امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ

امام بخاری اور مسلم کے بعد جو امام حدیث سب سے زیادہ مرتبہ اور مقام کے مالک ہیں وہ اما م ابوداؤد سجستانی ہیں جس زمانہ میں امام ابوداؤد نے تصنیف و تالیف کاآغاز کیا اس وقت عام طور پر علم حدیث میں جوامع اور مسانید کی تالیف کی جاتی تھی انہوں نے سب سے پہلے کتاب السنن لکھ کر علم حدیث میں ایک نئی راہ دکھلائی اور اس کے بعد متعدد وآئمہ حدیث نے ان کے چراغ سے چراغ جلانے شروع کردیئے اور فن حدیث میں کتب سنن کا ایک قابل قدر ذخیرہ جمع ہوگیا۔

امام ابوداؤد علم و حکمت میں جس طرح بے مثال تھے اسی طرح عبادت و ریاضت میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ، علماءاور فضلاءان کی خدمت میں حاضر ہوتے ، اولیاءکرام ان کی زیارت کے لیے آتے اور احکام وقت ملاقات کے لیے پہروں ان کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے اللہ تعالی نے انہیں بے پناہ شہرت اور مقبولیت عطا فرمائی تھی وہ جس قدر دین کی خدمت کی لگن رکھتے تھے اللہ تعالی نے ان کا نام اتنا ہی اونچا کردیا۔

ولادت و سلسلہ نسب :
امام ابوداؤد کے نسب میں اختلاف ہے حافظ ابن حجر عسقلانی نے آپ کا نسب ابوداؤد سلیمان بن الا شعث بن شداد بن عمرو بن عامر بیان کیا ہے بعض لوگوں نے عامر کی جگہ عمران بھی لکھاہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران جنگ صفین میں حضرت علی کی رفاقت میں شہید ہوگئے تھے اور ابن داستہ اور آجری نے آپ کا نسب یوں بیان کیا ہے حافظ ابوداؤد سلیمان بن الشعث بن اسحاق بن بشیر بن شدادسجستانی ( حافظ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ تہذیب التہذیب ج 4 ص169 )

امام ابوداؤد 202 ھ کو سجستان میں خاندان ازو کے ایک معزز گھرانے میں پیداہوئے یہ سال ولا دت خود امام ابوداؤد کا بیان کردہ ہے ۔

وطن مالوف :
اس بات پر مورخین کا اتفاق ہے کہ امام ابوداؤد کا وطن سجستان ہے البتہ سجستان کے تعین میں مورخین کا اختلاف ہے ابن خلطان نے بیان کیا ہے کہ سجستانی کی نسبت سجستان کی طرف ہے جو بصرہ کی ایک بستی ہے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اس پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس نسبت کی تحقیق میں ابن خلطان نے مغالطہ کھایا ہے اور ان جیسے شخص سے اس مغالطہ پر حیرت ہے کیونکہ انہیں تاریخ اور تصحیح النساب میں کمال حاصل ہے چنانچہ امام تاج الدین سبکی نے بھی ان کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ابن خلطان کا وہم ہے اور صحیح یہ ہے کہ سجستانی کی نسبت سجستان کی طرف ہے او ر وہ سندھ اور ہرات کے درمیان قندھار سے متصل ایک مشہور ملک ہے جو ہند کے پہلو میں واقع ہے اور بزرگان چشت کا مشہور شہر چشت بھی اسی ملک میں ہے ، زمانہ قدیم میں نسبت اس ملک کا پایہ تخت تھا اہل عرب اس ملک کی طرف نسبت کرتے ہوئے سجزی بھی کہہ دیتے ہیں ۔ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی المتوفی 1239 ھ بستان المحدثین صفحہ 283 )

تحصیل علم حدیث :
ابتدائی تعلیم کے بعد امام ابوداؤد نے علم حدیث کی طرف رغبت کی اور اپنے وقت کے مشہور ور جید اساتذہ ور جلیل القدر آئمہ حدیث سے اس علم کو حاصل کیا ، علم حدیث کی تحصیل کی خاطر انہوں نے متعدد اسلامی شہروںکا سفر کیاخاص طور پر مصر،شام ،حجاز ،عراق اور خراسان وغیرہ میں کثرت کے ساتھ قیام کرکے علم حدیث حاصل کیا ۔

سنن ابوداؤد میں انہوں نے اپنے ایک سفر کا واقعہ لکھا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے مصر میں ایک لمبی ککڑی دیکھی جس اس کی پیمائش کی تو وہ تیرہ بالشت نکلی نیز میں نے ایک بہت بڑا ترنج دیکھا جب اس کو کاٹ کر اونٹ پرلادا تو اس کے دونوں حصے بڑے نقاروں کی مانند معلوم ہوتے تھے ۔ ( الحافظ شمس الدین الذہی المتوفی 748 ھ تذکرۃ الحفاظ ج 2 صفحہ 592 )

خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ امام ابوداؤد بصرہ میں سکونت رکھتے تھے اور تحصیل علم کے دوران ان گنت مرتبہ بغداد گئے اور وہیں بیٹھ کر انہوں نے اپنی کتاب السنن لکھی ، امام ابوداؤد نے اپنے بصرہ کے سفر کا ایک واقعہ لکھا کہ میں عثمان موذن سے سماع کے لیے بصرہ گیا جس دن بصرہ پہنچا اسی دن ان کا انتقال ہوا ،(الحافظ ابن حجر العسقلانی المتوفی 852 ھ تہذیب التہذیب ج4 صفحہ 170 )

سادگی :
امام ابوداؤد حفظ حدیث ، اتقان روایت اور عبادت و ریاضت میں جس قدر بلند درجہ پر فائز تھے طبیعت کے اعتبار سے اسی قدر سادہ اور منکسر المزاج تھے ان کی سادگی اور بے نفسی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ایک آستین، فراخ اور دوسری آستین تنگ رکھا کرتے تھے جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا ایک آستین کشادہ اس لیے رکھتا ہوں کہ اس میں اپنی کتاب کے کچھ اجزا رکھ سکوں اور دوسری آستین بلا ضرورت کشادہ رکھنا اسراف میں داخل سمجھتا ہوں ۔( الحافظ شمس الدین الذہبی المتوفی 748 ھ تذکرۃ الحفاظ ج2 صفحہ 171 )

اساتذہ :
جن مشاہیر اور اعاظم اساتذہ حدیث سے امام ابوداؤد نے روایت حدیث کی ہے ان کی پوری فہرس تو بے حد طویل ہے چند اسماءیہ ہیں :ابو سلمہ بتوزکی ، ابو الولید طیالسی ، محمد بن کثیر العبدی ، مسلم بن ابراہیم ، ابو عمر حوضی ، ابوتوبی حلبی ، سلیمان بن عبد الرحمن دمشقی ، سعید بن سلیمان واسطی ، صفوان بن صالح دمشقی ، ابوجعفر نفیلی ، احمد ، علی ، یحیٰی ، اسحق ، قطن بن نسیریہ اسماءعلامہ ابن حجر نے ذکر کیے ہیں ۔( الحافظ ابن حجر المتوفی 852 تہذیب التہذیب ج 4 ص 169) ان کے علاوہ حافظ ذہبی نے ابو عمرو ضریر ، قعنبی ، عبد اللہ بن رجاء، احمد بن یونس اور سلیمان بن حرب کا بھی امام ابوداؤ د کے اساتذہ بھی تذکرہ کیا ہے ۔ ( امام شمس الدین ذہبی متوفی 748 ھ تذکرؤ الحفاظ ج 2 صفحہ 591)

امام ابوداؤد خود اپنے مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میںنے ابوعمرو ضریر سے ایک مجلس میں سماع کیا ، ایک مجلس میں سعدویہ سے سماع کیا اسی طرح عاصم بن علی سے بھی ایک مجلس میں سماع کیا نیزفرماتے ہیں کہ میں عمر و حفص کے پیچھے ان کے گھر گیا لیکن ان سے کسی چیز کا سماع نہ کرسکا ، آجری کہتے ہیں کہ امام ابوداؤد نے ابن حمانی ، سوید ، ابن کا سب ، ابن حمید اور ابن وکیع سے کبھی حدیث روایت نہیں کی اور خلال بیان کرتے ہیں کہ امام ابوداؤد نے امام احمد بن حنبل سے بھی ایک حدیث کا سماع کیا تھا اور وہ اس بات پر بے حد فخر کیا کرتے تھے ۔(حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ تہذیب التہذیب ج4 صفحہ 171)

تلامذہ :
امام ابوداؤد کے تلامذہ کا حلقہ بھی بے حد وسیع تھا ، حافظ ابن حجر عسقلانی نے آپ کے تلامذہ میں ان حضرات کا ذکر کیا ہے :۔ ابو علی محمد بن عمرو اللولوئی ، ابو طیب ، احمد بن ابراہیم عبد الرحمن اشنانی ، ابو عمرو احمد بن علی بن الحسن البصری ، ابو سعید احمد بن محمد بن زیاد اعرابی ، ابو بکر محمد بن عبد الرزاق بن داستہ ، ابو الحسن علی بن الحسن بن العبد الانصاری ابو عیسٰی بن اسحق بن موسیٰ بن سعید رعلی ، وراقہ ، ابو اسامۃ محمد بن عبد الملک بن یزید رواس یہ وہ خوش نصیب حضرات ہیں جنہوں نے امام ابوداؤد سے سنن ابوداؤد کو روایت کیا ہے ان کے علاوہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن یعقوب البصری ہیں جنہوں نے امام ابوداؤد سے کتاب الرو علی اہل القدر کو روایت کیا ہے اور ابو بکر احمد بن سلیمان النجار ہیں جنہوں نے امام ابو داؤد سے کتاب الناسخ والمنسوخ کو روایت کیا ہے اور حافظ ابو عبید محمد بن علی عثمان آجری ہیں انہوں نے امام ابوداؤد سے کتاب المسائل کو روایت کیا ہے اور اسماعیل بن محمد صغار ہیں انہوں نے امام ابوداؤد سے مسند مالک کو روایت کیا ہے ان کے علاوہ امام ابو عبد الرحمن نسائی امام ابو عیسی ترمذی ، حرب بن اسماعیل کرمانی ، ذکریا ساجی ، ابو بکر احمد بن محمد بن ہارون الخلال الحنبلی ، عبد اللہ بن احمد بن موسی عبدان الاہوزی ، ابو بشر محمد بن احمد الدولابی ، ابو عوانۃ یعقوب بن اسحق الاسفر ائنی ، ابوبکر بن ابی داؤد ابو بکر بن عبد اللہ بن محمد بن ابی الدنیا ، ابراہیم بن حمید بن ابراہیم بن یونس عاقولی ابو حامد بن جعفر اصبہانی احمد بن معلی بن یزید دمشقی ، احمد بن محمد بن یاسین ہروی ، حسن بن صاحب الشاشی حسین بن ادریس انصاری ، عبد اللہ بن محمد بن عبد الکریم رازی ، علی بن عبد الصمد ، محمد بن مخلد دوری ، محمد بن جعفر بن مستغاض فریابی اور ابوبکر محمد بن یحیٰی اصولی ( حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ تہذیب التہذیب ج 4 صفحہ 171 ) ان کے علاوہ امام ابو عیسی ترمذی صاحب الجامع اور امام عبد الرحمن نسائی صاحب السنن کو بھی امام ابو داؤد سے شرف تلمذ حاصل ہے ۔

کلمات الثنا :
امام ابوداؤد کی علم حدیث میں بے نظیر مہارت اور ان کی عظیم خدمات پر ان کے اساتذہ ، معاصرین اور دیگر علماءنے ان کی بے حد تعریف اور تحسین کی ہے ، نیز ان کی خدا خوفی ، پاکدامنی اور عبادت اور ریاضت کی بھی لوگوں نے بے حد قدر کی ہے چنانچہ احمد بن محمد بن یاسین ہروی کہتے ہیں کہ وہ حافظ حدیث تھے اور سند حدیث اور اس کی علل کے ماہر تھے خدا سے بے حد ڈرتے تھے اور بے حد عبادت گزار تھے ، محمد بن اسحق صغانی اور ابراہیم حربی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے امام ابوداؤد کے لیے علم حدیث اس طرح سہل کردیا جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہے کو ملائم کردیا تھا اور موسی بن ہارون کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ابوداؤد کو دنیامیں خدمت حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیا تھا اور ابوحاتم بن حبان نے کہا کہ ابوداؤد علم حدیث ، علم فقہ اور تقویٰ اور خداخوفی میں دنیا والوں کے امام تھے اور ابو عبد اللہ بن مندہ نے کہا کہ جن لوگوں نے احادیث کا اخراج کیا اور حدیث معلول کو غیر معلول اور صواب کو خطا سے متمیز کیا وہ دنیا میں صرف چار شخص تھے امام بخاری ، امام مسلم اور ان کے بعد ابوداؤد اور نسائی ۔ ( حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ تہذیب التہذیب ج 4 صفحہ 172 )

حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ امام ابوداؤد عالم باعمل تھے ، حاکم نے کہا کہ وہ اپنے زمانے میں تمام اصحاب حدیث کے اما م تھے اور بعض آئمہ بیان کیا ہے کہ ابوداؤد اپنے خصائص میں امام احمد بن حنبل کے مشابہ تھے اور امام احمد اپنی سیرت میں امام و کیع کے مشابہ تھے اور وکیع سفیان کے اور سفیان، منصور کے مشابہ تھے اور منصور ابراہیم نخعی کے اور ابراہیم نخعی ، علقمہ کے مشابہ تھے اور علقمہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود کے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور ان مشائخ اور اساتذہ کے واسطوں سے امام ابوداؤد کی سیرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مشابہ تھی ۔ (حافظ شمس الدین ذہبی متوفی 748 ھ تذکرۃ الحفاظ ج 2 صفحہ 529 )

رجوع خلائق :امام ابوداؤد کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے تھے ، عقیدت مندوں کا ہر وقت ہجوم رہتا تھا ، تشنگان علوم حدیث دور دور سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی علمی پیاس بجھاتے ، معاصرین علماءآپ کی مجلس میں مختلف علمی موضوعات پر مذاکرات کرتے خدا رسیدہ اور درویش صفت بزرگ آکر آپ کی زیارت کرتے اور بسااوقات شاہان وقت بھی آکر آپ کے دروازے پر دستک دیا کرتے تھے ۔

قاضی ابو محمد احمد بن محمد بن لیث بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مشہور عارف باللہ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری امام ابوداؤد سے ملاقات کے لیے آئے جب امام ابوداؤد کو معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے حضرت سہل کو خوش آمدید کہا حضرت سہل نے کہا اے امام ذرا اپنی وہ مبارک زبان دکھائیں جس سے آپ احادیث رسول بیان کرتے ہیں تاکہ میں اس مقدس زبان کو بوسہ دوں امام ابوداؤد نے زبان منہ سے باہر نکالی اور حضرت سہل نے اس کو انتہائی عقیدت کے ساتھ بوسہ دیا۔ ( حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ تہذیب التہذیب ج 4 صفحہ 172 )

عبد اللہ بن محمد سبکی کہتے ہیں کہ مجھ سے امام ابوداؤد کے ایک خادم ابوبکر بن جابر نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ میں امام ابوداؤد کے ساتھ بغداد میں تھا ہم مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے تو کسی شخص نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے جاکر دروازہ کھولا تو دروازہ پر امیر ابو احمد موفق کھڑا ہوا تھا میں نے جاکر امام کو خبر دی انہوں نے امیر کو بلایااور پوچھا کہ اس وقت کون سی ضرورت امیر کو یہاں لائی ہے امیر نے کہا میں تین سوال لے کر آیا ہوں پوچھا کون کون سے امیر نے کہا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ یہاں سے بصرہ تشریف لے چلیں اور اس کو اپنا وطن بنالیں تاکہ وہاں زیادہ طلباءآپ سے فیض یاب ہوسکیں آپ نے پوچھا دوسرا سوال کونسا ہے امیر نے کہا دوسری درخواست ہی ہے کہ آپ میری اولاد کے لیے کتاب السنن کی روایت کریں آپ نے اس سے پھر تیسرا سوال پوچھا امیر نے کہا تیسری درخواست یہ ہے کہ میری اولاد کو باقی طلباءسے علیحدہ پڑھائیں کیونکہ خلیفہ کی اولاد کے لیے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنا مشکل ہے آپ نے فرمایا تمہاری پہلی دو خواہشیں تو پوری ہوسکتی ہیں لیکن تیسری خواہش پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ حصول علم میں عام طلبہ اور خلیفہ کی اولاد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا ، امام ابوداؤد نے بصرہ میں درس قائم کردیا جہاں پر خلیفہ کے صاحبزادے بھی عام طلباءکے ساتھ بیٹھ کر اکتساب علم کیا کرتے تھے ۔

تصانیف :
امام ابوداؤد کی زندگی طلب حدیث میں مختلف علاقوں کے سفر اور درس و تدریس کی بے پناہ مشغولیات میں گزری ہے اس کی باوجود مندرجہ ذیل تصانیف آپ سے یادگار ہیں ۔

1 ۔کتاب السنن 2 ۔ کتاب المراسیل 3 ۔کتاب المسائل 4 ۔کتاب الروعلی القدریۃ 5۔ کتاب الناسخ و المنسوخ 6۔کتاب التفرد 7۔کتاب فضائل الانصار8۔مسند امام مالک بن انس 9۔کتاب الزہد 10۔دلائل النبوۃ 11۔کتاب الدعاء12۔کتاب بدءالوحی 13۔اخبار الخوارج 14۔کتاب شریعۃ التفسیر 15۔فضائل الاعمال 16 ۔کتاب التفسیر 17۔کتاب نظم القرآن 18 ۔ کتاب فضائل القرآن 19۔کتاب البعث والنشور 20۔کتاب شریعۃ المقارئی ۔

وصال :
تہتر سال کی قابل رشک اورلائق تقلید زندگی گزار کر امام ابوداؤد 16شوال 275 ھ کو جمعہ کے دن وصال فرماگئے ( حافظ شمس الدین ذہبی متوفی 748ھ تذکرۃ الحفاظ ج 2صفحہ 593)

آپ نے وصیت کی تھی کہ حسین بن مثنی سے آپ کو غسل دلایا جائے اور اگر و ہ نہ ہوں تو حماد بن زید کی روایت کے مطابق آپ کو غسل دے دیا جائے چنانچہ آپ کی اس وصیت پر عمل کیا گیا ۔ ( حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھ تہذیب التہذیب ج 4صفحہ 173)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381635 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.