وفاقی حکومت نے اپنے دور کا آخری
بجٹ پیش کردیا ہے جس پراس لحاظ سے موجودہ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس
سے قبل کسی بھی جمہوری حکومت کو پانچ بجٹ پیش کرنے موقع نہیں دیا بے شک
جمہوری روایات کا پروان چڑھناایک اچھی بات ہے جس کو مستقبل میں بھی جاری
رہنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت نے اس بجٹ
میں نہ صرف عوامی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ پیپلزپارٹی
کی اتحادی جماعتیں بھی اس پر احتجاج کرتی نظرآرہی ہیں اور مبصرین بجاطور پر
حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں سے یہ سوال پوچھتے نظرآتے ہیں کہ اس بجٹ کی
موجودگی میں وہ عوام سے کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے جس میں عوام کیلئے
کوئی ریلیف نہیں رکھا گیا ہے چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اپنے آخری بجٹ میں
ہی کچھ ایسے ہنگامی اقدامات اٹھاتی جن سے عوام کو کوئی فوری اور بڑاریلیف
ملتا تاکہ کل کو انہیں عوام کے سامنے کچھ سرخروئی ہوتی لیکن ایسا کچھ نہیں
کیا گیا بلکہ وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ صاحب تو یہ کہہ کر عوام کے زخموں پر نمک
چھڑک رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی بڑھی نہیں بلکہ کم ہوئی ہے اس کے بعد
سرمایہ داروں کی حمائت کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہاکہ امیرلوگ ٹیکس دینا
نہیں چاہتے اگر عوام کو سہولتیں درکارہیں تو وہ ٹیکس دے یہی وہ سوچ ہے جس
نے پاکستان کو ترقی و کامیابی سے روک رکھا ہے جس کے مطابق ملکی پالیسیاں و
قوانین عوامی امنگوں کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں بلکہ ملک پر قابض ایک مخصوص
طبقے کے اشاروں پر بنائے جاتے ہیں جس سے عوام ظلم و ستم کی چکی میں پستے
رہتے ہیں جبکہ امیر اور سرمائے دار طبقے کے جرائم اور دولت دونوں کو تحفظ
ملتا رہتا ہے اس کا اندازہ کرنے کیلئے میں آپ کو امریکہ سے شائع ہونیوالے
اخباراردوٹائمز سکا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں جس نے 31مئی کے شمارے میں
یہ رپورٹ شائع کی کہ گزشتہ تین سالوں میں پاکستان میں کروڑ پتی افراد کی
تعداد میں بارہ ہزارافراد کا اضافہ ہوگیا ہے رپورٹ کے مطابق تین سال پہلے
پاکستان میں 24423افراد کے اثاثے ایک کروڑ مالیت سے زائد تھے اور اب یہ
تعداد بڑھ کر 36509ہوچکی ہے جبکہ دوسری جانب مہنگائی،بیروزگاری ،غربت
اورغضبناک کرپشن کے ہاتھوں تنگ غریب عوام کے گھر میں ایک وقت کا کھانا بھی
بڑی مشکل سے دستیاب ہوتا ہے اس تناظر میں چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت غریب
عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرتی زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی
سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچاتی لیکن مہنگائی کم کرنے کے دعویدار حفیظ
شیخ بتائیں کہ کھاد کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں کمی ہوگی یا زیادتی
؟یقیناََ زیادتی ہوگی اور یہاں یہ بات بھی قابل فکر ہے کہ 1184ارب روپے
خسارے کے ساتھ پیش کیے جانیوالے اس بجٹ کو پورا کرنے کیلئے حکومت کوآئے
روزmini budgetپیش کرنا پڑیں گے اور یہ سارا بوجھ اسی عوام پر پڑے گا جن کی
زندگیاں پہلے ہی بہت مشکل ہو چکی ہیں اور کئی ایک تو حالات سے تنگ آکر
خودکشی جیسا قدم بھی اٹھا لیتے ہیںیا دوسری صورت میں حکومت یہ خساری پورا
کرنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض لے گی اور ظاہر ہے یہ بوجھ
بھی اسی عوام پرہی پڑے گاجس کا پہلے ہی ہر پیدا ہونیوالا بچہ 60000روپے کا
مقروض ہوتا ہے۔بجٹ میں سابق وزرائے اعظم اور صدور کیلئے تاحیات سیکیورٹی
دینے کا اعلان اس عوام کیلئے ایک مذاق سے کم نہیں جس کی کسی پل بھی جان
محفوظ نہیں آئے روز دہشتگردی کی وارداتوں میں بہنے والے خون کو دیکھتے ہوئے
حکومت کو عوام کی سیکیورٹی کیلئے جامع اقدامات اور پالیسیاں تشکیل دینی
چاہئے تھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا میں یہ پوچھنا چاہتا ہوںکہ ایک سابق
وزیر اعظم یا صدر کا خون اس عام آدمی سے قیمتی کیسے ہوگیا کہ جس کے ووٹ نے
ہی اسے اس مقام تک پہنچایا تھا سابق وزرائے اعظم کو سیکیورٹی دینے کے فیصلے
پر تبصرہ کرتے ہوئے میاںنوازشریف نے کہا ہے کہ میں یہ سیکیورٹی ہرگز نہیں
لوں حالاں کہ اخباری رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایک میاں نوازشریف کیا پوراشریف
خاندان آج بھی حکومتی سیکیورٹی کے بھرپور مزے لے رہا ہے جن کی حفاظت پر
پولیس اور ایلیٹ فورس کے 876اہلکار مامور ہیں اور اس تمام تر سیکیورٹی اور
پروٹوکول کا خرچہ پنجاب حکومت اپنے خزانے سے اداکرتی ہے اس وی آئی پی کلچر
نے ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکردیا ہے ۔توانائی بحران اس وقت ملک کا سب
سے بڑا مسئلہ ہے جس نے ایک عام مزدور سے لے کر بڑے سے بڑے تاجرتک کو
متاثرکیا ہے بیس بیس گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال
دیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اہم ترین مسئلے کے حل کیلئے کسی بڑے اور اہم
پروجیکٹ کیلئے رقم مختص نہیں کی گئی ہاں البتہ اس مد میں 183ارب روپے کی
رقم سبسڈی کے نام پر ضرور رکھی گئی ہے جس کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ
حکومت بجلی پیداکرنیوالی کمپنیوں سے بجلی12روپے فی یونٹ وصول کرکے عوام کو
سات روپے میں فراہم کرتی ہے حیرت ہے کہ حکومت اتنی بڑی رقم عوام کو سبسڈی
پر خرچ تو کررہی ہے لیکن توانائی بحران کو مستقل طور پر حل کرنے کیلئے
ڈاکٹر ثمرمندمبارک کو فنڈز فراہم نہیں کررہی ۔قصہ مختصر یہ کہ یہ بجٹ ایک
ناکام بجٹ ہے جس کو صرف پیپلز پارٹی کا بجٹ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوںکہ
اس بجٹ پر پاکستان مسلم لیگ ق سمیت دیگراتحادی جماعتیں بھی کھل کرتنقید
کررہی ہیںکیوں کہ اس میں عوام کو ریلیف نہ دئیے جانے کے باعث الیکشن میں
انہیں عوام کی عدالت میں بڑی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ |