سُروں کے شہنشاہ ، سنگیت کی دنیا
کا درخشاں ستارہ مہدی حسن ہندوستان کی ریاست راجستھان کے شہر جے پور سے
تقریباً ایک سو آٹھ میل کے فاصلے پر ضلع جھنجنو کے قصبے لونا میں ایک سنگیت
گھرانے میں اٹھارہ (18)جولائی سن 1927ءکوپیدا ہوئے۔ اس وقت” لونا “میں
سُروں کو بکھیرنے والا ایک خاندان آباد تھا جو لگ بھگ سولہ پُشتوں سے
موسیقی کے فن کے ساتھ وابستہ تھا۔ ان لوگوں کا تعلق موسیقی کے قدیم (پرانے
) گھرانے ”کلاونت “سے تھا۔ مہدی حسن کے والد استاد عظیم خان اور ان کے چچا
اسماعیل خان کا شمار بھی اُس زمانے کی سُر بکھیرنے والی موسیقی کی اہم ترین
”دھرپد“ گانے والے مایہ ناز فنکاروں میں ہوتا تھا اور انہیں جے پور ریاست
کے دربار میں بھی گانے کا اعزاز حاصل تھا۔ ریاست جے پور کے دربار سے منسلک
ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سب لوگ ہندوستان کے دیگر ریاستوں میں ہونے والی محفلِ
موسیقی کے بڑی محفلوں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ تقریباً چھ (6)
برس کی عمر میں مہدی حسن نے اپنے والد سے موسیقی کی تربیت کا آغاز کیا۔ یوں
تو ہر گائیک موسیقی کی تربیت ضرور حاصل کرتا ہے مگر مہدی حسن صاحب نے
موسیقی کی تربیت ”دھرپد“ جیسی مشکل اور نظم و ضبط کی حامل صنف میں حاصل کیا۔
پھر ان کے بزرگوں نے انہیں ٹھمری، دادرا، خیال اور دیگر دوسری موسیقی کا
ہنر بھر سکھایا۔ کمسنی میں ہی مہدی حسن نے گانے کی تربیت شروع کر دی تھی
اور ساتھ ساتھ ہی کہتے ہیں کہ جسمانی کسرت کا بھی آغاز کر دیا تھا، کیونکہ
پرانے گانے والے اور ان کے بزرگوں کے نزدیک گانے کیلئے پھیپھڑوں کا طاقتور
اور مضبوط ہونا لازمی ہے۔ تربیت حاصل کرتے ہوئے ابھی دو ہی برس گذرے تھے کہ
خان صاحب کے بزرگوں نے مہاراجہ بڑودہ کے دربار میں ان کے فن کا مظاہرہ کرا
دیایعنی صرف آٹھ برس کی عمر میں ہی انہوں نے فنِ گائیکی کے ماہرین سے داد و
تحسین پائی۔
وقت گزرتا گیا رات ، دن کی روشنی میں بدلتا رہا اور شام ، صبح کی کرنوں میں
تبدیل ہوتی رہی اور خان صاحب کی مشق و ریاضت کی مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔
سیاق و سباق مشکل تر ہوتے چلے گئے لیکن خان صاحب نے کسی موقعے پر بھی ہار
نہیں مانی بلکہ تمام تر مشکلات کا سامناکیا اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ
تمام رکاوٹوں نے انہیںسخت محنت کی وجہ سے راستہ دے دیا۔
قیامِ پاکستان سے آٹھ مہینے پہلے خان صاحب کے خاندان نے اپنا آبائی گھر
چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کر لی اور چیچہ وطنی میں آکر آباد ہو گئے۔ کچھ
لوگوں کا خیال ہے کہ شاید سرگودھا کو ان لوگوں نے اپنا نیا مسکن بنایا تھا۔
خان صاحب اس وقت صرف بیس برس کے تھے۔ نئے ملک میں پریشانیاں اس خاندان کے
استقبال کیلئے منہ کھولے کھڑی تھی۔ اس وقت خان صاحب کے بقول وہ سائیکل کی
دکان پر محنت مزدوری کرتے تھے۔ زمانہ میں ترقی کی راہ دیکھتے دیکھتے خان
صاحب نے سائیکل مکینک سے ڈیزل انجن مکینک بن گئے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی
ریاضت کو کبھی ترک نہیں کیا اور گائیکی کا تسلسل بھی جاری رکھا۔
سن 1952ءمیں خان صاحب اپنی کزن شکیلہ بیگم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک
ہوئے۔ ان کی شادی ملتان کے قصبہ رشید میں ہوئی پھر وہ کراچی شفٹ ہوگئے۔
انہوں نے ایک اور شادی بھی کر رکھی تھیں، دونوں بیویوں سے ان کے 14بچے ہیں۔
یہاں آئے تو پھر سے سُروں نے انہیں گُدگُدانا شروع کیا جو کہ ان کے خون میں
رچا بسا تھا، یوں ریڈیو پاکستان میں موسیقی کے حوالے سے پروگراموں میں حصہ
لینے کا آغاز کیا۔ سلیم گیلانی صاحب نے خان صاحب کی صلاحیتوں کو بھانپتے
ہوئے انہیں ریڈیو پر متعارف کرایا۔ ریڈیو سے جو معاوضہ انہیں ملتا تھا وہ
ظاہر ہے کہ ان کے گذر اوقات کے لئے ناکافی تھا اس لئے انہوں نے مکینک کے
کام کو بھی جاری رکھااور ایک گیراج میں کام کرنے لگے۔ یوں بسر اوقات جاری
رہی۔ گائیکی کا سفرجب عروج پر پہنچنے لگا توخان صاحب ریڈیوسے نکل کر فلموں
کیلئے بھی گانے لگے اور ان کے گائے ہوئے بے شمار گیت اور غزل آج بھی زندہ و
تابندہ ہیں۔ اس کے بعد تو ان کی کامیابی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا
اور آج دنیا انہیں شہنشاہِ غزل کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پاکستانی فلمی صنعت
میں مہدی حسن کی آواز میں جو نغمے ریکارڈ کئے گئے وہ پاکستان اور پاکستانی
فلمی صنعت کیلئے یقینا نایاب گوہر ہیں۔ خان صاحب کا فلمی کیریر 1962ءسے
1985ءکے دوران اپنے عروج پر تھا۔ ان کے گائے ہوئے فلمی نغمے پاکستانی فلمی
ہیروز جن میں محمد علی، وحید مراد، ندیم، شاہد، غلام محی الدین اور دیگر پر
پکچرائز کیا گیا ۔کئی گانوں نے بے شمار ایوارڈ بھی حاصل کیا جن میں ملکی
اور غیر ملکی ایوارڈ شامل ہیں۔ ان کے گائے ہوئے فوجی جوانوں کے ملی نغمے
بھی آج تک اپنے بامِ عروج پر ہیں۔مہدی حسن خان صاحب نے نو مرتبہ” نگار
ایوارڈ“حاصل کیا۔جنرل ایوب خان نے انہیں”تمغہ امتیاز“ سے بھی نوازا۔پھر
جنرل محمد ضیاءالحق نے انہیں ”پرائڈ آف پرفامنس ایوارڈ“ عطا کیا جوکہ
پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہے۔”ہلالِ امتیاز ایوارڈ“ جنرل پرویز
مشرف نے دیا۔ ہندوستان کے شہر جالندھر میں انہیں ”سیگل ایوارڈ“ دیاگیا اس
کے علاوہ نیپال کی حکومت نے بھی خان صاحب کی فنی خدمات کو سراہتے ہوئے وہاں
کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ”گورکھا دکشنا باہو“سے بھی نوازا۔ یہ ایوارڈ نیپال کے
اس وقت کے بادشاہ نے انہیں پیش کیا۔ اس موقعے پر خان صاحب کواکیس توپوں کی
سلامی بھی دی گئی۔
خان صاحب عرصہ دراز سے پھیپھڑوں اور سانس کی بیماری میں مبتلا تھے انہیں
شوکر بھی لاحق تھا۔ علاج و معالجہ میں گو کہ ان کے عزیزوں نے بڑھ چڑھ کر ان
کی خدمت کی اور جتنا ہو سکا اپنے خرچے سے ان کا علاج ملک کے مشہور ہسپتالوں
میں کروایا اس کے علاوہ گورنر سندھ اور سندھ حکومت نے بھی ان کے علاج و
معالجہ کیلئے رقم فراہم کی اور ہر طرح سے ان کا علاج کروایا گیا۔ اب بھی وہ
آغا خان ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرِ علاج تھے کہ کل بروز
بدھ دن کے تقریباً سوا بارہ بجے خالقِ حقیقی کی طرف سے ان کا بلاوا آگیا۔
اور یوں ملک کے مایہ ناز سپوت، غزل کی دنیا کے شہنشاہ، بے شمار ایوارڈ کے
حامل خان صاحب 84برس کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔اور انہوں نے
پاک و ہند میں اپنے کروڑوں پرستاروں کو سوگوار چھوڑ دیا۔ان کی تدفین جمعة
المبارک کے روز ان کے فرزندان کی امریکہ سے واپسی پر ہوگی۔اللہ تبارک و
تعالیٰ ان کے لواحقین سمیت کروڑوں چاہنے والوں کو بھی صبرِ جمیل عطا کرے۔
اور خان صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔(آمین)
ان کے اس اچانک رحلت نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی فضا کو
بھی سوگوار کر دیا ہے۔لتا منگیشکر نے اپنے تاثرات میں کہا کہ خان صاحب کی
آواز میں بھگوان بولتا تھا۔ دلیر مہدی نے کہا کہ میں ان سے اتنا متاثر تھا
کہ میں نے اپنے نام کے ساتھ مہدی لگایا ہوا ہے۔ پنکج ادھاس نے اپنے تاثرات
میں کہا کہ میں خان صاحب کا مرید ہوں۔ ان کی غزل کو سنتے ہی مجھ پر جیسے
جادو ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی ملکی و غیر ملکی مندوبین خان صاحب کو اپنے
اپنے تاثرات سے نواز رہے ہیں۔
آخر میں ،میں خان صاحب کا ہی گایا ہوا ایک گیت کے شعر کو نقل کیئے دیتا ہوں
، اس شعر کی تشریح کرنے بیٹھوں تو کئی صفحات درکار ہونگے۔ اس لئے صرف شعر
پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔
اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملے
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملے |