بجٹ 2012ء کا ایک جائزہ

وفاقی حکومت نے اپنے دور کا آخری بجٹ پیش کردیا ہے جس پراس لحاظ سے موجودہ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس سے قبل کسی بھی جمہوری حکومت کو پانچ بجٹ پیش کرنے موقع نہیں دیا بے شک جمہوری روایات کا پروان چڑھناایک اچھی بات ہے جس کو مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت نے اس بجٹ میں نہ صرف عوامی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعتیں بھی اس پر احتجاج کرتی نظرآرہی ہیں اور مبصرین بجاطور پر حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں سے یہ سوال پوچھتے نظرآتے ہیں کہ اس بجٹ کی موجودگی میں وہ عوام سے کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے جس میں عوام کیلئے کوئی ریلیف نہیں رکھا گیا ہے چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اپنے آخری بجٹ میں ہی کچھ ایسے ہنگامی اقدامات اٹھاتی جن سے عوام کو کوئی فوری اور بڑاریلیف ملتا تاکہ کل کو انہیں عوام کے سامنے کچھ سرخروئی ہوتی لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ صاحب تو یہ کہہ کر عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی بڑھی نہیں بلکہ کم ہوئی ہے اس کے بعد سرمایہ داروں کی حمائت کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہاکہ امیرلوگ ٹیکس دینا نہیں چاہتے اگر عوام کو سہولتیں درکارہیں تو وہ ٹیکس دے یہی وہ سوچ ہے جس نے پاکستان کو ترقی و کامیابی سے روک رکھا ہے جس کے مطابق ملکی پالیسیاں و قوانین عوامی امنگوں کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں بلکہ ملک پر قابض ایک مخصوص طبقے کے اشاروں پر بنائے جاتے ہیں جس سے عوام ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہتے ہیں جبکہ امیر اور سرمائے دار طبقے کے جرائم اور دولت دونوں کو تحفظ ملتا رہتا ہے اس کا اندازہ کرنے کیلئے میں آپ کو امریکہ سے شائع ہونیوالے اخباراردوٹائمز سکا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں جس نے 31مئی کے شمارے میں یہ رپورٹ شائع کی کہ گزشتہ تین سالوں میں پاکستان میں کروڑ پتی افراد کی تعداد میں بارہ ہزارافراد کا اضافہ ہوگیا ہے رپورٹ کے مطابق تین سال پہلے پاکستان میں 24423افراد کے اثاثے ایک کروڑ مالیت سے زائد تھے اور اب یہ تعداد بڑھ کر 36509ہوچکی ہے جبکہ دوسری جانب مہنگائی،بیروزگاری ،غربت اورغضبناک کرپشن کے ہاتھوں تنگ غریب عوام کے گھر میں ایک وقت کا کھانا بھی بڑی مشکل سے دستیاب ہوتا ہے اس تناظر میں چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرتی زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچاتی لیکن مہنگائی کم کرنے کے دعویدار حفیظ شیخ بتائیں کہ کھاد کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں کمی ہوگی یا زیادتی ؟یقیناََ زیادتی ہوگی اور یہاں یہ بات بھی قابل فکر ہے کہ 1184ارب روپے خسارے کے ساتھ پیش کیے جانیوالے اس بجٹ کو پورا کرنے کیلئے حکومت کوآئے روزmini budgetپیش کرنا پڑیں گے اور یہ سارا بوجھ اسی عوام پر پڑے گا جن کی زندگیاں پہلے ہی بہت مشکل ہو چکی ہیں اور کئی ایک تو حالات سے تنگ آکر خودکشی جیسا قدم بھی اٹھا لیتے ہیںیا دوسری صورت میں حکومت یہ خساری پورا کرنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض لے گی اور ظاہر ہے یہ بوجھ بھی اسی عوام پرہی پڑے گاجس کا پہلے ہی ہر پیدا ہونیوالا بچہ 60000روپے کا مقروض ہوتا ہے۔بجٹ میں سابق وزرائے اعظم اور صدور کیلئے تاحیات سیکیورٹی دینے کا اعلان اس عوام کیلئے ایک مذاق سے کم نہیں جس کی کسی پل بھی جان محفوظ نہیں آئے روز دہشتگردی کی وارداتوں میں بہنے والے خون کو دیکھتے ہوئے حکومت کو عوام کی سیکیورٹی کیلئے جامع اقدامات اور پالیسیاں تشکیل دینی چاہئے تھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا میں یہ پوچھنا چاہتا ہوںکہ ایک سابق وزیر اعظم یا صدر کا خون اس عام آدمی سے قیمتی کیسے ہوگیا کہ جس کے ووٹ نے ہی اسے اس مقام تک پہنچایا تھا سابق وزرائے اعظم کو سیکیورٹی دینے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے میاںنوازشریف نے کہا ہے کہ میں یہ سیکیورٹی ہرگز نہیں لوں حالاں کہ اخباری رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایک میاں نوازشریف کیا پوراشریف خاندان آج بھی حکومتی سیکیورٹی کے بھرپور مزے لے رہا ہے جن کی حفاظت پر پولیس اور ایلیٹ فورس کے 876اہلکار مامور ہیں اور اس تمام تر سیکیورٹی اور پروٹوکول کا خرچہ پنجاب حکومت اپنے خزانے سے اداکرتی ہے اس وی آئی پی کلچر نے ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکردیا ہے ۔توانائی بحران اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس نے ایک عام مزدور سے لے کر بڑے سے بڑے تاجرتک کو متاثرکیا ہے بیس بیس گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اہم ترین مسئلے کے حل کیلئے کسی بڑے اور اہم پروجیکٹ کیلئے رقم مختص نہیں کی گئی ہاں البتہ اس مد میں 183ارب روپے کی رقم سبسڈی کے نام پر ضرور رکھی گئی ہے جس کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ حکومت بجلی پیداکرنیوالی کمپنیوں سے بجلی12روپے فی یونٹ وصول کرکے عوام کو سات روپے میں فراہم کرتی ہے حیرت ہے کہ حکومت اتنی بڑی رقم عوام کو سبسڈی پر خرچ تو کررہی ہے لیکن توانائی بحران کو مستقل طور پر حل کرنے کیلئے ڈاکٹر ثمرمندمبارک کو فنڈز فراہم نہیں کررہی ۔قصہ مختصر یہ کہ یہ بجٹ ایک ناکام بجٹ ہے جس کو صرف پیپلز پارٹی کا بجٹ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوںکہ اس بجٹ پر پاکستان مسلم لیگ ق سمیت دیگراتحادی جماعتیں بھی کھل کرتنقید کررہی ہیںکیوں کہ اس میں عوام کو ریلیف نہ دئیے جانے کے باعث الیکشن میں انہیں عوام کی عدالت میں بڑی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
mian zakir hussain naseem
About the Author: mian zakir hussain naseem Read More Articles by mian zakir hussain naseem: 44 Articles with 28755 views my name is mian zakir hussain naseem i live in depalpur pakistan but i also running a construction company zhn group in america i am also president pm.. View More