انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت کا
مظہر ہے۔ چشم فلک نے ایسی ایسی نابغہ روزگار شخصیات کا نظارہ کیا ہے جو
اپنے وجود میں ایک کائنات کو سموئے ہوئے تھیں اور اشرف مخلوقات کا سر کا
جھومر تھیں۔ ذہانت و فطانت اخلاقیات و احساسات، مروت و ہمدردی، شرافت و
متانت سے مرقع یہ انسان ہی ملائکہ کے لئے باعث تحیر تھا۔ انسانی تاریخ کے
بڑے بڑے نام ان ہی صفات عالیہ سے متصف اور مزین ہیں جو بڑی محنت اور جہد
مسلسل کے بعد اپنے مقصد کو حاصل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے لوگ
بھی اس دنیا میں آئے جو عطاءرب کریم تھے۔ انہوں نے تھوڑے سے وقت میں بہت
بڑے کام کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا۔ تاریخ کے طالب علم کے لئے
یہ بات تو نئی نہیں کیونکہ آئمہ حدیث و فقہ و علماءعلوم و فنون کے صلاحیتیں
اور فہم و ذکاوت اس کے سامنے روشن ہے لیکن آج کے دور میں ایسی ذہانت و
ذکاوت، اخلاق حسنہ اور اوصاف عالیہ سے متصف ارفع اور اس جیسے انسان ہمارے
لئے یقیناً عطیہ خداوندی ہیں۔
فیصل آباد کے دور افتادہ گاؤں رام دیوالی کے مکین کرنل امجد کریم رندھاوا
کے گھر میں 2 فروری 1995ء کو آنکھ کھولنے والی ارفع کریم غیر معمولی
صلاحیتوں کی مالک تھی، وہ ان عظیم لوگوں میں سے تھی جو بہت کم وقت کے لئے
اس دنیا میں آئے ہیں لیکن وہ صدیوں کے کام برسوں میں کر جاتے ہیں جو اپنے
عمل سے انسانیت کو ایک نئی دنیا کا رخ دے جاتے ہیں۔ ارفع کریم صغیر سنی میں
ہی جو بات بھی ایک بار سنتی اس کو محفوظ کر لیتی۔ ارفع کے والدین نے اپنی
بیٹی کی صلاحیتوں کو ابتداءہی سے جانچ لیا تھا جب ارفع تین سال کی ہوئی تو
اسکول جانا شروع کر دیا اس کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آنے لگیں۔ بہت جلد اس
کا شمار اسکول کے نمایاں طلبہ میں ہونے لگا۔ ارفع نے تیزی سے اپنے سفر کو
جاری رکھا یہاں تک کہ اس نے نو برس کی عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ
پروفیشنل بن کر آئی ٹی کے میدان میں ایک نمایاں مقام بنا لیا آئی ٹی کی
دنیا کے لارڈ یعنی بل گیٹس سے 10 منٹ تک ملاقات کر کے دنیا کو ورطہ حیرت
میں ڈال دیا۔ اس ملاقات کے دوران ارفع نے بل گیٹس کے سوالات کے جوابات دینے
کے ساتھ ساتھ اپنی لکھی ہوئی ایک انگریزی نظم بھی سنائی جو بل گیٹس کے
متعلق ہی لکھی تھی۔ 2005ءمیں سب سے کم عمر بچی کی حیثیت سے صدارتی تمغہ حسن
کارکردگی حاصل کیا۔ ارفع نے کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام
کروائے جن میں فاطمہ جناح گولڈ میڈل، اسلام پاکستان ایوارڈ، میڈلز اور
تعریفی اسناد شامل ہیں۔
لیکن ارفع کی زندگی میں ایک فکر، ایک سوچ اور ایک عزم غالب تھا۔ وہ تعمیری
ذہنیت کی حامل ایک عبقری شخصیت تھی۔ وہ پاکستانی قوم کے لئے تعلیمی کی شمع
روشن کرنا چاہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ہمارے پرائمری لیول کے اسکول سے ہی
بچوں کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ وہ پاکستان
میں بین الاقوامی سطح کی آئی ٹی سوسائیٹیز بنانا چاہتی تھی۔ ارفع کے اندر
ایک عظیم انسان چھپا ہوا تھا وہ معاشرے میں استاد و درسگاہ کا تقدس چاہتی
تھی۔ اسے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شاعری کے قلبی لگاؤ تھا۔ علامہ کی
فلسفیانہ اور صوفیانہ کلام پر وہ مختلف سوالات کرتی تھی۔ خود بھی شاعرہ تھی
انگلش اور اردو زبان میں شاعری بھی کی جن میں 19 انگریزی زبان اور دو اردو
زبان میں نظمیں لکھیں۔جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
White Rose, Clueless, Burned, Fallen tear, Happy Birthday, Home Time,
How to stay plitecal, Mid-Autumn rain, Mr. Bill Gates, I would like to
be ....., My Mom, My Sister, Sirens Song, Show Angels,What is a Friend?
The Power of A Poet, The Ghost, Symphony of the Sea, Stars.اے حضرت انساں
ارفع کریم مرحومہ کے اشعار سے اس لئے افکار و خیالات کی گیرائی اور گہرائی
کا علم ہوتا ہے۔رب کریم نے ارفع کریم کو حسن صوت بھی عطا فرمائی تھی۔ نعت و
نغمہ احسن انداز میں پیش کرتی تھی۔ ان تمام صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ جو چیز
سب سے زیادہ حیران کن ہے وہ ارفع کے اچھے اخلاق ہیں۔ عموماً جن لوگوں کو اس
طرح کی عزت افزائی اور اعزازات مل جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو کوئی نئی مخلوق
تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرے لوگوں سے اپنے فاصلے بڑھا لیتے ہیں مگر
ارفع کریم ان تمام چیزوں سے دور تھی وہ اپنے تمام دوستوں اور کلاس فیلوز کے
ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئی۔ ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کرتی تھی۔ ہر وقت
مسکراتے چہرے کے ساتھ دوسروں سے گفتگو کرتی تھی۔ ارفع نے اپنی عزت افزائی
اور صلاحیتوں کو قوم کی ترقی کے لئے وقف کر دیا تھا۔ وہ اپنی اس سالگرہ پر
قوم کو ناسا کے نئے ماڈل کا تحفہ دینا چاہتی تھی۔ وہ پاکستان کو ترقی یافتہ
قوم کی نظر سے دیکھتی تھی مگر قضا کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ 22 دسمبر
2011ءکو اچانک نہ سمجھ میں آنے والی بیماری کے سبب ہنستی مسکراتی، خوشیوں
کو بکھیرتی ارفع کریم قومے میں چلی گئی۔24 دن تک قومہ میں رہنے کے بعد ارفع
14 جنوری 2012ءکو اپنے رحیم و کریم رب کے پاس چلی گئی۔ انا للہ و انا الیہ
راجعون۔
16 سال 11 ماہ اور 20 دن کی زندگی میں ارفع نے ایسے کارنامے سر انجام دئیے
کہ پاکستانی قوم اس پر فخر کرتی ہے وہ پاکستانی تھی اور پاکستان کا مان
تھی۔ وہ ایشیا کا فخر تھی۔ ارفع کے عزائم وارادوں کو شرمندہ تعبیر کر کے ہم
اس کی روح کو خوش کر سکتے ہیں۔ اور پاکستان کو جدید ترقی یافتہ ملک بنا
سکتے ہیں۔ |