غزل گو شہزاد احمد چل دئیے
ہنستے بستے شہزاد احمد بھی چل دئیے۔ شہزاد احمد کی شخصیت کے کئی پہلو تھے‘
اُن جیسی غزل کم کم شاعر کہتے ہوں گے۔ اُن ایسی پھبتی یا جُگت لگانا بھی ہر
کسی کے بس میں نہیں تھا۔ مشاعروں کے دوران شاعروں کے کلام کی ایسی ایسی فی
البدیہہ پیروڈی کہتے کہ محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔ اچھا خاصا چہکتا مسکراتا
شاعر یا ادیب شہزاد احمد کی نظر بھانپتے ہی الرٹ ہو جاتا کہ ان کی طرف سے
ایسا ایسا جملہ رسید ہوتا کہ دوسرے جملے کی تاب نہیں لائی جاسکتی تھی۔ بہت
کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ شعر و ادب اور بالخصوص غزل گوئی میں اپنی دھاک
بٹھانے والے شہزاد احمد سائنسی علوم کے ماہر تھے۔ انہیں’ادبی سائنسدان‘ کہا
جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ شہزاد احمد کی ’جملہ تکراریاں‘ ہر عمر اور ہرقماش
کے شعراءاور ادباءکے ساتھ جاری رہیں۔
کہتے ہیں گوالمنڈی میں ایک حاجی صاحب ہوتے تھے اُن کی شاعروں ادیبوں سے
گہری دوستی ہوا کرتی تھی‘ ان کی شخصیت ان کے نام ہی سے عیاں ہوجاتی تھی
انہیں حاجی........‘ کہا جاتا تھا۔ ان کا پورا نام نہ تو کالم میں لکھا
جاسکتا ہے اور نہ ہی نشر کیا جاسکتا ہے یوں کہئے ان کا نام ’حاجی حلال دا‘
کا اُلٹ تھا۔ حسب معمول حاجی چنے نان اور کوفتوں کی ریڑھی لگائے گوالمنڈی
چوک میں کھڑے تھے شام کا وقت تھا شہزاد احمد اس طرف سے گزرتے ہوئے ایک لمحے
کے لئے رکے حاجی سے علیک سلیک ہوئی تو اس نے فوراً کوفتوں کی ایک پلیٹ بنا
کر پیش کردی اب شہزاد احمد تکلف سے کام لے رہے تھے کہ خوامخواہ بے چارے کے
پیسے مارے جائیں گے لیکن حاجی بضد تھا کہ آپ ضرور کھائیں۔ جب شہزاد احمد نے
دو تین مرتبہ منع کیا تو حاجی نے کہا ”شہزاد صاحب کھا لو ہون شام دا ویلا
اے میں وی جو کچھ بچ گیا کتیاں نوں ہی پانا اے“ (شہزاد صاحب کھالیں میں نے
بھی جو کچھ بچ گیا ہے کتوں ہی کو ڈالنا ہے)۔
لاہور میں اُن کی محفلیں اٹینڈ کرنے کا موقع ملتا رہا۔ 2000 میں راولپنڈی
شفٹ ہوا تو ملاقاتیں کم ہوگئیں اُن سے آخری ملاقات 2008 میں چونڈہ میں کل
پاکستان مشاعرے کے موقع پر ہوئی۔ راولپنڈی سے انعام الحق جاوید‘ سرفراز
شاہد‘ بریگیڈئر عتیق الرحمن (جن کا تعلق بھی چونڈہ سے ہے) اور راقم مشاعرے
میں شرکت کے لئے گئے تھے۔ مشاعرے سے قبل مجھے دیکھتے ہی کہا ”کہیہ حال اے
وئی تیرا“ (کیسے ہو بھئی)۔ ہمارے دوست شاعر اویس باجوہ اور پرویز راجپوت کے
ساتھ ان کی اچھی دوستی تھی۔ اتفاق سے اویس باجوہ کا گھرانہ بھی چونڈہ ہی سے
تعلق رکھتا ہے۔ چونڈہ علمی اور ادبی حوالے سے ایک خصوصی اہمیت اختیار کرتا
جارہا ہے۔ بہرکیف چونڈہ میں اُن سے ملاقات ہوئی تو واضح طور پر دکھائی دے
رہا تھا کہ وہ کافی کمزور ہوچکے ہیں۔ ِسلم سمارٹ تو وہ ہمیشہ ہی سے تھے۔
بہر طور عمر کے ساتھ ساتھ کمزور ہونا تو فطری سا امر ہے۔
|
|
جناب شہزاد احمد کی رحلت ہوئی تو سب سے پہلے لاہور سے برادرم ناصر بشیر کا
ایس ایم ایس موصول ہوا۔ این بی این ایس (ناصر بشیر نیوز سروس) کے طفیل شعرو
ادب سے وابستہ برادری ایک دوسرے کی خیر خبر سے بہرہ ور رہتی ہے۔ لاہور ہی
سے برادرم کاظم جعفری بھی اپنے ایس ایم ایس کے زریعے دوستوں کوادب اور
بالخصوص پاک ٹی ہاﺅس سے متعلق ڈویلپمنٹ سے دوستوں کو مطلع رکھتے ہیں۔
بلاشبہ آج کے اس مصروف دور میںیہ ایک بہت بڑی خدمت ہے۔
شہزاد احمد مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ اِن دنوں وہ مجلس ترقی ادب کے
ڈائریکٹر تھے ۔ وہ کچھ عرصہ اُردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ جب
نوے کی دھائی میں جناب اشفاق احمد کو اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل
مقرر کیا گیا تو شہزاد احمد بھی اس کے امیدوار تھے اور شاید کافی پُرامید
بھی تھے۔ ظاہر ہے اشفاق صاحب کا پروفائل اور مقام ایسا تھا کہ انہیں اس
عہدے پر تعینات کردیا گیا۔ کسی جگہ اشفاق احمد صاحب کی روحانیت اور اﷲ لوکی
کا ذکر ہورہا تھا وہاں شہزاد احمد سے نہ رہا گیا کہنے لگے روحانیت تو اپنی
جگہ 20 گریڈ کی نوکری اور سٹاف کار کا ذکر کیوں نہیں کرتے۔ اس پر باقی
لوگوں نے خیر کوئی کمنٹ کرنے سے گریز کیا۔ اُن کے لئے جناب اشفاق احمد اور
شہزاد احمد دونوں اپنی اپنی جگہ محترم اور قابل عزت تھے۔ اشفاق صاحب کے کچھ
سال بعد شہزاد احمد بھی اردو سائنس بورڈ کےڈائریکٹر جنرل رہے۔
شہزاد احمد کا اعتماد اور اُن کی شاعری پر دسترس اچھے خاصے کُھنگ قسم کے
شاعر بھی ان کے سامنے شعر سنانے سے گریزاں ہوتے کہ ان کے اشعار پر ایسی
بروقت ’پھبتی‘ کستے کہ شاعر منہ چھپاتا پھرتا۔ عطاءالحق قاسمی لکھتے ہیں کہ
شہزاد احمد صرف دوسروں کی ہی نہیں اپنی غزلوں کی پیروڈی بھی بہت دیدہ دلیری
سے کیا کرتے تھے۔
گویا شہزاد احمد خوش رہنے اور خوش رکھنے والے شخص تھے۔ انہوں نے زندگی اپنے
انداز سے گزاری ہر وقت تیا رشیار اور صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس شہزاد ہر
محفل کی جان ہوا کرتے تھے۔ لاہور چھاﺅنی صدر بازار میں واقع آفیسرز کالونی
میں کالے گیٹ (بعد میں اگر گیٹ کا پینٹ کسی اور رنگ کا ہوگیا ہو تو اس کی
ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں کی جاسکتی) والا گھر اُن کا مسکن تھا۔ اب ان کی
یادیں رہ گئیں‘ اس گھر میں بھی اور دوستوں کے دلوں میں بھی۔ جب تک اُن کے
احباب زندہ ہیں لوگ انہیں یاد کرتے رہیں گے۔ ان کے بعد وہ اپنے کام اور
تخلیقات کے حوالے سے زندہ رہیں گے کہ اصل زندگی شاید دنیا سے رخصت ہونے کے
بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ شہزاد احمد بہرکیف ایک یاد رہ جانے والی شخصیت تھے ان
کی ایک غزل
ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکیر مٹا دیجئے مجھے
ہر روز مجھ سے تازہ شکائت ہے آپ کو
میں کیا ہوں‘ ایک بار بتا دیجئے مجھے
میرے سوا بھی ہے کوئی موضوع گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دکھا دیجئے مجھے
میں کیا ہوں کس جگہ ہوں‘ مجھے کچھ خبر نہیں
ہیں آپ کتنی دور صدا دیجئے مجھے
کی میں نے اپنے زخم کی تشہیر جا بجا
میں مانتا ہوں جرم‘ سزا دیجئے مجھے
شب بھر کِرن کِرن کو ترسنے سے فائدہ؟
ہے تیرگی تو آگ لگا دیجئے مجھے
شہزاد یوں تو شعلہ جاں سرد ہوچکا
لیکن سلگ اُٹھوں تو ہوا دیجئے مجھے |