریے
پاکستان کے علمبردار کہتے ہیں کہ قائداعظم کا پاکستان مکمل اسلامی ہونا
چاہیئے اور مخالفین دلائل دیتے ہیں کہ قائد آزاد خیال تھے۔ارے بھائی یہ
اللہ کے بندوں اور اُس کے رسولﷺ کی امت کا پاکستان ہے قائد کو ہمیں وہاں تک
followکرنا ہے جہاں تک اسلام اجازت دیتاہے قصہ ختم۔ہم اسلام کے نام پر
اکھٹے ہوئے تھے جب وہ جذبہ رخصت ہوا تو ساتھ ہی متحدہ پاکستان کا اتحاد بھی
رخصت ہو گیا۔اور باقی کے پاکستان کو بچانے کا بھی ایک ہی حل ہے کلمہ طیبہ
بس!
اب ہم ذرا سرنڈر کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں ۔قائداعظم کی شب وروز کی محنت
اور شہید وں کے لہو سے قیام میں آنے والے پاکستان کے 90ہزار فوجی سولہ
دسمبر 1971کو سرنڈر کرنے کی بناءپر دشمن کی قید میں چلے گئے۔جرنل نیازی تو
بعد میں کہتے رہے کہ وہ نوے ہزار فوجیوں کی جانیں بچالائے اور ہزاروں
عورتوں کو بیوگی سے بچایا اور لاکھوں بچوں کو یتیمی کے سائے تلے پلنے سے
بھی بال بال بچایالیکن اس رقت آمیز مناظر کو ہم کیا کہیں گے جس پر تاریخ
اسلام قیامت تک شرمندہ رہے گی ۔جس پر ایک بنگالی پاکستانی نے اس ذلت آمیز
تقریب میں نیازی کو جوتا مار کر کہا اس سے تو اچھے تھا تم مر جاتے ۔تاریخ
اسلام میں 16دسمبر 1971سے بڑا کوئی سرنڈرنظر نہیں آتا۔اسلام کے بنیادی سپہ
سالاروں نے تو ایک ہی سبق دیا تھا کہ ”واپسی کی کشتیاں جلادو“یعنی جنگ کا
حاصل فتح ہو یا شہادت ۔مخالف سراسر باطل کا پیروکار ‘مشرک ہو یا وقت کا
جابر حکمران سرنڈر کا ذکر کہیں نہیں ملتا تاریخ کربلا گواہ ہے۔دنیا کے سب
سے بڑے سرنڈرکا اعزاز جاپان کے پاس ہے جس کی72 لاکھ فضائی اور بری افواج نے
دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ہتھیار پھینک دیئے
تھے۔لیکن جاپان کے وزیرجنگ انامی کورے چیکا نے ویسی زندگی منتخب نہ کی جیسی
ٹائیگر نیازی نے کی تھی اس کا تذکرہ آگے چل کر کریں گے۔اس سے قبل 15فروری
1942کو ملایا اور سنگاپور کے بارڈر پر برطانیہ کے جرنیل پرسیول نے جاپانی
جرنیل یاماشیتا کے سامنے اپنی ایک لاکھ تیس ہزار سپاہ کے ساتھ ہتھیار ڈال
دیئے تھے۔اوراس سے پہلے سقوط اندلس کا دل اندوز واقعہ 2جنوری 1492کو پیش
آیا اور مسلمانوں کا آٹھ صدیوں پر محیط حکمرانی کا دور اپنے اختتام کو
پہنچا۔آٹھ سو سال بعد یہ پہلی شام تھی جب اندلس نے مغرب کی اذان کے بجائے
لٹتی عفتوں اور زخمیوں بچوں اور بوڑھوں کی گلوگیر چیخیں سنیں۔اور دوسری
جانب بے حمیت حکمران ٹولہ ابو عبداللہ(بادشاہ وقت) کی سربراہی میں زرق برق
لباس پہنے ملکہ ازبیلہ اور شہنشاہ فرڈی ننڈس کو جب غرناطہ کی چابیاں پیش کر
رہاتھا تو ابوعبداللہ کے آنکھوں سے شدت غم کے باعث آنسو بہہ نکلے اس موقعہ
پر ابوعبداللہ کی ماں نے وہ الفاظ کہے جو تاریخ نے ہمیشہ کیلئے اپنے سینے
میں محفوظ کرلیئے انہوں نے کہا”اگربہادروں کی طرح لڑکر سلطنت نہیں بچاسکے
تو اب بزدلوں کی مانند آنسوکیوں بہاتے ہو“۔سچا اور جھوٹا تو خدا جانے
مگرافسوس کے جرنل نیازی کی آنکھ سے ایک آنسوبھی نہ ٹپکا۔
یحی خان اور جرنیلوں کی نااہلی کے ساتھ ساتھ برسوں پر محیط سماجی ‘اقتصادی
اور معاشی ناانصافی بھی اس واقعہ کی اہم وجہ بنے۔مزید مغربی پاکستان کے
جاگیردار طبقہ اورمتحدہ پاکستان کی افواج میں بنگالی فوجی افسروں کی کمی نے
بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔مغربی پاکستان کے سیاسی افق پر ابتداءہی سے
جاگیرداری کی چھاپ تھی جب کے اسکے برعکس مشرقی پاکستان کی نمائندگی کرنے
والوں میں ایڈووکیٹ ‘اساتذہ اور ریٹائرد گورنمنٹ افسر شامل تھے۔متحدہ
پاکستان کی دوسری دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان کے 29ارکان میں سے
20وکیل اور 9ریٹائرڈ ملازم تھے جبکہ مغربی پاکستان کی نمائندگی کرنے والے
40ارکان میں سے 28جاگیردارتھے۔سیاست کے آسمان پر پھیلے اس تفاوت نے بھی
اتحاد کو نقصان پہنچایا۔”1955تک مشرقی پاکستان میں 62ائیرفورس
آفیسرز‘14آرمی آفیسر اور سات نیوی آفیسر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے
تھے۔نیز10جوائنٹ سیکڑیز کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا۔جبکہ مشرقی
پاکستان میں موجود زیادہ ترسول اور فوجی افسران کا تعلق مغربی پاکستان کے
مختلف علاقوں سے تھا۔1965تک مشرقی پاکستان سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کی
شرح 60فیصد تک جاپہنچی جس سے مشرقی پاکستان کے لوگوں میں یہ تاثر پھیل
گیا(یا پھیلایا گیا)کہ ان کی آمدنی پر مغربی پاکستان کے لوگ ہاتھ صاف کر
جاتے ہیں۔نیز قومی سطح کے منصوبوںسے بنگالیوں کو دور رکھنا بھی اسکا اہم
سبب بنا۔اور پھر 1971کے الیکشن نے اسوقت آگ لگادی جب مشرقی پاکستان کی
165میں سے 160نشستیں جیت جانے کے بعد بھی مجیب الرحمن کو حکومت نہ بنانے دی
گئی“(اقتباس کیمرج یونیورسٹی رپورٹ زیر ادارت فرانس روبنس کیمرج
انسائیکلوپیڈیابرائے انڈیا)۔
اردو اور بنگالی تنازعہ کا ذکر نہ کیا جائے تو شاید یہ موضوع ہی تشنہ رہ
جائے ۔قائد اعظم کے قولوں نے بنگالی زبان کے تنازعے کو دبا دیا مگر1952میں
جب مرکزی حکومت کو بنگالی زبان کیلئے عربی رسم الحظ اختیار کرنے کی سوجھی
تو اس مسلئہ نے پھر سر اٹھایا اور پھر رفتہ رفتہ یہ مکتی باہنی کا ہتھیار
خاص بن گیا جو بنگالیوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ آزاد ہوجاﺅ
وگرنہ تمہاری ثقافت و وجود مٹ جائے گا۔الغر ض 16دسمبر 1971کو لاکھوںشہدائے
14اگست 1947کی قبروں کو روند کر بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔بنگلہ دیش
میں آج بھی متحدہ پاکستان کے حامی اور تحریک بھی موجود ہے مگر افسوس ہماری
سیاسی پارٹیاں بنگال کو کیا اپنائیں گی ایک بار پھر 1971کے لقمے کے لقمانوں
کی مانند پاکستان کی سیاسی واقتصادی ابتری کی خبر لینے کے بجائے محض لقمے
کے چکر میں ہیں ۔اور آج بھی پاکستان کے تین صوبوں میں مکتی باہنی طرز کی
تحاریک متحرک ہیں مگر ۔۔۔
اب آخرمیں انامی کورے چیکااور نیازی کے انٹرویوکے الفاظ کوٹ کرنا چاہوں
گا۔کورے چیکا سرنڈر کے سخت مخالف تھے مگر جاپانی شہنشاہ کی اطاعت بجالاتے
ہوئے انہوں نے 14اگست 1945کو کابینہ کے اجلاس میں سرنڈر کی دستاویزات پر
سائن کر دیئے ۔اور اگلے ہی دن خود کشی کرکے ذلت اور دردوکرب کی زندگی سے
جان چھڑالی۔بہتر تو یہ تھا کہ ٹائیگرنیازی بھی لڑتے ہوئے جان دے دیتے لیکن
ان پر سراسر الزام تھوپنے کے بجائے کچھ ان کی بھی سن لیں۔ اسرار بخاری کی
جانب سے کیئے گئے اس سوال کے جواب میں کہ جب 16دسمبر آتا ہے تو آپ کیا
سوچتے ہیں؟؟جرنل نیازی نے کہا”کیا سوچتاہوں دل کرتاہے یحی اور بھٹو کوقبروں
سے نکال کر جوتے لگاﺅں“پھر جذبات کے بھنور میں آکر مزیدپردہ چاک کرنے لگے
اور کہا”میں غدار ہوں تو میرا کورٹ مارشل کیوں نہیں کرتے‘سقوط ڈھاکہ کا ذمہ
دار میں ہوں تومیرے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلاتے‘مجھے یحی(متحدہ پاکستان کے
صدر)کا پیغام ملا تھاہتھیار نہ ڈالے تو مغربی پاکستان بھی چلا جائے گا“۔سچ
و جھوٹ کے اُڑتے غبار میں اب بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ سچا کون تھا اور
جھوٹ کا پیامبر کون؟لیکن حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ اس سلسلے میں حقائق
عوام کے سامنے لائے اور اسے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔مزید عرض یہ ہے حکومت
کی جانب سے یہ حکم نامہ جاری کیا جائے کہ سولہ دسمبر کو تمام نجی وسرکاری
تعلیمی اداروں میں سقوط مشرق پاکستان کے حوالے سے تقاریر ‘بحث مباحثے کیئے
جائیں تاکہ قوم اپنی بنیاد کو سمجھ سکے اور اپنے دامن میں چھپے غداروں کو
بھی۔
ہمیں اگر سقوط ڈھاکہ جیسے مزید کسی المیہ سے بچنا ہے تو ایک محب وطن قوم بن
کر چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کا عزم لے کر میدان عمل میں
کوشاں ہونا ہو گا۔ان الفاظ پر تحریر کا خاتمہ کرتاہوں کہ اگرکسی اخبارنے
امن کی آشا کا سلسلہ شروع کیا ہے تواسے لعن وطعن کرنے کے بجائے دوسرے اخبار
بنگلہ دیش سے بھی” پیام محبت “کے نام سے سلسلہ شروع کر سکتے ہیں چاہے نام
کچھ بھی رکھیں آغاز توکیجئے۔آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ ڈھاکہ کس نے
جلایا؟؟؟ |