حکومت ہو یا کوئی پرائیویٹ ادارہ
اصل ریڑھ کی ہڈی اس کا بجٹ نہیں اس کی آمدن ہوتی ہے،آمدن ہو گی تو وہ اس کے
حساب سے بجٹ مرتب کرے گا ہوتا ہے ،آمدن سے ہی مناسب بجٹ تشکیل دیا جا سکے
گا لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان و ریاست کشمیر کے اس ٹکڑے میں
عوام کے ساتھ بھیانک مذاق کیا جا تا ہے لیکن ہم ہی عوام ہیں کہ ان چال باز
حکمرانوں کی چالوں میں اور ان کے اعداد وشمار کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ،گو
کہنا تو میں کوئی ماہراکانومسٹ ہوں نہ ہی میرا تعلق اکانومی کے معاملات سے
ہے لیکن جب بجٹ کا تذکرہ زبان زد عام ہو گیا تو میں نے بھی اپنی صحافتی ذمہ
داری محسوس کرتے ہوئے اعدادو شمار کی اس دوڑ سے کچھ رزلٹ نکالنے کی کوشش
کی، اسی کوشش کو قارئین کی کیلئے پیش کررہا ہوں۔
تا زہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال 2010-11 کی دوسری سہ
ماہی کے دوران پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضوں کا حجم بارہ ہزار آٹھ سو بتیس
ارب سے بڑھ گیا ہے جو ملک کی جی ڈی پی کے مقابلے میں 65.4فیصد تک پہنچ گیا
ہے ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارتی کی حکومت کے دور اقتدار میں
2008-9میں مجموعی قرضوں کا حجم آٹھ ہزار سات سو چھیالیس ارب روپے تھا اور
گزشتہ چار سال کے دوران اس میں 4ہزار 86ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اعداد
وشمار کے مطابق 12ہزار 8سو 32ارب روپے کے مجموعی قرضے میں حکومت کے اندرونی
قرضوں کا حجم چھ ہزار آٹھ سو 66ارب روپے ہے اور بیرونی قرضوں کا حجم
5965.9ارب روپے ہے ،جس میں پیرس کلب سمیت دیگر قرضوں کا حجم 4140.1ارب روپے
ہے ، آئی ایم ایف کے قرضوں کا حجم 759.7ارب روپے ،بیرونی قرضہ داروں کا
حجم226.5ارب روپے، پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کے بیرونی قرضوں کا حجم 273.6ارب
روپے اوردیگر آپریشنز قرضوں کا حجم 335.9ارب روپے ہے، یہ امر قابل ذکر ہے
کہ حکومت پاکستان اندرونی قرضوں کو اتارنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہی
جبکہ صرف بیرونی قرضوں کو اتارنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں ،حکومت نے
گزشتہ سال بیرونی قرضوں کی اصل رقم کی ادائیگی کی مد میں سات ارب78کروڑ
60لاکھ ڈالر جبکہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں ایک ارب چھ کروڑ
90لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی ،اس کے باوجود اس وقت پاکستان کے ذمے بیرونی
قرضوں کا امریکی ڈالر میں حجم 61ارب13کروڑ 40لاکھ ڈالر ہے اور اس میں 30جون
2012تک مزید اضافہ متوقع ہے جبکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے پاکستان کے پاس
وسائل تک نہیں ہیں(میں نے اوپرذکر کیا کہ جب ہمارے پاس اپنے وسائل ہی
نہیںہیں جو وسائل ہیں ہیں وہذاتی جائدادیں اور بنک بیلنس بنانے کیلئے وقف
ہیں، تو ہم اپنابجٹ کیسے بنائیں گے) اور حکومت اس قرضے کی ادائیگی کے لیے
دوبارہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے مذاکرات کا آغاز کر چکی ہے جس کے
نتیجے میں آئی ایم ایف پاکستان پر مزید کڑی شرائط عائد کرے گا جس میں آر جی
ایس ٹی کا نفاذ ،بجلی گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ سمیت دیگر کڑی شرائط
شامل ہوں گی۔ اس وقت یہ صورت حال ہے کہ پاکستان کی مخدوش اقتصادی صورت حال
کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے نیٹو سپلائی بحال کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر
کی پیش کش کر دی ہے جبکہ حکومت پاکستان اور تمام سیاسی و دینی جماعتوں کا
واضح موقف تھا کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے امریکہ، پاکستانی چیک پوسٹ
پر حملہ کرنے پر معافی مانگے اور مستقبل میں ڈرون حملے بند کرے، جسے امریکہ
نے ماننے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ اسے ہمارے اقتصادی حالات کا بخوبی علم
تھا،پاکستان کی مخدوش اقتصادی صورت حال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا
سکتا ہے کہ وزیر دفاع احمد مختار نے چند روز قبل کہا کہ ہمیں نیٹو سپلائی
بحال کرنی پڑے گی ایسا نہ کیا تو ہم پر عالمی پابندی لگ جائے گی ، سپلائی
بحال ہوگی تو امریکہ پیسے دے گا جس سے ان کا بجٹ بن پائے گا۔ مئی 2010سے
آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرضے کی قسطیں دینی بند کر دی اور امریکہ نے
پاکستان کی امداد روک لی اس مدت کے دوران پاکستان کا بجٹ خسارہ اور تجارتی
خسارہ بڑھتا رہا ، اب 2012میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی
کرنی ہے جبکہ اس وقت پاکستان قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، اب
ہمارے حکمران قوم کے سامنے جواز پیش کر رہے ہیں کہ ہمیں امریکہ کے سیاسی
مطالبات اور آئی ایم ایف کے معاشی مطالبات ماننے ہوں گے تاکہ اقتصادی بحران
سے بچا جا سکے یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں مالی سال 2011-12 میں جولائی سے
دسمبر تک(6ماہ کے دوران) پاکستان نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں
مجموعی طور پر آٹھ ارب پچیس کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی ہے جس میں
قرضوں کی اصل رقم کی واپسی کی مد میں سات ارب ترانوے کروڑ اسی لاکھ ڈالر
جبکہ سود کی ادائیگی پر 31.7کروڑ ڈالر ادا کیے گئے ، اقتصادی ماہرین کے
مطابق رواں مالی سال کے اختتام پر پاکستان کی جانب سے بیرونی قرضوں کی
ادائیگی کی مد میں رقم دس ارب ڈالر سے بڑھ جائے گی ۔ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک
بینکنگ اینڈ فنانس کے چیرمین ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی نے کہا کہ حکومت نے بڑے
پیمانے پر ملکی اور بیر ونی قرضے لیے تاکہ ٹیکس چوری ، بد عنوانی، ریاست
اور ریاستی اداروں کے شاہانہ اخراجات اور بڑھتے ہوئے جاری حسابات کے خسارے
کو پورا کیا جاسکے ۔ اسکے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، بجٹ
خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے پھر نوٹ چھاپنا شروع کر دیے ہیں جس سے
مہنگائی میں اضافہ ہو گا دوسری جانب حکومت نے بنکوں سے بھی بڑے پیمانے پر
قرضے لیے ہیں جن پر سود کی ادائیگی کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھے گاچنانچہ مزید
قرضے لینے پڑیں گے۔ اس طرح پاکستان قرضوں کے شیطانی چکر میں پھنس گیا ہے
بلکہ اس کو اس چکر میں پھنسا دیا گیا ہے یہ صورت حال پریشان کن اور مضحکہ
خیز ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت بنکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لے رہی
ہے جبکہ خود ریاست کے مالیاتی اداروں اور بنکوں میں تقریباً 900ارب روپے
جمع ہیں جن پر اوسطاً چھ فیصد سالانہ سود مل رہا ہے جبکہ قرضوں پر بارہ
فیصد سود ادا کیا جارہا ہے۔ اس طرح قومی خزانے کو نقصان پہنچا کر بنکوں کو
تقریباً پچاس ارب روپے سالانہ منافع دیا جا رہا ہے۔ بینک چونکہ حکومت کو
قرضے دے رہے ہیں ، اس لیے وہ صنعت و تجارت اور زراعت کے لیے قرضے نہیں دے
رہے ۔ جس سے معیشت کی شرح نموسست ہو گئی ہے اور مہنگائی میں تیزی سے اضافہ
ہو رہا ہے ، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے تمام خطوں میں غربت میں
کمی واقع ہوئی ہے لیکن حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیوں کے باعث غربت کی شرح
کم ہونے کی بجائے چالیس فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، کروڑوں افراد کی زندگی
اجیرن ہو گئی ہے۔ اس وقت پاکستان گربت اور مہنگائی میں ایشیا بھرمیں دوسرے
نمبر پر ہے،حکومت پاکستان نے یکم جون کو جو بجٹ ایوان میں پیش کیا ہے اس
میں وفاقی محاصل کا تخمینہ 3234 ارب،ٹیکس وصولی کا متوقع ہدف
2381ارب،جائیداد کی خرید و فروخت پر 5سے 10فیصد کپیٹل گین ٹیکس کی تجویز
پیش کی ہے،اس بجٹ میں عوام کو درسی کتب،سٹیشنری اور ہائیبرڈ گاڑیوں سستی
کرنے کا لولی پاپ دینے کا اعلان بھی کیا ہے، جبکہ سرکاری ملازمین کی
تنخواہوں اور پنشن میں 20فیصد اضافہ ،ایک لاکھ ملازمتیں اور سگریٹ،کھاد،سی
این جی اور سریا مزید مہنگا کرنے کی تجویز دی گئی ہے،مجموعی طور پر 29کھرب
60ارب روپے کے حجم کا وفاقی بجٹ منظوری کیلئے پیش کیا گیا ،اس بجٹ میں آرمی
کیلئے 20ارب،فضائیہ کیلئے 5ارب روپے کا اضافہ اور بحریہ کو گزشتہ برس کی
نسبت 23کروڑ روپے کم دینے کی تجویز دی گئی ہے ،ترقیاتی پروگرام کیلئے کل
873ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں ایٹمی توانائی کو 39.16 ارب،ایچ ای سی
کو 15ارب 80کروڑ،اطلاعات و نشریات ڈویثرن کو 48.23ملین روپے دینے کا اعلان
کیا ہے ،حکومت نے اس بار دفاعی بجٹ میں 50ارب کے اضافہ کا اعلان کیا ہے اس
کے علاوہ بجلی اور اشیاءخوردونوش پر 208 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان بھی
کیا ہے ،بجٹ اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں ہاتھاپائی بھی دیکھنے
میں آئی لیکن مجھے یہ احتجاج میں حکومتی اور اپوزیشن کے عوام کو ایک بار
پھر بیوقوف بنائے جانے کا عمل صاف طور پر نظر آرہا ہے ،گزشتہ 66سال سے یہی
بجٹ پیش کیے جاتے ہیں اور حکمران و سرمایہ دار ان پر عیاشی کرتے ہیں کوئی
غیرملکوں میں جا کہ عیاشی کرتے اور اپنے غیرملکی اکاﺅنٹس میں اضافے کرتے
ہین اور کوئی وہاں پر اپنی انڈسٹریاں کھول دیتے ہیں عوام کی غربت اور تنگ
دستی سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے ،یہ بجٹ صرف ایک چال ہے جس کے ذریعے عام
عوام اور سرکاری ملازمین کے کہ منہ کو وقتی طور پر لولی پوپ دے کر بند کر
دیا جاتا ہے ۔جب کہ اصلیت یہ ہے کہ امریکہ ،یورپ اور عرب ممالک سے بھیک
مانگ مانگ کر کھانے والے یہ ماضی کے وموجودہ حکمران نااہل ہیں ان کو عوام
کی ترجمانی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ،ان کے پاس اپنا کچھ ہے ہی نہیں تو یہ
بجٹ کس لیے اور کس کیلئے بنا رہے ہیں یہ سوچنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ،میں
ایک بار پھر کہتا ہوں کہ تبدیلی کا وقت نزدیک آرہا ہے اس لیے آخری امید
تبدیلی اور سونامی کا ساتھ دے کر اسے آزمایا جائے نہ کہ آزمائے ہوﺅں کو
آزماکر خود کو ایک بار پھر شرمندہ کیاجائے ۔ |