ریاض ملک اور ارسلان افتخار کیس کے پیچھے حکومت یا صدر زرداری کا ہاتھ نہیں ہوسکتا
(imran changezi, karachi)
صدرزرداری کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ
ارسلان افتخار جیسے کیس کھڑے کرکے اپنا وقت ضائع کریں کیونکہ آگسٹا آبدوز
کمیشن کیس ایک بار پھر زندہ ہونے والا ہے سرکوزی کی گرفتاری اور آگسٹا
آبدوز کیس پر تحقیقات ایک بار پھر شروع ہونے کی صورت صدر زرداری کیلئے
مصائب و مسائل پیدا ہوسکتے ہیں بار ہ برس بد ترین صعوبتیں برداشت کرنے والا
عدلیہ کے خلاف سازشوں میں وقت برباد کرنے کی بجائے اپنے آنے والے برسوں کو
مصائب سے بچانے کے اقدامات کریگا-
میں اپنے سابقہ کالم میں بھی یہ بات تحریر کرچکا ہوں کہ چیف جسٹس افتخار
چوہدری سے موجودہ حکمرانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ حکومت اپنی مدت کے
اختتامی مراحل میں ہے اور آزاد عدلیہ نے یقینا حکومت کے خلاف سوموٹو ایکشن
لینے اور کیس چلانے کی جرات کا مظاہرہ تو کیا ہے مگر یا تو کیس طوالت کے
باعث اب تک فیصلوں سے محروم ہیں یا پھر ”چونکہ چنانچہ“ قسم کے فیصلوں کے
باعث تعمیل و تکمیل سے دور اس لئے موجودہ حکمرانوں کیلئے چیف جسٹس افتخار
چوہدری اتنا بڑا خطرہ نہیں کہ وہ ملک ریاض جیسے شخص کوچیف جسٹس کے خلاف
استعمال کے ملک ریاض کے پیچھے دراصل ان حلقوں کا ہاتھ ہے تو آمرانہ مزاج
رکھتے ہیں اور جب جمہوریت کو رخصت کرتے ہیں تو ایمرجنسی کے نام پر عدلیہ پر
بھی شب خون مارتے ہیں اور جب جمہوریت کے نام پر اپنے منظور نظر افراد کو
عوام پر مسلط کرتے ہیں تو ڈری سہمی عدلیہ چاہتے ہیں اور جب عدلیہ ایسا کرنے
سے انکار کردیتی ہے تو پھر عدالتوں پر حملے جیسے واقعات نظر عام پر آتے ہیں
جبکہ افتخار چوہدری چونکہ ڈرنے والا انسان نہیں ہے اس لئے آئندہ اقتدار کی
باری کے منتظر جمہوریت پسندوں کیلئے بھی یہ بات کسی طرح قابل قبول نہیں کہ
جسٹس سجاد حسین شاہ سے بھی زیاد ہ آزاد و غیر جانبدار کوئی شخص سپریم کورٹ
میں چیف جسٹس کی مسند پر موجود ہو جبکہ اشاریہ یہ بات بھی بتارہے ہیں کہ
جمہوریت کا سفر اپنی ڈیڈ لائن کے بالکل نزدیک پہنچ چکا ہے اور اس سے آگے
آمریت کی حد ہے کیونکہ جمہوریت کے استحکام کا عزم کرنے والے اشفاق پرویز
کیانی ریٹائرمنٹ کے نزدیک ہیں جبکہ حسین حقانی کو بکرا بناکر میمو کیس کے
ذریعے جنرل شجاع پاشا کو گھر بھجوادیا گیا ہے اور آنے والا نیا سربراہ
عساکر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے خیالات و کردار سے کس حد تک متاثر ہوگا اس
بارے میں فی الوقت کوئی رائے نہیں دی جاسکتی البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے
کہ جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھانے والی جماعتوں کے اتحاد نے ہی ہمیشہ
جمہوریت کی ناؤ میں سوراخ کرکے اسے غرقاب کیا ہے اور ایسا ہی ایک اتحادایک
بار پھر بنتا دکھائی دے رہا ہے جو یقینا جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں ہے ۔
ارسلان افتخار کیس کے حوالے سے پھیلایا جانے والا یہ تاثر کہ ملک ریاض
حکومتی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے ارسلان افتخار کے ذریعے چیف جسٹس کو ٹارگیٹ
کررہا تھا سو فیصد درست اسلئے نہیں ہوسکتا کہ ارسلان افتخار کے بارے میں
میڈیا پر ہی یہ رپورٹ بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ اس کے اثاثے 900کروڑ سے
زائد ہیں جبکہ اس کے بزنس کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ وہ کرتا کیا ہے
جبکہ اس کا اعتراف تو چےف جسٹس بھی کرچکے ہیں کہ وہ بھی نہیں جانتے کہ
ارسلان افتخار کیا کاروبار کرتا ہے جبکہ ارسلان افتخار کیس میں عدالت میں
داخل کئے ّئے ثبوت و شواہد اخراجات کی تفصیلات اور ویڈیو و آڈیو جہاں اس
کیس کے حقیقی ہونے کیلئے کافی وہیں اس بات کو بھی ثابت کررہی ہیں کہ اس
حقیقی کیس کے پیچھے بھی یقینا ایک پوری منصوبہ بندی شامل ہے جو دویا چاردن
کی نہیںبلکہ سالوں پر محیط ہے اور اتنی طویل منصوبہ بندی کرنا حکومت کا کام
نہیں ہے جو شطرنج کے کھیل میں مہروں کی حیثیت رکھتی ہے ا س ساری منصوبہ
بندی کے پیچھے وہی ہاتھ کارفرما ہے جو مہروں کو ادھر ادھر کررہا ہے اور اس
کے ہاتھ کی دسترس میں پیادے ‘ گھوڑے اور فیلے ہی نہیں بلکہ وزیر اور بادشاہ
بھی ہیں کیونکہ دنیا ٹی وی کا آف دی کیمرہ انٹرویو ایسے ہی منظر عام پر
نہیں آیا بلکہ شاطروں نے انتہائی مہارت سے ریاض ملک کو ہما بخاری اور مبشر
لقمان کے سامنے بٹھاکر اس کی ڈوئل ریکارڈنگ اس طرح سے کرائی خود مبشر لقمان
تک کو خبر نہ ہوسکی اور پھر آف ایئر انٹرویو کلپس منظر عام پر لاکر اس میں
بڑی ہوشیاری سے یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادی غلام قادر گیلانی کی کال کے
تذکرے کے ذریعے یہ ثابت تو کیا ہی گیا کہ ریاض ملک کے پیچھے حکومت اور
وزیراعظم موجود ہیں مگر ایک تیر سے دوشکار کے مترادف مبشر لقمان کو بھی
نشانہ بناکر مشرف حمایت کی سزادی گئی اور میڈیا کو بھی عدلیہ کی طرح یہ
تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہم سے ہاتھ ملاکر چلوگے تو ٹھیک ورنہ میڈیا کے
ساتھ بھی وہ کچھ ہوسکتا ہے جو سابق عدلیہ اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے
ساتھ ہو اتھا اور اس سارے منظر میں ہمارے وہ سینئر صحافی جو ہمیشہ آمریت کی
مخالفت اور آمر کی گود میں پرورش پانے والوں کی حمایت کی وجہ سے معمولی پھٹ
پھٹی سے کرولا میں آچکے ہیں اور کرائے کے مکان چھوڑکر اپنے عالیشا ن بنگلوں
میں شفٹ ہوچکے ہیں ریاض ملک کے انٹرویو کے آف ایئر کلپس منظر پر لانے والوں
کو ہیرو بناکر پیش کررہے ہیں اور اسے گمنام مجاہد قرار دے رہے ہیں جبکہ یہ
مذکورہ انٹرویو ‘ آن ایئر گفتگو اور آف ایئر کلپس کی ریکارڈنگ ‘ ان کا منظر
عام پر لانا ‘ اس میں قادر گیلانی کی فون کال کو ظاہر کرنا ‘ مہر بخاری کو
معاف کرکے مبشر لقمان کو نشانہ بنانا سب ہی ان مہارتیوں کا کھیل ہے جو وزیر
کو گھوڑے سے پٹواکر پیادے سے بادشاہ کو ”شہ “ دلادیتے ہیں-
عام تاثر یہ ہے کہ ریاض ملک اور ارسلان افتخار کیس میں حکومت کا ہاتھ ہے
اور وہ صدر زرداری کو احتساب سے بچانے کیلئے ایسا کیا جارہا ہے مگر دانستہ
پروموٹ کیا جانے والایہ تاثر ہم جیسے تجزیہ نگاروں کیلئے یوں قابل قبول
نہیں ہے کہ صدر زرداری پر سوئس اکاؤنٹ کیسز کے علاوہ فرانس کے سابق صدر
سرکوزی کے مشہور زمانہ اسکینڈل آگسٹا آبدوزوں کی خریداری میں بھاری کمیشن
کی وصولی کے الزامات بھی ہیں اور چونکہ اب فرانس کے سابق صدر سرکوزی صدر
نہیں رہے ہیں بلکہ ان کی صدارت حیثیت عنقریب ختم ہونے والی ہے جس کے بعد
پولیس انہیں گرفتار کرکے اس کیس پر مزید تفتیش کرے گی اور چونکہ سرکوزی کے
بہت سے ساتھی پہلے ہین پولیس حراست میں موجود ہیں اسلئے سرکوزی کی گرفتاری
کے ساتھ ہی آگسٹا آبدوزوں کے لین دین میں کمیشن کیس بھی ری اوپن ہوجائے گا
جس میں صدر زرداری کا نام بھی لیا جارہا ہے اس صورتحال میں سرکوزی کے ساتھ
ساتھ صدر زرداری پر بھی فرانس میں مقدمہ درج ہوگا اس صورتحا ل میں صدر
زرداری کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ریاض ملک یا ارسلان افتخار جیسی مہم
جوئی میں اپنا وقت ضائع کریں بلکہ ان کی ترجیحات میں اولیت اس وقت یقینا
آگسٹا آبدوز کیس ہوگا جس میں سرکوزی کی گرفتاری و مزید تفتیش اور فرانس میں
کسی مقدمے کے اندراج کی صورت صدر زرداری کیلئے نہ صرف بہت سے مسائل پیدا
ہوسکتے ہیں بلکہ شاید ایکبار پھر ان کی زندگی ان مصائب سے دوچار ہوسکتی ہے
جنہیں انہیں مزید کئی برس بھگتنا ہوگا ! |
|