امام جلال الدین رومی ؒایک حکایت
میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک علاقہ میں لوگوں نے ایک قاضی کو مسند نشین کیا
تو وہ رونے لگے۔لوگوں نے کہا یہ مقام مبارک باد کا ہے اور خوشی کا ہے۔اس پر
گریہ اور آہ و بکا کیسی؟وہ کہنے لگے کہ افسوس اس بات کا ہے کہ میں لاعلم
اور ناواقف ہوں۔ جبکہ مدعی اور مدعا علیہ اپنے معاملے کی واقفیت رکھتے
ہیں۔میں اُن کے معاملے سے کلی طور پر لاعلم ہوں۔ میں اُن کے درمیان انصاف
سے فیصلے کیسے کر پاﺅں گا۔ اُن کے نائب نے کہا کہ فریقِ مقدمہ واقف ہیں مگر
غرض رکھتے ہیں۔ آپ ناواقف ہیں مگر بے غرض ہیں۔ان واقف کاروں کو ان کی غرض
نے اندھا کر دیا ہے۔اُن کا علم اُن کی غرض کے نیچے دفن ہو گیا ۔ بے غرضی
ناواقف کو علم والا بنا دیتی ہے۔غرض علم کو کج اور ظالم بنا دیتی ہے۔آپ اگر
رشوت نہ لیں تو آپ بینا ہیں اور اگر لالچ کیا تو آپ بھی اندھے اور نفس کے
غلام بن جائیں گے۔ ہوس اور غرض سے کنارہ کشی ہی سچ کو جھوٹ سے جدا کرنے کا
سبب بن جاتی ہے۔امام رومیؒ حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ غرض اور ہوس
انسان کو اندھا اور کج فہم بنادیتی ہے۔ اور ان سے بچنا ہی انسان کو منصف
اور عادل بناتا ہے۔
قارئین! ہم نے گزشتہ روز FM93ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام”لائیو
ٹاک وِد جنید انصاری“ میں”مسئلہ کشمیر اور عالمی امن“ کے موضوع پر سیرحاصل
گفتگو کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے مہمان برطانوی کونسلر محبوب حسین بھٹی جسٹس
فار پیس، سابق وزیر آزادکشمیر و صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) راجہ فاروق حیدر
خان، سابق چیف جسٹس عبد المجید ملک اور وزیر اعظم آزادکشمیر کے مشیرِ
اطلاعات مرتضیٰ دُرانی تھے۔ایکسپرٹ پینل کے فرائض سینئر صحافی پرنٹ و
الیکٹرانک میڈیا کی غیر جانبدار شخصیت راجہ حبیب اللہ خان اور عزیزی محمد
رفیق مغل نے انجام دیئے۔موضوع پر جب بات کرنا شروع کی تو انکشاف ہوا کہ
محبوب حسین بھٹی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حال ہی میں برطانیہ کے ہاﺅس آف
کامنز میں مسئلہ کشمیر پر بحث کروائی۔ یہ بحث کس طریقے سے کروائی گئی یہ
بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ محبوب حسین بھٹی ٹھارہ ڈڈیال سے تعلق رکھتے ہیں
اور 1966ءمیں وہ برطانیہ چلے گئے۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گریجویشن
کی سند حاصل کی اور دس سال تک سوشل سروس سیکٹر میں کام کیا۔ سن2000ءمیں اُن
کی خدمات کے اعتراف اور کنزرویٹو پارٹی کے لیے اُن کی شبانہ روز محنت کو
تسلیم کرتے ہوئے اُنہیں میئر آف ہائی ویکمب بنایا گیا۔8ماہ کے قلیل ترین
عرصہ میں اُنہیں یہ اعزاز ملا جو اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے۔2005ءمیں
اُنہیں پہلا ڈسٹرکٹ چیئرمین منتخب کیا گیا۔محبوب حسین بھٹی کا ذریعہ معاش
اُن کا ذاتی کاروبار تھا۔ عوامی خدمت اور تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے اُن کی
تڑپ اُنہیں جگہ جگہ سفر کراتی رہی۔انہوں نے کشمیر یورپین فورم تشکیل دیا
اور اُس کے چیئرمین کی حیثیت سے اُنہوں نے دنیا بھر میں تحریکِ آزادی کشمیر
کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ برطانوی انتخابات کے موقع پر ہائی ویکمب سے وہ
ممبر آف پارلیمنٹ بننے کے لیے مضبوط ترین اُمیدوار تھے۔سٹیو بیکر نے ایک
نجی ملاقات میں اُن سے مذاکرات کرتے ہوئے یہ کہا کہ محبوب حسین بھٹی میں یہ
جانتا ہوں کہ ممبر آف پارلیمنٹ کی نشست آپ کی سیاسی زندگی کا مطمعِ نظر ہر
گز نہیں ہے بلکہ آپ تحریکِ آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے برطانوی
پارلیمنٹ کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ
میرے حق میں دستبردار ہو جاتے ہیں تو کشمیر کی آزادی کی آواز میں آپ جتنی
ہی موثر آواز میں برطانوی ہاﺅس آف کامنز کے اندر بلند کروں گا۔ یہ میرا آپ
سے وعدہ ہے۔ شریف النفس محبوب حسین بھٹی نے اپنی نشست قربان کرتے ہوئے سٹیو
بیکر کو ممبر آف پارلیمنٹ بنوا دیا۔یہاں سے کہانی کا اگلا موڑ شروع ہوتا
ہے۔ہاﺅس آف کامنز میں کسی بھی موضوع پر بحث کرنے کے لیے 15ارکان ِ اسمبلی
کے دستخطوں کے ساتھ قرار داد پیش کی جاتی ہے۔ محبوب حسین بھٹی کشمیر کے
مسئلہ کے حوالہ سے قرار داد لے کر سب سے پہلے پاکستانی برطانوی اراکینِ
پارلیمنٹ کے پاس گئے تو انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔اس کی
وجہ کیا ہے یہ سوال ہم قارئین کے ذہنوں میں ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔محبوب
حسین بھٹی سٹیو بیکر کے ہمراہ انگریز پارلیمنٹیرینز کے پاس گئے اور اس قرار
داد پر اُن کے دستخط کروائے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں جب قرارداد کے حوالے سے
خبر باہر نکلی تو بھارتی لابی فوری طور پر حرکت میں آگئی اور سٹیو بیکر کے
موبائل پر کالز کا تانتا بندھ گیا۔محبوب حسین بھٹی نے سٹیو بیکر سے کہا کہ
وہ اپنا فون آف کر دیں اور جب قرار داد پر بحث ہو جائے تو تب اسے آن کیا
جائے۔ آخر کار وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا کہ جب برطانیہ کی جمہوری پارلیمانی
تاریخ کے اندر پہلی مرتبہ ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کے خون سے لکھی
گئی تحریکِ آزادی کشمیر کے متعلق جدو وجہد پر بحث شروع ہو گئی۔ٹیلی
کانفرنسز کے ذریعے سات ارب سے زائد انسانوں سے آباد اس کرہِ ارض کے کونے
کونے پر کشمیر کی آواز جانا شروع ہو گئی۔بھارتی میڈیا سے لے کر اُن کے
حمایتیوں کے اندر صفِ ماتم بچھ گیا۔
قارئین! محبوب حسین بھٹی اُن لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو ذرا ذرا سی لالچ
کے لیے بڑے سے بڑے مشن کو قربان کر دیتے ہیں۔ہمارے پروگرام میں گفتگو کرتے
ہوئے سابق وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ پوری دنیا کا
امن اس وقت مسئلہ کشمیر کے حل سے وابستہ ہے۔ پاکستان اور بھارت دو تسلیم
شدہ ایٹمی قوتیں ہیں۔اگر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عالمی برادری نے اپنا
کردار ادا نہ کیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔کشمیریوں کو میں یہ پیغام دیتا ہوں
کہ کوئی آپ کا ساتھ دے یا نہ دے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی آزادی کی جنگ دنیا
کے ہر فورم پر جاری رکھیں۔ میں محبوب حسین بھٹی کے ذریعے برطانیہ جیسے ملک
کو بھی یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اُنہیں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے
اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔
سابق چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر ہائی کورٹ عبد المجید ملک نے کہا کہ مسئلہ
کشمیر کا حل انتہائی آسان ہے کہ پاکستان اور بھارت یہ دونوں ممالک کشمیر سے
اپنی افواج باہر نکال لیں اور کشمیریوں کو اپنی رائے کے ذریعے یہ فیصلہ
کرنے کا موقع دیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کشمیرکی آزادی کی جدوجہد کو
پہاڑوں، گلیشیئرز، دریاﺅں اور دیگر قدرتی دولت کی جنگ یا سرحدوں کا تنازعہ
قرار دینا ایک کروڑ سے زائد کشمیریوں سے زیادتی ہے۔
وزیر اعظم آزادکشمیر کے مشیرِ اطلاعات مرتضیٰ دُرانی نے پروگرام میں گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ محبوب حسین بھٹی اور سٹیو بیکر سمیت اُن کے دیگر تمام
ساتھی تحریکِ آزادی کشمیر کے لیے جس طریقے سے کام کر رہے ہیں اُس پر وزیر
اعظم آزادکشمیر چوہدری عبد المجید اور اُن کی پوری کابینہ قدر کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں۔کشمیر کی آزادی کے لیے دنیا کے ہر فورم پر کشمیری اپنا کردار
ادا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
قارئین! یہ تو وہ تمام گفتگو ہے جو ہم نے مسئلہ کشمیر اور عالمی امن کے
حوالے سے آپ کے سامنے رکھ دی۔ کشمیر ی کیا چاہتے ہیں یہ جاننا سب سے پہلے
ضروری ہے۔اگر کشمیریوں کی تمناﺅںکو جانے بغیر کوئی بھی فیصلہ کیا گیا تو
یقین جانئے کہ وہ ریت اور پانی پر لکھی ہوئی تحریر ہو گی۔ بقول غالب
آ کہ میری جان کو قرار نہیں ہے
طاقتِ بے دادِ انتظار نہیں ہے
گر یہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالب
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے
قارئین! محبوب حسین بھٹی، سٹیو بیکر، راجہ فاروق حیدر خان، جسٹس عبد المجید
ملک اور مرتضیٰ دُرانی کی گفتگو اور کوششیں اپنی جگہ لیکن ایک لاکھ سے زائد
کشمیری شہدا ءکا خون پکار پکار کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ ہے کوئی
جو ہمارے ناحق قتل پر آکر ہمارے مقدمے میں مدعا علیہ بنے۔کہاں ہیں وہ قاضی
جو غرض سے بےگانہ ہو کر ہمارے قاتلوں کو عالمی عدالت کے اندر کھڑا
کریں۔کشمیر کے نام پر لوگوں نے سیاستیں بھی بہت کی ہیں اور ”ہذامن فضل ربی“
بھی خوب اکٹھا کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تحریک کی جڑ کو سمجھا جائے
اور مفادات سے ہٹ کر سوا کروڑ انسانوں سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ |