اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا تعلق
اخلاق و کردار سے رہا ہے، ایک مغالطہ بڑی قوت سے اسلام دشمن عناصر نے یہ
دیا کہ اسلام کی اشاعت تلوار سے ہوئی، شمشیر و سناں سے ہوئی، یہ مغالطہ کچھ
آج کی تھنک نہیں، بلکہ صدیوں سے اسلام کے سیل رواں پر بند باندھنے کی کوشش
کرنے والے صہیونی عناصر اور یہودی زعما نے اسے رواج دیا۔ ہاں!یہ ضرور ہے کہ
ایک صدی سے بھی کم عرصے میں متعارف ہونے والے Mediaنے اسے از سر نو اچھالا
اور Pressکی قوت کے منفی استعمال سے آن کی آن میں پوری دنیا میں یہ فکر غلط
عام کر دی۔ حالاں کہ اس بابت وہ ایک بھی دلیل پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
میڈیا کے اس طرز عمل نے بہت سے ذہنوں کو ایہام میں مبتلا کر دیا۔ ایسے
ذہنوں کی تربیت کے لیے صوفیاے کرام بالخصوص ہندوستان میں اسلام کے اشاعتی
کارواں کے عظیم سالار خواجہ معین الدین حسن چشتی سجزی اجمیری کی ذات آئیڈیل
کی حیثیت رکھتی ہے۔Spainجہاں مسلمانوں نے 781 سالوں تک حکومت کی وہاں
مسلمانوں کا اقتدار جب زوال پذیر ہوا تو اسی کے ساتھ دعوتی نظام کا بھی
خاتمہ ہو گیا۔ اور مسلمانوں کو چن چن کر ختم کر دیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس
لیے کہ وہاں مسلمانوں کا وجود مسلم اقتدار کے سہارے تھا، ارباب حکومت اسلام
کی راہ سے ہٹے تو زوال سے دوچار ہوئے۔ آمریت کا نتیجہ بالآخر اقتدار کا مٹ
جانا ہے لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود داعیانِ دین اور صوفیا بالخصوص
سلطان الھندخواجہ غریب نوازکی کاوشوں سے ہوا اسی وجہ سے صدیوں پر پھیلا ہوا
مسلم اقتدار جب سمٹا تو حکومت ضرور مٹ گئی لیکن مسلمان باقی رہے۔ اسلام
باقی رہا۔ اللہ کا ولی جہاں مقیم ہو جاتا ہے وہ زمین مسخر ہو جاتی ہے، اس
کی ذات دلوں میں بس جاتی ہے۔ اس کا مشن آگے ہی بڑھتا ہے۔ خواجہ غریب نواز
نے اپنے اخلاق و کردار، استقامت و کرامت اور جہد مسلسل سے جس گلستاں کی آب
یاری کی تھی وہ آج بھی شاداب ہے، آج بھی ہرا بھرا ہے، آج بھی فروزاں و
تابندہ ہے، ۰۳کروڑ سے زیادہ مسلمان اس ملک میں بستے ہیں اور آزادی کے ساتھ
اپنے مذہب پر قائم ہیں یہ اسی ابر بارندہ کی برکت ہے جسے ہند کی بادشاہت
عطا کی گئی اور جس سے ایمان کی فصل آج بھی سرسبز و شاداب ہے:ع
واہ اے ابر کرم زور برسنا تیرا
صدیاں گزر گئیں۔ انگریز کا اقتدار بھی ہندوستان سے غریب نواز کے روحانی
اقتدار کو نہ چھین سکا۔ حوادث کی ٹھوکروں نے اس ملک سے مسلمانوں کے خاتمہ
کے کتنے اور کیسے کیسے جتن کیے۔ کیسی کیسی آندھیاں چلیں، فرقہ پرستوں نے
سیم و زر اور مکر و فریب کے ذریعے مسلمانوں کا زمینِ ہند سے صفایا کرنا
چاہا لیکن اپنے منصوبے میں ہر عہد میں ناکام رہے۔ ذرا یاد کرو اس دورِ حزیں
کو جب راجستھان سے ”فتنہ شدھی“ اٹھا، شردھانند نے آواز لگائی کہ یہاں پہلے
سب ہندو تھے، غریب نواز نے زبردستی مسلمان بنایا، تلوار کے زور پر سلاطین
نے مسلمان بنایا، ایسے مہیب دور میں غریب نواز کا اپنے عہد میں نائب ایک
مرد مومن مفتی اعظم بریلوی کی شکل میں اٹھا اور اپنے احباب کی مبارک
جماعت”جماعت رضاے مصطفی“ کو لے کر اس فتنہ ارتداد کا خاتمہ کیا۔یوں عزم
غریب نواز کی ایک مثال قائم کردی۔ اسے ہی صوفیا استقامت کہتے ہیں۔
یہ تو ایک مثال تھی صوفیا کی جاں نثاری کی اور ان کے مشن کی تابانی کی۔ بہر
حال یہ ایک المیہ ہے کہ منفی پروپیگنڈے کے زور پر اسلام کو جس قدر بدنام
کرنے کی کوششیں کی گئیں وہ دنیا کے اور کسی مذہب یا نظریے کے ساتھ نہیں
ہوئیں۔ اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس میں نجات ہے۔ یہی
ساری کائنات کا دین ہے۔ رب کا پسندیدہ دین ہے۔ پھر ایک سازش یہ کی گئی کہ
اولیاے کرام کی بارگاہوں سے دلوں کے رشتے کم زور کرنے کے لیے انگریز نے
ایسے افراد تیار کیے جنھوں نے شرک مٹانے والے اولیاے کرام(بالخصوص غریب
نواز) کی بارگاہ میں حاضری کو ہی شرک قرار دیا اس طرح امت مسلمہ میں انتشار
کی وہ فضا ہم وار کی جس سے نقصان صرف مسلمانوں کا ہوا۔
اللہ کریم نے تو خواجہ غریب نواز کو اسی لیے ہندوستان بھیجا تھا کہ وہ دین
کی سربلندی کے لیے سعی و کاوش کریں۔ شرک کے مراکز کا خاتمہ کریں اور توحید
کی شمع فروزاں کردیں، محبوب رب تعالیٰ کی محبت سے من کی دنیا کو روشن کر
دیں۔ اور آپ نے ایسا ہی کیا۔ اور یہی بات انگریز اور دوسرے اسلام دشمن
حلقوں کو بری لگی جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ انگریز کے زیر اثر مسلمانوں کو
ایک طبقہ ایسے عظیم داعی اسلام جنھوں نے مشرکوں کو کلمہ پڑھایا ان سے کدورت
رکھتا ہے اور حسد کاشکار ہے۔
جب کہ خود ساختہ مبلغ کہلوانے والوں کی کیفیت یہ ہے کہ وہ ایک طرف اسلام کی
دعوت کی بات کرتے ہیں دوسری طرف سچے مسلمانوں کو مشرک اور بدعتی کہہ کر
اللہ کی رحمت کو ناراض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم فرمایا۔ خواجہ
غریب نواز کی شکل میں ہندوستانیوں کو نجات دہندہ عطا کیا اب اللہ کی اس
عظیم نعمت سے منھ بسورنا کیا دانش مندی ہے۔ پھر یہ کہ دنیا کے جتنے دہشت
گرد ہیں وہ اولیاے کرام کے دشمن ہیں یہ بات بھی اب مخفی نہیں رہی اس لیے
بھی کہ اولیا کا مشن ہی دنیا کو دہشت گردی سے نجات دلا کر توحید و رسالت کی
سچی دعوت دینا ہے۔
ماضی قریب میں جو حالات گزرے وہ نگاہوں کے سامنے ہیں، حقائق کے چہرے سے
نقاب الٹنے پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فرقہ پرستوں نے خواجہ غریب نواز کے
آستانے پر بلاسٹ کر کے درندگی کا مظاہرہ کیا، بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ
پڑوسی ملک پاکستان میں خود کو موحد کہلوانے والوں نے تو انتہا کر دی اور پے
در پے حضرت داتا گنج بخش، سلسلہ خواجہ کے بزرگ حضرت بابافریدالدین گنج شکر،
حضرت حاجی شاہ بابا، حضرت دولھے شاہ اور اس طرح کئی آستانوں پر بموں سے
حملہ کر کے صوفیاے اسلام کے داعیانہ مشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ اس سے
اندازا کیا جا سکتا ہے کہ آج بھی صوفیا کا مشن موثر انداز میں جاری ہے اور
فرقہ پرست قوتیں ان کے مشن سے خوف زدہ ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی سچی تعلیمات کی اشاعت کے لیے خواجہ غریب
نواز کی خدمات اور ان کے مشن کو منظر عام پر لایا جائے اس سے جہاں مغرب کے
جھوٹے پروپےگنڈوں کی تہیں چاک ہوں گی وہیں اسلام کا روشن و تاب ناک چہرہ
سامنے آئے گا اور ”من“ کی دنیا روشن ہو جائے گی، فکر و نظر کے آنگن میں
امیدوں کے ہزاروں دیپ روشن ہو جائیں گے۔ اسلام کا نکھرا ہوا چہرہ ابھر کر
سامنے آئے گا۔ |