حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں
خصوصی تحریر
حضرت ابوبکرصدیقؓ جب خلیفہ منتخب ہوئے تو صبح اٹھ کر تجارت کے لئے کپڑے لے
کر بازار کی طرف روانہ ہوئے‘ راستے میں حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ ملے
اور دریافت کرنے لگے کہ کدھر کا قصد ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:بازار جا
رہا ہوں‘ ان دونوں نے فرمایا کہ آپ پر تو دربارخلافت کا بار ہے‘بازار میں
کیا کریں گے؟آپ نے فرمایا:پھر اپنے متعلقین کی پرورش کہاں سے کروں گا؟
انہوں نے کہا کہ آپ تشریف لے چلیں‘ ہم آپ کا وظیفہ مقرر کردیں گے‘آپ ان
دونوں صحابہ کرامؓ کے ساتھ تشریف لائے تو ان حضرات نے مشورے کے بعد آپ کا
معمولی خرچ کا وظیفہ مقرر کردیا‘جیسا قبل از خلافت اپنے مال سے خرچ کرتے
تھے اور سفر حج کے لئے سواری مقرر کردی اور دو چادریں عطا کردیں کہ جب ایک
پرانی ہوجائے تو دوسری لے لیں۔
خلافت کے بعد پہلا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے خلیفہ اول نے فرمایا :”اے لوگو!
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے دن ہو یا رات کبھی امار ت کی
ہوس نہیں کی ‘ نہ میرا اس طرف میلان تھا‘ میں نے خفیہ یا علانیہ کبھی اللہ
سے یہ دعا نہیں کہ کہ وہ مجھے امارت بخشے لیکن مجھے اس بات کا یقینا اندیشہ
تھا کہ کہیں(اس نازک موقع پر) کوئی فتنہ پیدا نہ ہوجائے‘حقیقت میں مجھ پر
بڑی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے جس سے عہدہ برآ ہونا اللہ کی توفیق و تائید کے
بغیر میری ملاقات سے باہر ہے ‘ میں چاہتا تھا کہ آج میری جگہ پر انسانوں
میں سے طاقت ورترین انسان ہوتا‘ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے تمہارا
امیر منتخب کر لیا گیا ہے ‘ اگر میں ٹھیک چلوں تو میری مدد کرنا‘اگر میں
غلط چلوں تو مجھے درست کردینا‘ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت‘تم میں
کمزور میرے نزدیک طاقت ور وگا‘ تاوقت یہ کہ میں توفیق الٰہی سے اس کے حقوق
نہ ادا کردوں اور تم میں سے طاقت ور میرے نزدیک کمزور ہوگا حتیٰ کہ توفیق
الٰہی سے میں اس سے وہ کچھ وصول نہ کرلوں جو اس کے ذمے واجب الادا ہے ‘کسی
قوم نے راہ خد میں جہاد ترک نہیں کیا مگر یہ کہ اللہ نے اسے ذلیل کردیا
‘اور جو قوم بے حیائی اور بدکاری کے افعال کی مرتکب ہوتی ہے وہ یقینا عذاب
الٰہی کی مستحق ہوتی ہے جب تک میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کروں تم بھی میری اطاعت کرو‘اگر میں اللہ اور اس
کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ک کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت
لازم نہیں“۔آپؓ کا نامی اسم گرامی عبداللہ‘کنیت ابوبکر‘لقب صدیق وعتیق اور
والدگرامی کا اسم مبارک ابوقحافہ عثمان اور والدہ محترمہ کا نام سلمیٰ ام
الخیر تھا۔ آپؓ کانسبی تعلق قریش کی ایک شاخ بنوتمیم سے ہے۔آپؓ کی حیات
مطہرہ میں کچھ خصائص ایسے نظر آتے ہیں کہ جو پوری ملت میں آپؓ کو امتیازی
حیثیت بخشتے ہیں۔
آپؓ کی صحابیت‘صدیقیت‘عتیقیت اور ابوبکر آپؓ کی کنیت‘پھر آپ کے صدق
وصفاء‘توکل و رضا‘آپؓ کی سخاوت و ایثار پھر حضور انور کا قرب ومعیت ہر ہر
صفت کو قرآن حکیم نے خصوصی طور پر بیان کی ہے۔
امام فخرالدین رازی رحمتہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:”اللہ تعالیٰ نے سیدنا
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا وصف بایں طور پر بیان فرمایا ہے کہ آپ صاحب
رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا آپؓ کو صاحب رسول (لصاحبہ) کہنا آپ کی کمال فضیلت
پر دلالت کرتا ہے۔
چونکہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی حضور کے ساتھ قربت ومعیت کی کیفیت بھی ایک خاص
نوعیت کی تھی جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔یہ
قرآن مجید فرقان حمید کا اعجاز ہی تو ہے کہ جس نے دو لفظوں میں قرب و معیت
کی ساری حدوں کو ذات صدیق اکبرؓ میں سمو دیا ہے اور اس انداز سے بیان کیا
ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی محال ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا”جب غار میں دو
تھے ان میں سے ہر ایک دو میں سے دوسرا تھا“۔
جب سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سیدنا صدیق
اکبرؓ بغرض تجارت یمن گئے ہوئے تھے جب آپؓ وہاں سے واپس لوٹے تو سرداران
قریش ابوجہل‘عتبہ اور شیبہ انہیں ملنے کے لئے آئے اور دوران گفتگو تازہ خبر
کے طور پر آپ کو بتایا کہ ابو طالب کے یتیم بچے محمد عبداللہ نے نبی ہونے
کا دعویٰ کردیا ہے ہم تمہاری واپسی کے منتظر تھے تاکہ اس کی روک تھام کا
کوئی پروگرام مرتب کیا جاسکے۔یہ سن کر یوں معلوم ہوا کہ گویا یہ اڑتیس سالہ
نوجوان اس خوشخبری کا پہلے ہی سے منتظر تھا۔اپنے محبوب دوست کو ملنے کے لئے
اس کے دل میں آتش اشتیاق بھڑک اٹھی سرداران قریس کو رخصت کیا خود بارگاہ
رسالت میں حاضر ہو کرکلمہ شہادت پڑھا اور دولت اسلام سے بہرہ ور ہوگیا۔نبی
پاک نے ایک موقع پر خود فرمایا میں نے جس شخص کے سامنے اسلام پیش کیا اس
میں ایک قسم کی جھجک اور تردور فکر ضرور پائی سوائے ابوبکرؓ کے کہ جس وقت
میں نے ان کی سامنے اسلام پیش کیا انہوںنے بے جھجک اسے قبول کر لیا۔ اس طرح
آزاد مردوں میں اسلام قبول کرنے کی اولیت آپ کو نصیب ہوئی۔
مکہ سے مدینہ کا سفر ہر طرح سے پرخطر اور کٹھن تھا۔دوران سفر پہلا مرحلہ
غارثور میں قیام تھا سیدنا صدیق اکبرؓ نے آپ کو اپنے کندھوں پر سوار کیا
اور پہاڑی کی چوٹی پر لے گئے اور غار کو اندر جا کر صاف کیا۔ اس پرخطر جگہ
پر صرف اور صرف سیدنا صدیق اکبرؓ کو صحبت سرکار کے انمول لمحات میسر آئے
اسی لئے رہتی دنیا تک قرآن گواہ بن کر مسلمانوں کو آپؓ کی شان کا بتاتا رہے
گا۔ ان ساعتوں کی عظمت کے سبب ہی تو آقائے دو جہاں نے حضرت عائشہؓ کے
استفسار پر بتایا کہ حضرت عمرؓ کی نیکیاں آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں
اور حضرت ابوبکرؓ کی غار ثور کی ایک رات کی نیکیاں حضرت عمرؓ کی ساری زندگی
کی نیکیوں سے بھاری ہیں۔
نبی پاک کے مدینہ تشریف آوری پر فرزندان توحید کھنچے چلے آئے اور ایک مرکز
پر جمع ہونے لگے۔ نبی پاک نے تعمیر مسجد کا حکم فرمایا اس سلسلہ میں مدینہ
کے دو یتیم بچوں کی زیر ملکیت زمین پسند فرمائی گئی جسے اگرچہ وہ اور ان کے
لواحقین بلاقیمت دینے پرمصر تھے تاہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
یتیموں کا مال بلاقیمت لینا پسند نہیں فرمایا اور اس کی قیمت ادا کرنے کا
شرف سیدنا صدیق اکبرؓ کو بخش دیا گیا۔ چونکہ قرآن نے آپ کو ”ثانی اثینن“
کہا تو یہ بے موقع و بے محل نہ کہا۔واقعی آپ حضور کے ایسے ثانی تھے کہ جب
تاجدار انبیائ نے اعلان نبوت فرمایا اور لوگوں کو دین اسلام کی نصرت و
حمایت کی طرف بلایا تو سب سے پہلے اس دعوت پر لبیک کہنے والے سیدنا ابوبکر
رضی اللہ عنہ ہی تھے۔پھر سفر ہویا حضر‘امن ہو یا جنگ‘محب و محبوب پہ ہمیشہ
”ثانی اثنین “کا ہی جلوہ ونظر آرہا ہے۔کل قیامت کے دن سب سے پہلے قبر سے
حضرت محمد عربی اٹھیں گے۔”ثانی اثنین کے جلوے حوض کوثر سے ہوتے ہوئے
دارالخلد میں داخل ہوجائیں گے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
روای ہیں”رسول اللہ نے سیدنا ابوبکرصدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ
غار میں بھی میرے ساتھی ہیں اور حوض کوثر پر بھی آپ میرے ساتھ ہی ہوں گے“۔
سیدنا ابوبکرصدیقؓ عشق مصطفی میں وہ مقام رکھتے ہیں کہ اولین وآخرین میں
کوئی بھی اس مقام تک نہ پہنچ سکا۔یہ صرف زبانی دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس بات
پر خود محبوب دو جہاں کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہے۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ
عنہ راوی ہیں کہ خود شمع مصطفوی نے پروانہ شمع مصطفوی کے بارے میں حضرت
حسان رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے حسان کیا آپ نے میرے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی
شان میں کوئی اشعار کہے ہیں۔عرض کی ہاں آقا!
حضور نے فرمایا ذرا کہو میں بھی تو سنوں۔
چنانچہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے
وَثَانِی اثنَینِ فِی الغَارِ المنِیفِ وَقَد
طَافَ العَدبِہ اذ صَاعِدنِ الجَبَلا
وَکَانَ حب رَسولِاللہِ قَد عَلِموا
مِنَ البَرِیةِ لَم یَعدِل بِہ رَجلاَ
”سیدنا ابوبکرصدیق مقدس غار ثور میں آپ کے ثانی اثنین تھے جبکہ دشمن پہاڑ
کی چوٹی پر پہنچ کر اس غار کے اردگرد گھوم رہے تھے۔دنیا جانتی ہے کہ عالم
انسانیت میں کوئی بھی عاشق محبت رسول میں آپ کے ہم پلہ نہ ہوسکا۔“
حضرت ابوجعفرؓ سے روایت ہے کہ ابوبکرصدیقؓ رسول پاک کے وزیر تھے تمام امور
میں آپ سے ان سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ابوبکر ہی اسلام میں ثانی‘غار میں
ثانی‘ بدر کی جنگ کے روز خیمہ میں ثانی اور قبرمیں ثانی ہیں سرور کائنات
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کو آپ پر ترجیح نہ دیتے تھے۔مردوں میں سب سے
پہلے اسلام بھی آپؓ نے مصحف رکھا۔قرآن مید کو سب سے پہلے جمع بھی آپؓ نے
کرایا سب سے پہلا شخص جس نے کفار قریش کے ساتھ نبی پاک کی حمایت میں جنگ
لڑی اور ضربات شدید برداشت کیں وہ بھی حضرت ابوبکر ہیں۔اسلام میں سب سے
پہلے مسجد بھی آپ نے بنائی سرکار دوعالم کی حیات میں جس کو سب سے پہلے حج
کی امامت کا شرف حاصل ہوا وہ بھی آپؓ ہی ہیں۔آپؓ سب سے پہلے خلیفہ راشد ہیں
اور سب سے پہلے شخص ہیں جو اس لقب سے پکارے گئے۔آپؓ وہ سب سے پہلے خلیفہ
ہیں جن کو اپنے والد کی زندگی میں خلافت ملی اور آپؓ سب سے پہلے خلیفہ ہیں
جس کا نفقہ رعایا نے مقرر کیا۔ سب سے پہلے بیت المال آپؓ نے قائم فرمایا سب
سے پہلے آپؓ نے جہاد اور استنباط احکام کے اصول اربعہ مقرر فرمائے۔ سب سے
پہلے دوزخ سے نجات کی خوشخبری بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ ہی
کو دی اور آپ کو عتیق کے لقب سے مشرف فرمایا۔آپؓ ہی سب سے پہلے وہ شخص ہیں
جن کو بارگاہ رسالت سے کوئی لقب عطا ہوا۔22جمادی الآخر کو آپؓ کا وصال
مبارک ہوا۔ |