فضائل و مناقب سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

عام الفیل سے 30برس بعد یعنی 13رجب المرجب کو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی ۔ہاشمی النسل ابو طالب کے نورِ نظر ،فاطمہ بنت اسد کے لختِ جگر نے رسول اللہ ﷺ کی آغوش شفقت و مودت میں پرورش پائی اور اسی فیض رسول ﷺ کی بدولت اپنی 63سالہ زندگی میں بے داغ سیرت و کردار کی عظمت کے نورانی چراغوں سے قصر انسانیت اور ایوان آدمیت کے در و بام روشن و تاباں کر دئےے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ہمہ جہت اور جملہ صفات شخصیت میدان شجاعت میں چمکتی تلواروں کی جھنکار میں اللہ کا شیر اور محراب و منبر کے درمیان مشغول عبادت تصویر مصطفےٰ ﷺ دکھائی دیتی ہے ۔شہادت سے پہلے شدید زخمی حالت میں جب آپ رضی اللہ عنہ کے سانسوں کی ڈوری ٹوٹ رہی تھی تو زبان پر یہ الفاظ متحرک تھے ۔
”مجھے پروردگار کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔“

گویا یہ ادا ہونے والا جملہ اس بات کا مبینہ اعلان تھا کہ انہوں نے زندگی کے ہر پہلو اور حیات کے ہر مرحلہ میں فوز عظیم اور نصرت و کامرانی کے نقطہ کمال کو پالیا ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کر لیا۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق اس وقت ان کی عمر شریف صرف 8برس تھی ۔جب حضور اکرم ﷺ نے اپنے قرابت داروں اور اعزاءاقرباءکو دعو ت اسلام پیش فرمائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہاں بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی نصرت و معاونت کا اعلان کیا ۔گویا اسلام کی عالمگیر تحریک حقہ ہر ممکن کامیاب بنانے کی خاطر اوائل عمری سے ہی وہ حضور ﷺ کے معاون و مددگار بن کر دشمنان دین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔حضور اکرم ﷺ نے جب دیوتاﺅں لات و ھبل اور عزیٰ و منات کے خلاف نعرہ ¿ حق بلند کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذوالفقار حیدری سے ان سب مصنوعی اور بے جان خداﺅں کو ریزہ ریزہ کر دیا ۔

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ وہ عظیم الصفات شخصیت ہیں جن کو مواخات مدینہ میں نبی اکرم ﷺ نے اپنا برادر قرار دیا ۔ آپ کی علمی بصیرت اور فہم و ادراک کے حوالے سے نبی مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ انا مدینة العلم و علی بابھا ۔”میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ“

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ کہ ”جو چاہو پوچھو“حضور اکرم ﷺ کے مذکورہ ارشاد کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایسی شخصیت کی علمی بساط کا کون اندازہ کر سکتا ہے جو ہر سوال پوچھنے کا کھلا اعلان کر رہا ہے ۔وہ تاریخ اسلام کا ایک ایسا جلی اور روشن عنوان ہیں جن کی اصابت رائے اور نافع مشاورت پر جماعت صحابہ کو مکمل اعتماد اور اتفاق تھا ۔ ان کی دینی ثقاہت و فقاہت اور عدالت کا اس سے واضح، مدلل اور ٹھوس ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے ۔

”تاریخ الخلفائ“ میں درج ہے کہ ”وہ یعنی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس بات پر اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ دینی مسائل و معاملات میں ان کے مخالفین بھی ان پر مکمل اور بھر پور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں ۔“خلفاءثلاثہ نے بالترتیب اپنے ادوار خلافت میں اہم ملکی امور اور قومی معالات میں ہمیشہ آپ سے مشاورت کی ۔اس کی اہم اور نمایاں وجہ یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور انتہائی باریک دقیق اور پیچیدہ معاملات کا بہت جلد ٹھوس اور کافی و شافی حل تلاش فرمالیتے تھے ۔ تاریخی حوالہ جات اس امر کی توثیق و تصدیق کرتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سیاسی اور ملکی حالات کی اصلاح میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا نمایاں حصہ تھا ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خلافت کی مجلس شوریٰ کے اہم رکن تھے ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت شروع ہوا تو بھی آپ کو یہ فضیلت و عزت اور احترام و اکرام حاصل رہا ۔

ایک بار جب عدالت فاروقی میں پیش ہونے والے ایک مقدمہ میں ایک حاملہ عورت کو رجم کی سزا کا فیصلہ سنایا گیا ۔قریب تھا کہ سزا پر عملدرآمد ہوتا کہ اسی اثناءمیں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے جب ان کو صورت حال کا علم ہوا تو فرمانے لگے ۔

”یہ فیصلہ سنت کے خلاف ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے حاملہ خاتون کو سزا سے اس وقت تک مستثنیٰ اور علیحدہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے جب کہ اس کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ کھانے پینے کے قابل نہیں ہو جاتا۔“ یہ ارشاد سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلاتاخیر اپنا صادر شدہ فیصلہ واپس لے لیا اور انتہائی رقت آمیز اور متشکرانہ انداز میں کہا ”آج اگر علی (رضی اللہ عنہ ) نہ ہوتے تو عمر(رضی اللہ عنہ ) ہلاک ہو گیا ہوتا ۔“یعنی اپنے غلط فیصلہ کی وجہ سے مجھے بے حد صدمہ اور دکھ ہوتا۔

معلم انسانیت ﷺ کی شب و روز قربت و نسبت کی وجہ سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ایک ایسا عظیم الشان شاہکار بن گئے جس نے اپنے علم و فضل اور حکمت و صداقت کے چراغ روشن کر کے ہر طرف علم و عرفان کا اجالا بکھیر دیا ۔ تحفظ دین ،ناموسِ رسالت ﷺ اور اشاعت اسلام کی خاطر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے وہ گرانقدر اور ناقابل فواموش خدمات انجام دیں جو تاریخ اسلام کا قیمتی اثاثہ اور یادگار کارنامہ سمجھی جاتی ہیں ۔یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ہر نازک ترین مرحلہ پر جب بھی مخالف سمتوں کی ہواﺅں نے کاشانہ رسالت کا رخ کیا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے شمع ہدایت کو روشن و فروزاں رکھنے کی خاطر اپنی جان داﺅ پر لگا کر ان تیز و تند ہواﺅں کا رخ موڑ دیا ۔ اس کی ایک روشن مثال وہ تاریخی واقعہ ہے جب ہجرت کی شب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے ان کو اپنے بستر پر لٹا دیا حالانکہ یہ جگہ اس وقت کسی مقتل گاہ سے کم نہ تھی ۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کون اتنے حوصلے اور جرات کا مالک ہو سکتا تھا جو ان تمام خدشات و خطرات سے یکسر بیگانہ اور بے نیاز ہو کر دشمنوں کے سخت محاصرہ اور گھیراﺅ کے باوجود بستر رسالت ﷺ پر گہری نیند سو جاتا ۔عقیدہ توحید کی پختگی اور توکلت علی اللہ کا اس سے بڑا اور زندہ ثبوت بھلا اور کیا ہو سکتا ہے ۔

حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی تمام تر خدمات(خالصتاً ) اپنے آقا ﷺ کی ذات گرامی کے لئے وقف کر رکھی تھیں ۔انہی صفات قدسیہ اور جانثار ا نہ خدمات کے بھر پور اعتراف میں حضور ﷺ ،حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بے حد عزت کرتے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں برملا فرماتے :”علی دنیا و آخرت میں میرا بھائی ہے اور میرے خاندان میں میرا خلیفہ ہے اور میری امت میں میرا وصی ہے اور میرے علم کا وارث ہے ۔“

مسند خلافت کی ذمہ داری:جب خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ابن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو نئے خلیفہ کے انتخاب کی ضرورت پیش آئی ،اہل مصر کا ایک وفد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا ”اے دامادِ رسول ! آ پ خلافت کی ذمہ داری قبول فرمائیں۔“جواب میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”اس افرا تفری اور ہنگامہ خیزی کے دور میں اس اہم اور نازک ترین عہدہ کو سنبھالنے کے لئے میں خود رضا مند نہیں پاتا۔“

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سن کر ان کو خدشہ لاحق ہو گیا کہ اگر خلیفہ کے انتخاب میں تاخیر ہوگئی تو نہ جانے امت مسلمہ کو کن پیچیدگیوں ،دشواریوں سے دو چار ہونا پڑے گا؟ چنانچہ اس نازک صورت حال کے پیش نظر چند معتبر شخصیات انصارِ مدینہ کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ آپ خود سے کوئی خلیفہ منتخب کر لیں ۔اس پر انہوں نے کہا کہ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی کے علاوہ ہماری نظروں میں کوئی دوسری شخصیت اس منصب جلیلہ کے اہل اور لائق نہیں ہے ۔بے شک وہی سب سے بہتر اور اس منصب کے اہل و مستحق ہیں ۔چنانچہ ایسی کیفیات کے پیش نظر اتفاق رائے سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو 26ذوالحجہ بمطابق 35ہجری خلافت کی گراں بار ذمہ داری سنبھالنا پڑی بعد ازاں اہل عرب نے جوق در جوق آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی ۔

یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں میں یہودیوں کی سازش سے فتنہ طرازی کا زہر پھیل چکا تھا اور اس فتنہ انگیزی کی بنیاد پر جنگ جمل اور جنگ صفین وقوع پذیر ہوئی تھیں ۔موخر الذکر جنگ میں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں آگیا جو خارجی کہلایا اور اسی طبقہ کے ایک فرد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا پورا دور خلافت جنگی سازشوں اور بے ہنگم شورشوں کا دور ہے ۔اپنی پنجسالہ مدت خلافت میں آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی سکون و اطمینان نصیب نہ ہوا ۔ملی حالات نے ہمیشہ آپ کو بے قرار و مضطرب بنائے رکھا تاہم آپ کی بامقصد زندگی ان تمام تر گونگوں مصائب و مشکلا ت کے باوجود آپ نے نہایت تحمل و استقلال اور سلامت روی کے ساتھ پیش آنے والے حالات کا سامنا کیا ،آپ کی ذات عوام الناس کے لئے آیہ رحمت او ر سایہ برکت و رفعت تھی ،بیت المال کا کلی نظام مستحقین کے لئے شب و روز جاری رہتا تھا اس میں جو رقم جمع ہوتی نہایت فراخدلی سے غرباءو مساکین میں تقسیم کر دی جاتی ۔علاوہ ازیں ذمیوں کے ساتھ بڑا مشفقانہ سلوک کیا جاتا ۔

ایران میں بے شمار خفیہ سازشوں کے باعث کئی ہنگامے اور بغاوتیں اٹھیں مگر جذبہ ترحم اور ضبط و تحمل سے کام لیتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے کشت و خون اور انسانی جانوں کا ضیاع ہو ، یہاں تک کہ اہل ایران اس شفقت اور صبر و ضبط سے متاثر ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ :” اللہ کی قسم اس عربی نے تو نوشیرواں عادل کی یاد تازہ کر دی۔“

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں انتہادرجہ کی سادگی و عاجزی پائی جاتی تھی ۔آپ کا مکان ،لباس اور کھانا مفلس ترین اشخاص سے اچھا نہیں تھا۔ ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے خود کام کرتے بڑے کریم النفس اور سخی و فیاض تھے ۔سواری کم استعمال کرتے اکثرپیدل سفر فرماتے اور کوفہ کے گلی کوچوں میں جا کر رعا یا کو تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے ۔سوید بن غفلہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن جب میں امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک پرانے بوریا پر تشریف فرما ہیں ۔عرض کیا اے امیر المومنین !آپ مسلمانوں کے بادشاہ ،حاکم اور بیت المال کے مختار ہیں۔ اقوام عالم کے پیغامبر اور ایلچی مختلف مقاصد کے لئے آپ کی بارگاہ میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ہاں اس بوسیدہ بورئےے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے ۔فرمایا ۔اے سوید! میں ایسے گھر سے انس نہیں رکھتا جس سے نقل کر جانا ہو ۔ میری آنکھوں کے رو برو ہمیشگی کا گھر ہے ۔ہم اپنے سازو سامان کو اس گھر میں منتقل کر چکے ہیں اور عنقریب خود بھی اسی کی طرف کوچ کرنے والے ہیں۔

سوید کہتے ہیں کہ بخدا آپ رضی اللہ عنہ کی باتوں نے ہمیں اشکبار کر دیا پھر اس درویش منش اور بوریا نشین انسان کی زندگی میں وہ شب دروز بھی آگئے جب حقیقت میں یہ عظیم بشر بھی جہان فانی سے جہان باقی کی طرف نقل مکانی کر گیا ۔لیکن آج کے حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ دے گیا کہ شان شوکت لباس و مکان میں نہیں قوم کی خدمت میں ہے ۔

ماہ رمضان کی 19ویں شب امیر المومنین اپنی عزیز بیٹی حضرت ام کلثوم کے گھر رہے ۔صبح صادق اٹھے اور مسجد کوفہ تشریف لے گئے ۔چند رکعتیں ادا فرمائیں اور کچھ توقف کے بعد فجر کی اذان دی ۔خلیفة المسلمین کی کوفہ میں یہ آخری اذان تھی اور اس صدائے حق کی بازگشت صحن مسجد سے بلند ہو کر ہر طرف پھیل گئی۔ اذان سے فراغت کے بعد آپ محراب کی طرف تشریف لائے جہاں ایک شقی القلب بد بخت خارجی عبد الرحمن ابن ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار آپ رضی اللہ عنہ کے سر اقدس پر اس وقت ماری جس وقت آپ رضی اللہ عنہ فجر کی پہلی رکعت کے سجدہ سے سر اٹھا نے والے تھے ۔وار اتنا مہلک اور شدید تھا کہ تلوار اندر تک دھنس گئی اس پر دفعتاً آپ رضی اللہ عنہ کے منہ سے نکلا:”رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ہوں“ بعد ازاں یہ افسوس ناک خبر سن کر اہل شہر مسجد میں جمع ہو کر زار و قطار رونے لگے ۔آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی حالت میں تھے یہاں تک کہ 21ویں رمضان المبارک کی شب کا دو تہائی گذرنے پر مزید حالت خراب ہو گئی اور اسی اثناءکلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی ۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔

آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمیٰ خارجیوں کی مذموم اور گھناﺅنی سازش کا نتیجہ تھی ۔خارجیوں کا یہ فتنہ طراز گروہ اگر چہ اپنے اغراض و مقاصد سیاسی نوعیت کے رکھتا تھا تاہم ظاہری طور پر ان کے عقائد و نظریات پر دینی رنگ کی تہہ چڑھی ہوئی تھی ۔یہ گروہ موجودہ دور کے فتنہ پروروں سے ملتا جلتا تھا جس کے لوگ کوفہ ،دمشق اور مصر کی حکومتوں کے سخت خلاف تھے ۔ انہوں نے ان حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے مکہ میں یہ سازش تیار کی کہ تاریخ اسلام کے بہتے ہوئے دھارے کا منہ موڑ دیا جائے ۔مرتب ہونے والی تاریخ کا نقشہ اور حلیہ بدل دیا جائے ۔چنانچہ اپنی مذموم سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان خارجیوں نے تین بد کردار انسانوں کا انتخاب کیا ۔ان میں سے پہلے کا نام عمرو بن تمیمی تھا جس نے حاکم مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ختم کرنے کا ذمہ لیا ۔دوسرا برک بن عبد اللہ تمیمی تھا جس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی حامی بھری اور تیسرے ملعون کا نام عبد الرحمن ابن ملجم ہے جس نے خلیفة المسلین حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حلف اٹھایا ۔چنانچہ ان ہولناک اور انسانیت کش مہموں کے لئے انہوں نے 17 رمضان کی تاریخ مقرر کی اول اور دوم خارجی تو اپنے مذموم اور شیطانی مقاصدمیں کامیاب نہ ہو سکے مگر تیسرا خارجی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ۔اس نے خفیہ وار کر کے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید تو کر دیا لیکن اس کا ایسا کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ظاہری جسمانی زندگی کو ختم کر نے کا باعث بنا مگر آپ کی روحانی و معنوی ،علمی و عملی فکری اور اعتقادی زندگی کا کوئی گوشہ ختم نہ ہو سکتا ۔لہٰذا آج بھی ان سے عشق و محبت رکھنے والے ہر رنگ میں ان کی بارگا ہ میں دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین کے گل ہائے رنگ برنگ پیش کر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو بھی سیرت حضرت علی المرتضیٰ سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے ۔آمین
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 658688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.