وفاق المدارس کی سانحہ لال مسجد رٹ پٹیشن....تازہ صورتحال اور پس منظر

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے ملک کے معروف قانون دان سید افتخار گیلانی کی وساطت سے 2007ءمیں سانحہ لال مسجد کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی جس میں ماورائے عدالت ہونے والے اس قتل عام کے ذمہ داروں کے تعین سمیت جملہ معاملات اٹھائے گئے اس پر 2007ءمیں ابتدائی سماعت ہوئی لیکن پھر سپریم کورٹ میں قومی سطح کے کئی مقدمات زیر سماعت ہونے کے باعث پٹیشن کی سماعت میں تاخیر ہوتی گئی اور اب حال ہی میں نئے سرے سے یہ کیس زیر بحث آیا ہے۔اس کیس کے حوالے سے وفاق المدارس کی طرف سے راقم الحروف کونمائدہ نامزدکیا گیا جبکہ مولانا عبدالقیوم ایڈوکیٹ مولانا عبدالعزیز کے نمائندہ ہوں گے ۔

سپریم کورٹ میں زیر سماعت اس مقدمہ کی موجودہ صورتحال سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے ۔اس وقت 2اکتوبر 2007ءکو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کیے جانے والے آرڈرز کی کاپی میرے سامنے ہے۔ 12صفحات اور 14نکات پر مشتمل اس تفصیلی آرڈر میں کئی ہدایات شامل ہیں جن میں سے چند ایک پر عملدرا ٓمد ہو چکا جبکہ اکثر پر تاحال کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔اس فیصلے میں (۱)لال مسجد کھولنے (۲)جامعہ فریدیہ کو کھولنے اور (۳) مولانا عبد العزیز کی رہائی کے جو آرڈر دیئے گئے تھے ان پر جلد یا بدیر عملدرآمد ہو چکا ۔اس عملدرآمد کے نتائج و اثرات سب کے سامنے ہیں۔ اگر ہم پیچھے پلٹ کر 2007ءکا وہ منظر اپنی نگاہوں کے سامنے لائیں تو وہ تصور ہی پریشان کن معلوم ہوتا ہے ۔اس منظر نامے میں انتظامیہ اور حکومت کاجو رویہ تھا اس کی وجہ سے کتنے مسائل جنم لے رہے تھے اور کس قسم کی کشیدگی اور محاذ آرائی کا ماحول تھا؟اس سے کون ناواقف ہے؟ اگر اس موقع پر سپریم کورٹ سے یہ احکامات جاری نہ ہوتے اور لال مسجد کھولنے ،جامعہ فریدیہ میں تعلیمی سلسلے کی بحالی اور مولانا عبد العزیز کی رہائی جیسے اہم معاملات پر عملدرآمد نہ ہوتا تو اس وقت تک صورتحال کیا رُخ اختیار کر تی اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ؟۔سپریم کورٹ کے آرڈر میں موجود مذکورہ بالا چیزوں پر بھی فوری عمل درآمد نہیں کیا گیا بلکہ ان چیزوں پر عملدرآمد کے لیے بھی جو جتن کرنا پڑے ، جن مراحل سے گز رناپڑا وہ کسی سے مخفی نہیں اور بیوروکریسی اور دیگر اداروں نے ان امور میں جس جس قسم کے حربے اختیار کیے اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن بہر حال سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے ان چند امور پر بہر حال ٹوٹا پھوٹاعمل درآمد ہو گیا لیکن اس کے علاوہ جو امور تھے جن میں قرآ ن کریم کی توہین کا ارتکاب کرنے والے سی ڈی اے افسران کے خلاف کاروائی ،شہداءاور لاپتہ افراد کی تعدد کے بارے میں حتمی تحقیقات کی رپورٹ کی تیاری ، جامعہ حفصہ کی C.D.A کی طرف سے تعمیر نو ،جامعہ کی تعمیر نو تک حکومت کی طر ف سے طالبات کی رہائش ،خوراک ،کتب حتی ٰ کہ اساتذہ ومعلمات کی تنخواہوں تک کی ادائیگی اور سانحہ لال مسجد میں زخمی ہونے والوں کا علاج با لخصوص ایک معذور ہو جانے والے طالبعلم جس کے لیے بیرون ملک علاج معالجے کی سرکاری سہولت مہیا کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی ،اس کے ساتھ ساتھ اس حادثے میں شہید ہو جانے والے طلباءو طالبات کو اسلامی اصولوں کے مطابق دیت کے برابر معاوضہ دینے کا حکم بھی تھا اور آخرمیں آئی جی اسلام آباد ، کمشنر اسلا م آباد اور بریگیڈیر(ر)جاوید اقبال چیمہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ 2 نومبر 2011ءتک اس آرڈر پر عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں گے۔

اکتوبر 2007ءسے لے کر آج اپریل 2012ءکا طویل عرصہ گزر چکا ۔آج جب ہم دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک و قوم کے لیے کتنا ہی اچھا ہوتا اگر اس فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو جاتا لیکن جس طرح ہماری انتظامیہ اور حکومتی ادارے اس وقت سپریم کورٹ کے دیگر احکامات کے ساتھ لیت و لعل کا جو رویہ روا رکھے ہوئے ہیں سانحہ لال مسجد کے حوالے سے بھی یہی رویہ روا رکھا گیا ۔اس لیے اب انتظار بسیار کے بعد جب دوبارہ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کا آغاز ہو ا توبجا طور پر سپریم کورٹ نے متعلقہ اداروں کے نام ان احکامات پر عملدر آمدنہ کرنے پر توہین عدالت کے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ۔وفاق المدارس کی طرف سے دائر کردہ رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران بیورو کریسی نے ایک مرتبہ پھر اپنی روایتی چالبازیوں سے کام لینا شروع کر دیا اور عدالت کو یہ تاثر دیا کہ سانحہ لال مسجد کا قضیہ انتظامیہ نے کلی طور پر بھگتا دیا اور 2اکتوبر 2007ءکے عدالتی احکامات کے اہم ترین ایشوز کو پس منظر میں دھکیلنے کے لیے جامعہ حفصہ ؓ کو دی جانے والی متبادل زمین کا معاملہ نمایاں کرنے کی کوشش کی ۔

راقم الحروف وفاق المدارس کی نمائندگی کرتے ہوئے اس رٹ کی حالیہ سماعت کے موقع پر 25اپریل کو اس وقت عدالت میں موجود تھا جب حکومتی وکیل رمضان چوہدری جامعہ حفصہ کی جگہ کے بارے میں ہونے ولا معاہدہ پیش کرتے ہوئے یہ غلط بیانی کر رہے تھے کہ ان سے جامعہ حفصہ کی متبادل جگہ کا مطالبہ کیا گیا اور عدالتی احکامات کو بائی پاس کرتے ہوئے کوئی معاہدہ کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے بجا طور پر برہمی کا اظہار کیا لیکن جب چیف جسٹس کے سامنے صورتحال و اضح کی گئی اور وفاق المدارس کے وکیل افتخار گیلانی نے بتایا کہ C.D.Aنے جامعہ حفصہ کی عمارت کی تعمیر کا جو وعدہ کیا تھا و ہ ابھی تک پورانہیں کیا تو اس پر وکیل مذکور نے مذکورہ معاہدہ پیش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اس معاہدے کی رو سے C.D.Aمدرسہ کی تعمیر کا پابند نہیں لیکن چیف جسٹس کے استفسار پر وہ اس معاہدے میں ایسی کوئی شق نہ دکھا سکے جس کی رو سے C.D.Aجامعہ حفصہ کی تعمیر نو سے بری الذمہ ہوتا ہو ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ”پرنالہ تو پھر بھی وہیں ہے “یعنی جامعہ حفصہ کی تعمیر نو C.D.Aکے ذمہ ہے ۔جس پر رمضا ن چوہدری گڑبڑا گئے اور ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ رہا تو انہوں نے عدالت سے وقت لیا کہ وہ” اوپر“ سے ہدایات لے کر کچھ کہہ سکیں گے ۔

جامعہ حفصہ کی تعمیر نو کے معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ اکتوبر 2007ءمیں جب جامعہ حفصہ کی تعمیر نو کے احکامات جاری ہوئے اور C.D.Aنے اس کا وعدہ کیا (جو باقاعدہ عدالتی فیصلے میں موجود ہے )اور جامعہ حفصہ ؓ کی تعمیر نو تک طالبات کی تعلیم ،کتب ،رہائش اور خوراک وغیرہ کا بندو بست کرنے کو کہا گیا تو انتظامیہ نے ان میں سے کسی چیز پر عملدرآمد نہیں کیا ۔ بار بار کے تقاضوں اور مطالبات کے باوجود جب نہ تو طالبات کی تعلیم اور رہائش کی فکر کی گئی اور نہ ہی جامعہ حفصہ کی تعمیر نو پر توجہ دی گئی.... ادھر طالبات کے والدین اور عوام کی طرف سے مولانا عبد العزیز اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ پر مسلسل دباﺅتھا کہ وہ جامعہ حفصہ کی تعمیر نو کا بند وبست کریں۔مولانا عبد العزیز ہر کسی کے مطالبے پر سپریم کورٹ کے مذکورہ حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے کہ C.D.Aیہاں جامعہ حفصہ اپنے اخراجات سے تعمیر کرکے دے گا ۔سو ا تین سال تک یہی صورتحال رہی تو مجبوراً مولانا عبدالعزیز اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق C.D.Aسے مایوس ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت جامعہ حفصہ کی قدیم جگہ پر جامعہ کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا اور فنڈ ریز نگ کا عمل شروع کر کے جامعہ حفصہ کے سنگ بنیاد کا اعلان کیا تو حکومتی اداروں میں کھلبلی مچ گئی ۔اس جگہ پر جامعہ حفصہ کی تعمیر نو پر حکومتی اداروں کی حساسیت ناقابل فہم تھی ۔وہ حکومتی ادارے جنہوں نے پائی پائی جوڑ کر تعمیر کی جانے ولی اس عمارت کو شہید کیا تھا بجائے اس کے کہ وہ اپنی طرف سے اس کی تعمیر کی ذمہ داری نبھاتے اپنی مدد آپ کے تحت جامعہ حفصہ کی تعمیر بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی ۔وزیر داخلہ سے لے کر ضلعی انتظامیہ تک سب نے مولانا عبد العزیز اور جامعہ حفصہ کی انتظایہ کو پریشرائز کرنا شروع کر دیا کہ وہ سابقہ جگہ پر جامعہ حفصہ کی تعمیر نو سے دستبردار ہو جائیں.... اس صورتحال میں ایک دفعہ پھر کشیدگی کی فضا بن گئی ....ایسے میں مذاکرات کا عمل شروع ہوااورمولانا عبد العزیز اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کو کسی اور جگہ جامعہ کی تعمیر نو کے لیے جگہ اور وہاں تعمیر کی اجازت پر جب رضا مندی کا اظہار کیا گیا تو علماء نے بھی مولانا عبد العزیز سے درخواست کی کہ وہ پھر سے سانحہ لال مسجد جیسے حالات کی طرف صورتحال کو جانے سے روکنے کے لیے سابقہ جگہ پر جامعہ کی تعمیر نو کے موقف سے دستبردار ہو جائیں چنانچہ جامعہ حفصہ کے لیے متبادل جگہ H.11میں دے دی گئی یوں بات صرف اتنی ہوئی کہ جامعہ حفصہ یہاں نہیں وہاں تعمیر کی جائے گی لیکن چیف جسٹس کے بقول ”پرنالہ تو پھر بھی وہیں ہے“ کہ جامعہ کی تعمیر کی ذمہ داری بہر حال سی ڈی اے پر ہے ۔لیکن یاد رہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نہ تو اس معاہدے کافریق ہے اور نہ ہی ان مذاکرات میں شریک رہاہے بلکہ وفاق المدارس اپنی رٹ پٹیشن کی بھرپور پیروی کا ارادہ رکھتا ہے اور عدالت عظمی ٰ کے تمام احکامات پر ان کی روح کے مطابق عمل کرنے کو اس معاملے کا حل گردانتا ہے اس لیے یہ کہنا کہ وفاق المدارس نے عدالت عظمی ٰ کو بائی پاس کر کے حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا یہ سراسر حقائق کے منافی ہے اور بعض خبری ذرائع کی بے احتیاطی کا شاخسانہ ہے اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔

سوال یہ ہے کہ لال مسجد آپریشن کے بعد آخر جامعہ کی عالیشان اور انتہائی قیمتی بلڈنگ کیوں شہید کی گئی ؟عمار ت تو کبھی ”دہشت گردی “یا کسی اور جرم میں ملوث نہیں ہوتی.... جب وہ عمارت شہید کی گئی اور سب مانتے ہیں کہ وہ خلاف قانون اورماورائے عدالت شہید کی گئی تو سی ڈی اے کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے سابقہ اعتراف اور وعدے کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں عمارت تعمیرکر کے دے ۔وہ سابقہ جگہ پر تعمیر کر کے دے تو جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اس پر رضا مند اور اگر نئی جگہ تعمیر کر کے دے تو کوئی اعتراض نہیں ۔ایشو جگہ کا ہے ہی نہیں اصل مسئلہ حکومتی اداروں کے طرز عمل کا ہے۔ اس لیے وفاق المدارس کی قیادت اپنے استغاثہ کی روشنی میں بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ زمین کا معاملہ اس قضیے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ماورائے عدالت ہونے والے اس قتل عام جس کے نتیجے میں وطن عزیز کو مسائل و مشکلات کی دلدل میں دھنسایا گیا اس واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے ۔اس سلسلے میں وفاق المدارس نے جنرل (ر)پرویز مشرف ،اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز ،وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیر پاﺅ ،سیکرٹری داخلہ اور کور کمانڈر راولپنڈی سمیت دیگر تمام ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کروا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس واقعے میں شہید ہونے او رلاپتہ ہوجانے والے طلبا ءو طالبات کے ورثاءکو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسلامی دیت کے برابر معاوضے کی ادائیگی ،2اکتوبر 2007ءکے فیصلے کے مطابق قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے والوں کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ جامعہ حفصہ کی تعمیر نو اور آپریشن سے لے کر تعمیر نو تک کے عرصے میں طالبات کی رہائش ،خوراک ،کتب اور اساتذہ ومعلمات کی تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے ۔اس وقت کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے اس کی موجودہ یا آئندہ صورتحال پر تو کسی قسم کی رائے کا اظہار نہیں کیا جاسکتاتاہم اتنا ضرور ہے کہ قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں اور سپریم کورٹ اور چیف جسٹس افتخار چوہدری اس وقت دکھوں ،غموں ،بحرانوں اور مسائل و مشکلات کی شکار اس قوم کے لیے اسباب کے درجے میں امید کی آخری کرن ہیں۔دیکھیے کیا ہوتا ہے ؟
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130177 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.