ٹیگور نے کہا تھا روشنی جہاں سے
ملے لے لو یہ مت دیکھو مشعل بردار کون ہے۔پاکستان روز اول سے مغرب کا حلیف
رہا ہے۔ پاکستانیوں بالخصوص بالادست طبقات اور حکمرانوں نے مغربی تہذیب و
ثقافت کی نقالی روشن خیالی کی نگہبانی اور مغربی اقاووں کے پراگندہ جذبات
کی ترجمانی تو خوب کی تاہم انہوں نے یورپی سماج میں پائے جانیوالے اوصاف
حمیدہ کی نہ تو کبھی پیروی کی اور نہ ہی کبھی انکی افزائش کی زحمت کی۔ گو
کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے حاصل کردہ نئی ریاست کا منشور
اسلام اور جمہوریت کی بنیادوں پر تعمیر ہوا مگر ملکی تاریخ کی چھ صدیوں میں
جو حشر اسلامی تعلیمات اور جمہوریت کا ہوا وہ قابل نفریں بھی ہے اور قابل
مذمت بھی۔ برطانیہ میں نمود و نمائش کے بغیر وزیراعظم کا انتخاب دارلعلوم
کے اجلاس میں سادگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد وزیراعظم کسی وی وی
آئی پی سیکیورٹی کے بغیر برمنگھم پیلس جاکر ملکہ کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہے۔
وہاں ہماری طرح بینڈباجوں سلامیوں اور ڈھول کی تھاپ کے سروں میں سجی ہوئی
تقریب حلف برادری کے نام پر کروڑوں روپے خرچ نہیں کئے جاتے۔ملکہ سے آشیرباد
لینا حلف برداری کہلاتی ہے اور تقریب حلف وفاداری ۔ وزرا کے لئے بھی کسی
علیحدہ تقریب کا انعقاد نہیں ہوتا۔ وزیراعظم اور وزرا کے انتخاب کے موقع پر
نہ تو کوئی فوجی پریڈ منعقد ہوتی ہے اور نہ ہی بینڈ باجوں کی دھنیں کانوں
میں رس گھولنے کا کام کرتی ہیں۔ بھارت کے سابق وزیراعظم مرار جی ڈیسائی نے
ایک مرتبہ للچائی ہوئی نظروں سے پاکستانی حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کی
توصیف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قبیلہ انتہائی خوش بخت ہے کیونکہ انہیں جو
عوام میسر آئی ہے جو انکی دیوتاؤں کے سمان پوجا کرتے ہیں۔ کاش ہم بھارتی
سیاستدانوں و سیاسی جماعتوں کو ایسی خوش نصیبی میسر ہوتی۔ فرانس کا شمار
دنیا کے کے طاقتور اور امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے مگر اسکے حکمرانوں کی
دیانت داری سادہ طرز عمل اور انسانیت دوستی و محب وطنی دیکھر آنکھوں پر
سکتہ طاری ہوجاتا ہے فرانس میں سرکوزی کے بعد موسیا ولاندے سریرائے مملکت
ہوئے تو انہوں نے اپنے معمولات زندگی تبدیل نہیں کئے ۔ وہ روزانہ پیدل واک
کرکے مارکیٹوں میں گھوم کر شاپنگ کرتے ہیں۔وہ دوستوں اور فرانسیسی لوگوں سے
عام انسانوں کی طرح گپ شپ مارتے ہیں۔وہ ابھی تک کرائے کے اپارٹمنٹ میں
رہائش پزیر ہیں۔پیرس کا صدارتی محل دنیا کی دو چار خوبصورت ترین عمارتوں
میں ہوتا ہے مگر موسیا اولاندے ابھی تک وہاں نہیں پہنچے۔ موسیا ولاندے نے
رضاکارانہ طور پر صدارتی اخراجات اور اپنی تنخواہوں میں 30 فیصد کمی کردی۔
انکی شریکہ حیات جو فرانس کی خاتون اول ہیں وہ بھی سبزیاں اور پھل کی
خریداری کی خاطر ریڑھیوں اور عام دوکانوں پر دیکھی جاتی ہیں۔خاتون اول نے
الیکشن سے پہلے مارکیٹ میں شاپنگ کے دوران دوکانداروں اور اپنے چاہنے والوں
کے ساتھ برسرعام وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خاتون اول بننے میں کامیاب ہوگئیں
تو پھر بھی اسی طرح آپ کے پاس آتی رہونگی۔ خاتون اول نے اپنے وعدے کے ایک
ایک حرف کو سچ کردکھایا۔ خاتون اول ویلر دانشور اور تجزیہ نگار ہیں وہ
صحافی کی حثیت سے پیرس سے شائع ہونے والے میگزین paris match میں نوکری
کرتی ہیں۔انہیں قلمی مزدور کے نام سے کافی شہرت حاصل ہوئی۔وہ پچھلے بیس
سالوں سے اپنی قلمی مشقت سے حاصل کردہ تنخواہ سے اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی
ارہی ہیں۔ paris ویلر ٹرائیر نامی خاتون اول کا تعلق مشرقی فرانس سے ہے۔ وہ
برملا کہتی رہتی ہیں کہ وہ قومی خزانے سے ایک پائی تک خرچ نہیں کرتی۔ خاتون
اول کی موسیا اولاندے کے ساتھ تیسری شادی ہے اور وہ تین بچوں کی ماں ہے۔
ویلر ٹرائیر اور انکے شوہر نامدار match نے صدر کی جیت کے بعد خصوصی ایڈیشن
شائع کیا جسکا عنوان اولاندےcharming gasettes تھا۔ خاتون اول ویلر نے اپنے
شوہر کے حق میں چھاپے جانیوالے ایڈیشن کو ایک طرف نہ تو پسند کیا اور نہ ہی
اخباری عملے کو شاباش دی۔ ویلر نے سخت خفگی اورناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
صدر فرانس ایک طرف کھانا پکانے میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹاتے ہیں تو دوسری
طرف وہ اکٹھے بازار جا کربچوں کے سامان کی شاپنگ کرتے صدر فرانس کی پرٹنرشپ
کا سہارا نصیب ہوتا ہے۔ سرکوزی کے دور میں فرانس کا مالیاتی نظام کمزور سے
کمزور تر ہو گیا۔ فرانس مغرب کا طاقتور معاشی ملک یا یورپی یونین کا پہلا
امیر ترین ملک تھا۔ سرکوزی نے سامراجی پالیسیوں کے کارن مضبوط معیشت کی
چولیں تک ہلا دیں اور یہی فیکٹر سرکوزی کی شکست اور موسیا اولاندے کی جیت
کا سبب بنا۔اولاندے کو کئی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ بے روزگاری کا اژدہام
روز بروز رو افزوں ہے۔ اولاندے کس طرح ملک کی معاشی حالت میں بہتری لاتے
ہیں؟ کیا وہ کٹھن مشکلات پر قابو پالیں گے؟ کیا وہ بے روز گار نوجوانوں کو
نوکریاں دے پائیں گے؟ ان سوالات کے جوابات اور ان پر تبصرہ قبل از وقت ہوگا
تاہم راقم الحروف کے عقل و خرد میں اولاندے کی کامیابی کی گھنٹی بج رہی
ہے۔خلیل جبران نے اپنے مقولے میں کہا تھا کہ اگر کوئی ملک جنگ یا افات
سماوی میں تہس نہس ہوجائے کیا وہ دوبارہ کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کا راز تلاش
کرسکتا ہے ہاں دلیر اور ایماندار لیڈرشپ کی نگرانی میں تباہ شدہ قومیں
دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجایا کرتی ہیں۔اولاندے دل و جان سے قوم کی
خدمت کرنے کا جنون پالے ہوئے ہیں۔ انکا ماضی کرپشن ہوس زر و اقتدار کی کالک
سے مبرا ہے۔ اولاندے اپنے اپکو بادشاہ سمجھنے کی بجائے اپنے اپکو انکا خادم
سمجھتے ہیں۔ اولاندے کا شمار ان معدودے چند صدور میں ہوتا ہے جو عوام کے
سروں کی بجائے عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ صدر فرانس کو فوری طور پر تین
مسائل سے جنگ لڑنی ہے۔ اول ۔معاشی نظام کا استحکام دوم ۔سیاسی انتشار ،خلفشار
کا خاتمہ اور جمہوری استحکام سوم ۔یورپ اور دنیا بھر میں فرانس کے نئے
دوستوں کی تلاش اولاندے پر عزم ہیں کہ وہ عوامی حمایت کے بل بوتے پر تینوں
مسائل پر کامیابی کا طرہ پہن سکتے ہیں۔ اگر فرنچ صدر اولاندے اور خاتون اول
کی تابناک داستان کے تناظر میں جب ہم مملکت خداداد پاکستان کے حالات اور
واقعات کا تجزیہ کریں تو ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے کیونکہ ایک ایسے ملک
میں جہاں7 کروڑ مجذوب پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہوں جہاں
40 فیصد بچوں کو تعلیم و صحت کی سہولت میسرنہ ہو جہاں روزانہ اربوں کرپشن
کی جیب میں چلے جائیں جہاں فرقہ واریت کی افراط و تفریط روزانہ انسانیت کا
خون بہاتی ہو جہاں سیاست دان ترقیاتی فنڈز کے اربوں ہڑپ کرجاتے ہوں جہاں
جمہوری اور معاشی استحکام کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ ہو جہاں
جمہوریت اور عدل کا بلاتکار روزکا معمول بن جائیں تو کیا وہاں قوم کے لئے
روشن مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے؟ نہیں ۔ کیا پاکستان میں ایک اولاندے کی
ضرورت ناگزیر اور لازم نہیں ہوچکی؟ کیا ہماری بیوروکریسی سیاسی رہنما،طبقہ
اقتدار کے لیلائے مجنوں ارباب اختیار اولاندے کی پیروی نہیں کرسکتی؟ اگر
ہمیں وجود پاکستان کی فکر ہے ریاستی سلامتی کی حفاظت مقصود ہے اگر ہم ماں
دھرتی سے بھوک ننگ حسرت و یاس غربت استحصال اور پسماندگی کا خاتمہ چاہتے
ہیں تو اسلام اباد کے دونوں بڑے محلات کے مکینوں کی الائش و زیبائش کے لئے
مختص ہونے والے اربوں کے فنڈز کا استعمال روک دیا جائے۔ ہمیں اولاندے کی
پیروی کرنے میں کسی قسم کی جھلائٹ و ہچکچاہٹ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں
کیونکہ ٹیگور نے درست ہی کہا تھا روشنی جہاں سے ملے فوری حاصل کرو یہ مت
دیکھو کہ مشعل بردار کون ہے۔ |