جیب گرم

2012میں امریکہ بہادر نے پاکستانی عوام پر اتنے ڈرون حملے کرناپسند نہیں کیے ہونگے جتنے پٹرول بم عوامی جمہوری حکومت نے پاکستان کی عوام پر گرائے۔ پٹرول بم کی شدت اتنی زیادہ ہوتی کہ عوام کی سوچ و سمجھ کام کرنا بند کردیتی ہے اور اشیاءخوردنوش کی قیمتوں کو موقع میسر آجاتا کہ وہ جلد از جلد ساتویںآسمان کوچھولے؟ پتہ نہیںبعد میں کوئی آمر تخت نشین ہوکر پٹرول بم گرانا بند کردے؟

پٹرول بم کا زیادہ تر اثر عوامی ٹرانسپورٹ پر پڑتاہے جو بیشکCNG کی سہولیات سے لطف انداز ہورہی ہے، مگر عوام کو بد قسمتی سے کرایہ پٹرول کی قیمتوں کے حساب سے ادا کرنا پڑتا ہے، پاکستانی حکومتوں کی طرح ہی عوام بھی پٹرول کی قیمتیںبڑھنے پر نرخ نامہ میں تبدیلی لے آتے ہیں جبکہ کمی پر اپنے کان بند کرلیتے ہیں۔

دنیا بھر میں ٹریفک بحال رکھنے اور عوامی سہولیات کیلیے ہر ملک میں ٹریفک پولیس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں،قارئیں دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ و مہذب ریاست کا دورہ کرلےںآپ لازمی طور پر ٹریفک پولیس کے کردار کو دیکھ کر حیران و پریشان ہوجائیں گے کہ ٹریفک پولیس کی غیرموجودگی میں بھی ڈرائیور قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں کرتا اگر آپ کو متحدہ عرب امارات کے دورے پر جانے کا اتفاق ہو۔۔۔۔ جیسے ہی ۔۔۔۔متحدہ عرب امارات کی حدود میں داخل ہوں۔۔۔ آسمان سے ہر جگہ گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آئےںگی۔۔۔ائیرپورٹ سے باہرنکلتے ہی ۔۔۔۔گاڑیوں کی آوازیں سنائی دیںگی۔کیونکہ آپ جمہوری ملک سے بادشاہی والے ملک آئے ہوں گے اس لیے سوچےں گے ۔۔۔۔یہاں سڑک عبور کرنا ۔۔۔جا ن خطرے میں ڈالنے کے مساوی ہوگا۔۔۔مگر۔۔۔ایسا ہرگز نہیں۔ دبئی، شارجہ اور ابوظہبی وغیرہ کاٹریفک سسٹم شماردنیا کے بہترین ملکوں میں ہوتا ہے ۔ وہاں جگہ جگہ راہ گیروں کیلیے زیبرا کراسنگ ۔۔۔۔اشارے۔۔موجود ہیں۔ جیسے ہی آپ نے زیبراکراسنگ پر قدم رکھا۔۔ بڑی سے بڑی گاڑی یا اعلیٰ عہدہ کا حامل شخص اسی لمحہ بریک لگا کر ہاتھ سے آپ کو گزر جانے کا اشارہ دے گا۔ جبکہ دوسری طرف عوام بھی زیبراکراسنگ کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے سڑک عبور کرنا جرم تصور کرتے ہیں-

قارئین اب آپ پاکستانی ٹریفک سسٹم کے حالات دیکھئے جس کی شہرت کی جھنڈیاں پوری دنیا میں لہرائی جاتی ہیں۔ ہرچوک ۔۔اہم مقامات۔۔پر سفیدشرٹ و بلیو پینٹ میں ملبوس ٹریفک پولیس کے شیرجوان نظر آتے ہیں۔ ان کی کارکردگی کی کچھ آنکھوں دیکھے حالات آپ قارئین کے سامنے پیش خدمت ہیں۔ گذشتہ دنوں سیالکوٹ بس اسٹینڈ کے سامنے 2 سٹار کے حامل افیسرکی چاند گاڑی کے ڈرائیور کے ساتھ ہاتھاپائی ہورہی تھی انکوائیری کرنے پر پتہ چلاکہ دونوں کے درمیان تجارتی (رشوت) معاملات کے دوران پولیس افیسر نے ڈرائیور کو نشئی کہہ دیا تو صاحب MIND کرگئے۔ اور پولیس افیسرسے ہاتھا پائی شروع کردی۔ یقینی عمل ہے جب ہم اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے کی بجائے اپنی جیب گرم کرنے میں لگے ہوں تو غریب ۔لاچار۔ جمہوری مسائل میں پھنسی ہوئی عوام افیسران سے لڑائی جھگڑا ہی کرسکتے ہیں؟

مزید برآں سیالکوٹ کے سبلائم چوک پر اشارے تو موجود ہیں لیکن لوڈشیڈنگ کی حکومت آنے سے پہلے ہی ناراض ہوگئے ، اور کام کرنا بند کردیا، کسی پولیس افیسر کے ذہن میں خیال نہیں آیا کہ ان کو بھی منایا جائے اور سیالکوٹ کی عوام کو سہولت سے فوائد میسر آسکیں۔ سبلائم چوک پر ڈیوٹی پر موجودافیسران کو سارا دن تیز ڈھوپ میں کھڑا رہنا پڑتا ، اور پانی کی سہولت تو صرف اعلیٰ عہدوں کے حامل افیسران کیلیے ہیں ۔ اس لیے ان کو مشروبات کی مدد درکار ہوتی ہے، جس کا بل ادا کرنے کیلیے اﷲنے ہمیں پیدا کیا ہوا ہے۔

راقم کی حکومت پنجاب و سیالکوٹ سے اپیل ہے کہ اگر آپ ٹریفک سسٹم کی بہتری کیلیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کرسکتے تو کوئی بات نہیں۔۔۔مگر۔۔ اس کو واپس اس دور میں لے جائیں جہاں عوام چالان کروانا پسند کرتے تھے مگر پولیس افیسران کی جیب میں ایک روپیہ نہیں ڈالتے تھے۔ اس وقت سیالکوٹ کی کسی ٹرانسپورٹ میں کرایہ نامہ موجود نہیں ۔۔تمباکو نوشی کے ساتھ ساتھ منشیات کا استعمال عام ۔۔مسافروں کے ساتھ لڑائی جھگڑا معمول بن کر رہ گئے ہیں۔۔ٹائم کی پابندی صرف الفاظ کی حد تک محدود ہے ۔۔اوورلوڈنگ (خصوصاًسیالکوٹ سے گوجرانوالہ جانے والی ٹیوٹا وینوںمیں16افراد کے بیٹھے کی جگہ پر 26مسافروں کو بھیڑبکرےوںکی طرح ٹھونس دیتے ہیں فرنٹ سیٹ پر بھی تین تین خواتین کو بٹھایا جا یا رہا ہے اگرکوئی مسافر احتجاج کرے تو گاڑیوں کے کنڈیکٹرانتہائی بدتمیزی سے پیش آتے ہیںاور راستے میں ہی اسے اتارکر ذلیل وخوار کرتے ہیں)۔۔۔اوورچارجنگ۔۔اوورسپیڈ تو ٹرانسپورٹروں کےلےے تو کوئی جرم ہی نہیں ہے۔گاڑیوں کے مالکان کہتے ہیں ہم کیوں قانون کی پابندی کریں ہم ہر ماہ اعلیٰ حکام کو بھاری نزرانے اور منتھلیاں دیتے ہیں۔ قارئین یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے عوام ان ٹرانسپورٹرواں کی من مانیاں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔محترم جناب خادم اعلیٰ صاحب میٹروبس سے فارغ ہو کرضلع سیالکوٹ کی عوام کی طرف بھی ایک نظر ڈالنا۔
Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 81358 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.