نڈر ، بے خوف ، بے باک اور
انتہائی جذباتی مخدوم جاوید ہاشمی کی نواز لیگ سے 24 سالہ رفاقت با لآخر
اپنے اختتام کو پہنچی۔کتنے کربناک ہوں گے وہ لمحے جب ملتان کے ایک مخدوم نے
اپنے ازلی و ابدی حریف ایک دوسرے مخدوم سے ہاتھ ملایا ہو گا اور کتنی شرم
کی بات ہے نواز لیگ کے لئے جس نے اپنا ایک ایسا ساتھی کھو دیا جس نے مشرف
کے دورِ آمریت میں بھی نہ صرف نواز لیگ کو زندہ رکھا بلکہ قوم کو آمر کے
سامنے ڈٹ جانے کا سلیقہ بخشا۔مشرف نے اسے خریدنا چاہا ، وہ بکانہیں ،آئی۔ایس۔آئی
و ”فائل“ کھولنے کے لئے کہا ، کچھ مِلا نہیں ۔جھُکانے کے لئے حوالہ زنداں
کیا لیکن مشرف نہیں جانتا تھا کہ وہ پسِ دیوارِ زنداں ایسے شخص کو بھیج رہا
ہے جسے صرف ایک ہی سبق یاد ہے کہ
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جان کی کوئی بات نہں
جیل سے ”ہاں میں باغی ہوں“ جیسے قلندرانہ نعرے لگاتا ہوا باہر آیا ، قوم نے
سر آنکھوں پہ بٹھایا لیکن اپنوں نے سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا ۔ کچھ اس کی
مقبولیت سے خوفزدہ ہو گئے تو کچھ بے باکی سے ۔ پارٹی میٹنگز میں اُس کی
آواز ہمیشہ ”صدالصحرا“ ثابت ہوتی رہی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ صرف وہی سچّا
تھا ۔اس نے مرکزی کابینہ میں شمولیت کی شدید مخالفت کی لیکن نواز لیگ کے
بقراطوں نے پرواہ نہ کی ۔جب نواز لیگ پتھر چاٹ کے پلٹی تو بجائے قربانیوں
کی لازوال داستانیں رقم کرنے والے جاوید ہاشمی کے چوہدری نثار کو قائدِ حزبِ
اختلاف بنا دیا گیا ۔ہاشمی صاحب فعال اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لئے زور
لگاتے رہے لیکن جماعت کے اندر بیٹھے افلاطونی سیاست دانوں کو ”فرینڈلی
اپوزیشن“ میں عافیت نظر آتی رہی ۔اپنی بربادیوں کا سامان کرنے والی نواز
لیگ کو ہوش اس وقت آیا جب پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چُکا تھا۔اب
محترم پرویز رشید فرماتے ہیں کہ ”پتہ نہیں ہاشمی صاحب نے کن تحفظات کی بنا
پر پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا“ ۔پرویز رشید صاحب مشرف کی بغاوت کے موقع پر
آرام سے گھر میں استراحت فرمانے والے چوہدری نثار اور قُربانیاں دینے والے
جاوید ہاشمی کا فرق سمجھ میں آ جائے تو پھر یقیناََ انہیں ”تحفظات“ کی سمجھ
بھی آ جائے گی اور وہ اس حیرت کدے سے باہر نکل آئیں گے ۔پرویز رشید صاحب نے
یہ بھی فرمایا ہے کہ ”ہر شخص کو فیصلہ کرنے کا اختیارہے“ بجا ارشاد لیکن
کیا جاوید ہاشمی جیسے لوگ یونہی بیٹھے بٹھائے فیصلے کر لیا کرتے ہیں۔؟اور
کیا اس میں پارٹی قیادت اور اُس کی پالیسیوں کا کوئی عمل دخل نہیں
ہوتا؟پرویز صاحب ! اگر مخلص لوگ یونہی بد دل ہوتے رہے تو پھر
دیکھناان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
ہاشمی صاحب کا ن لیگ جانا تو خیر طے تھا لیکن تحریکِ انصاف؟ کیا ہاشمی صاحب
مشرف کے کاسہ لیسوں کے درمیان سکون سے رہ پائیں گے؟۔انتہائی با خبر حامد
میر کہتے ہیں کہ ”سونامی“ فوج کے کندھوں پہ سوار ہو کے آ رہا ہے ۔تو کیا اب
دبنگ ہاشمی فوج کے کندھوں پر بیٹھ کے میدان میں اترے گا؟ ۔ میں تو جس ہاشمی
کو یونیورسٹی کے زمانے سے جانتی ہوں وہ تو ہار ماننے والا نہیں تھا ۔مانا
کہ وہ بیمار تھا مگر جذبہ تو جوان تھا ۔ہاشمی کہتے ہیں کہ میں نے بد دِل ہو
کر سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔کاش کہ وہ ایسا ہی کرتے یا پھر اپنی
پارٹی بنا لیتے ۔تحقیق کہ اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو کوئی
سیاست دان اس کی گردِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔بہرحال پی۔ٹی۔آئی کو مبارک
ہو کہ اب واقعی قومی درد کا حامل ایک شخص ان کی صفوں میں بھی آ گیا ۔
میرے کچھ مہربان یہ طعنہ دیتے ہیں کہ میں PTI کی مخالف ہوں ۔ بہ ربِّ کعبہ
ایسا ہر گزنہیں ہے ۔میرا کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ کبھی بھی کوئی رابطہ
نہیں رہا اور نہ ہی رابطے کی تمنّا ۔میں اپنے کالموں میں نواز لیگ اور
پی۔پی۔پی پر کڑی تنقیدبھی کرتی رہی ہوں اور اچھّے کاموں کی کھُل کر تعریف
بھی ۔کاسہ لیسی میری سرشت میں نہیں اور مداحی و مداہنت سے نفرت ۔میں جو کچھ
دیکھتی ہوں اسے اپنی فہم کے مطابق لکھ دیتی ہوں۔میرا تجزیہ درست بھی ہو
سکتا ہے اور سرے سے غلط بھی لیکن صحت مند تنقید وہ ہوتی ہے جس میں جذبہ
تعمیر مضمر ہو ۔ محض کج بحثی سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ، نہ ملک کا ، نہ
قوم کا ۔ اگر ہم اپنی اپنی پارٹیوں کے بند خول توڑ کر باہر نکلتے اور اپنے
راہبروں کا کڑا احتساب کرتے تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ لیکن ہمارا
المیہ تو یہ ہے کہ ہم ہمیشہ دلکش اور دِل پذیر نعروں کی بھینٹ چڑھتے آئے
ہیں ، راہبروں کے قول و فعل کو کبھی مدِ نظر نہیں رکھا ۔عمران خاں کے منٹو
پارک کے کامیاب ترین جلسے تک میں نے بھی PTI سے بہت سی توقعات وابستہ کر
رکھی تھیں کیوں کہ اس وقت تک خاں صاحب کا ایک ہی نعرہ تھا کہ وہ نئے پاکیزہ
چہروں کے ساتھ انقلاب لائیں گے لیکن پھر خاں صاحب نے اچانک انہی گھِسے پٹے
آزمودہ چہروں کو ساتھ ملانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمانے لگے کہ
ٹکٹ ہولڈروں کی اکثریت پاکیزہ لوگوں پر مشتمل ہو گی لیکن سبھی نہیں، کچھ
بُرے بھی ہوں گے ۔اور آج کل یو ٹرن لیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ میں آسمان سے
فرشتے کہاں سے لاؤں ، انہی لوگوں پر گزارہ کرنا پڑے گا ۔کوئی بتلائے کہ ان
کے کس بیان پر اعتبار کروں ؟ پہلے پر یا تیسرے پر ؟ اگر ان کا آخری بیان
حتمی سمجھ لیا جائے تو پھر پی۔ٹی۔آئی ہی کیوں ؟ ن،ق لیگ یا پی۔پی۔پی کیوں
نہیں کہ ڈال ڈال پھُدکنے والے یہ لوگ انہی سیاسی پارٹیوں کی پیداوار ہی تو
ہیں ؟ان میں کون ہے جس نے کبھی حق کا ساتھ دیا ہو؟ تحقیق کہ ایسے لوگوں کی
شمولیت سے PTI کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے آ گیا ہے ۔اگر خاں صاحب اکیلے
میدان میں ڈٹے رہتے تو لوگ دیوانہ اور پروانہ وار PTI کو ووٹ دے کر بڑے بڑے
بُرج الٹ دیتے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے جیالوں نے اُلٹے تھے ۔وہ جیالے
جن کی سرے سے کوئی سیاسی شناخت ہی نہیں تھی انہوں نے سارے پُرانے پاپیوں کو
ملیا میٹ کرکے رکھ دیا لیکن اب عاشقانِ PTI کو یہ تلخ حقیقت تسلیم کر لینی
چاہیے کہ PTI دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح محض ایک سیاسی پارٹی ہے ، کرسی کی
دوڑ میں شامل ایک پارٹی ۔ پہلے یہ ”خاندانِ سیاست“ تین حصّوں میں منقسم تھا
اب چار ہو گئے ۔اب الیکشن ہوں نہ ہوں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہونا بہرحال وہی
کچھ ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ۔پہلے PPP، نواز لیگ ، پھر ق لیگ اور اب
شاید عمران لیگ یا آمر لیگ ۔پتہ نہیں یہ قوم کب تک الیکشن الیکشن کھیل کر
اپنی بربادی کا سامان کرتی رہے گی ؟پتہ نہیں یہ کب اپنے خول سے باہر نکلے
گی؟ پتہ نہیں یہ کب راہبروں اور راہزنوں میں تمیز کرے گی ؟پتہ نہیں یہ کب
سارے نقشِ کُہن مٹا نے کا فیصلہ کرے گی ؟پتہ نہیں ۔۔۔۔ پتہ نہیں ۔۔۔۔ |