کیا لکھوں، کہاں سے شروع کروں ،کیسے
شروع کروں؟ یہ سب سوال ہے جو مجھے پریشان کئے دیتا ہے ، پھر بھی ہم تو ان
لوگوں میں سے ہیں جو اپنے لکھاری ہونے کے فن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لکھ کر
اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں ، اس واقعہ کو ظلم کہیں یا کوئی اور نام
دیا جائے........سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ظلم کا لفظ آج کے واقعہ کیلئے
بہت حقیر ہے۔ بہرحال کوشش کرتا ہوں کہ کچھ تحریر کر سکوں کیونکہ اس وقت تو
راقم خود بہت رنجیدہ ہے کہ یہ کیوں ہوا، کیسے ہوا، اور کس لئے
ہوا؟؟؟پاکستان کی نامور سپوت جس نے سوات جیسے شورش زدہ علاقے میں لڑکیوں کے
اسکولوں کو تباہ کرنے خلاف آواز اٹھائی اور یہی اس کی غلطی بن گئی -
آج میڈیا کے مطابق ملالہ جب اسکول وین میں گھر کی جانب رواں دواں تھی تو
گلدہ کے مقام پر درندہ صفت نامعلوم افراد نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی
، اور یوں سرمایہ پاکستان ملالہ لہو لہان ہوکر ہسپتال پہنچ کئی جہاں
ڈاکٹروں کے مطابق اسے ایک گولی لگی ہے جو سَر میں پویست ہے جو کہ خطرناک
ہے، اس کی Criticalحالت کی وجہ سے فوری آپریشن رات کے دو بجے سے صبح کے
پانچ بجے تک کیا گیا ہے مگر ابھی نیم بے ہوشی برقرار ہے ،یوں ڈاکٹرز پُر
امید ہیں کہ وہ خطرے سے باہر ہے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔اور گلی مکئی کو
خدا تعالیٰ لمبی عمر عطا فرمائے (آمین)
COME BACK MALALA: THE WHOLE NATION ARE PRAYING FOR YOU
کم عمری میں ہی ستارہ جرات حاصل کرنے والی ملالہ پر حملہ میں زخمی ہو گئی
جبکہ اس کے کارنامے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ
دنیا بھر میں جس ملالہ کے چرچے ہیں اسے اپنے ہی وطن میں گولیاں ماری گئیں،
اس کاروائی پر ہم وطن افسوس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ ہالینڈ کی
کڈز رائٹس کی طرف سے نامزد پانچ بچوں میں ملالہ واحد پاکستانی طالبہ ہے جسے
ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا۔ اس ذہین طالبہ کی سوات میں امن کیلئے کرانقدر
خدمات ہیں۔
ڈسٹرکٹ سوات ، مینگورا ٹاﺅن سنہ انیس سو اٹھانوے میں پیدا ہونے والی یہ
معصوم بچی ملالہ یوسف زئی کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ملالہ نے سوات
میں جاری ناانصافیوں کے خلاف اپنی ڈائری ”گل مکئی “ کے نام سے maintainکرنا
شروع کر دیا تھا اور دو ہزار نو سے وہ بی بی سی کے ادراک سے اس نے بہت سارے
رازوں کو یکجا کر دیا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر ڈائری لکھنا جس میں روز انہ
پیش آنے والے واقعات کا لفظوں میں ڈھالنا کوئی آسان کام نہیں۔ پھر بھی اس
بچی نے یہ کام کر دکھایا۔
اس معصوم سی بچی نے اپنے کارناموں کی بدولت دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب
مبذول کروائی اور دسمبر کی انیس تاریخ سنہ 2011ءکو ملالہ نے پہلا نیشنل پیس
ایوارڈ برائے یوتھ حاصل کیا جسے پاکستان کے وزیرِاعظم جناب یوسف رضا گیلانی
نے دیا۔اس کے علاوہ انہوں نے پانچ لاکھ روپئے دینے کا بھی اعلان کیا۔ ملالہ
کو بہت جلد ہی انٹر نیشنل پیس ایوارڈ کیلئے بھی نامزد کر دیا گیا ۔اور یہ
ایوارڈ ملالہ کو لڑکیوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے پر دیا گیا ہے۔ ملالہ نے
گل مکئی بننے کا اس وقت فیصلہ کیا جب اس کے اپنے علاقے میں تقریباً600
اسکولوں کو بند کرنے کا کہا گیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ تمام ظلم و ستم اس
علاقے میں جاری تھا جو خواتین، اور بچیوں کیلئے ناقابلِ قبول بھی تھا۔ یوں
اس کمسن بچی نے اپنے امن پسند ہونے کا ثبوت دیا اور خاموشی سے ڈائری لکھتی
رہی اور یہ ڈائری ملالہ نہیں بلکہ ” گل مکئی “ کے نام سے احنافِ عالم میں
بتدریج شائع ہوتا رہا۔
سوات میں بچیوں کی تعلیم کے لیے گرانقدر خدمات فراہم کرنے والی اور پیس
ایوارڈ (بین الاقوامی)حاصل کرنے والی کمسن طالبہ ملالہ نے ایک موقعے پر یہ
کہا ہے کہ اسے سیاست میں بہت زیادہ دلچسپی ہے اور میں بڑی ہوکر اپنی سیاسی
پارٹی تشکیل دوں گی۔اور ملک و قوم کی خدمت کروں گی۔پچھلے دنوں ملالہ سندھ
اسمبلی میں بھی تشریف لا چکی ہے اور اجلاس کی کاروائی سے بھی کافی محظوظ ہو
ئی ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایسی سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی
جڑیں پورے پاکستان میں ہونگی، اور اس کی پارٹی میں پڑھے لکھے لوگ ہونگے۔آپ
کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ سندھ اسمبلی نے ملالہ یوسف زئی کو خراجِ تحسین پیش
کرنے کے حوالے سے ایک قرار داد بھی منظور کر چکی ہے، وزیرِ تعلیم سندھ نے
اس موقعے پر یہ اعلان بھی کیا کہ کراچی کے مشن روڈ پر واقع گورنمنٹ گرلز
اسکول کو ملالہ کے نام سے منسوب کیے جانے کا نوٹیفیکیشن بھی ملالہ کے حوالے
کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے یہ خراجِ تحسین بھی ملالہ کو پیش کیا کہ جن
علاقوں میں اسکولوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہو، وہاں ملالہ نے بچیوں کی
تعلیم و تربیت کے لیے بہت کام کیا ہے جو کہ اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان کی حسین ترین وادی سوات میں عروجِ ظلم کے وقت بی بی سی اردو سروس
کیلئے گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھنے والی ملالہ آج زندگی اور موت کی کشمکش
میں مبتلا ہے۔ یہ گل مکئی اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہے مگر آج موت و زیست کی
دہلیز پر کھڑی ہے۔ تمام طبقوں کی جانب سے مذمتی بیان اور اس کی درازی ¿ عمر
کیلئے دعائیں دی جا رہی ہیں۔ ملک کے اربابِ اختیار کی طرف سے اسے بیرونِ
ملک علاج کیلئے بھیجنے کی سلائیڈ تمام میڈیا چینلز پر چل رہی ہیں۔ لیکن اس
پر عمل درآمد کب ہوگا اس کا کسی کو علم نہیں، امیدِ قوی ہے کہ فوری طور پر
گل مکئی کو بیرونِ ملک علاج کی سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔
یہ بات بھی حقائق پر مبنی ہے کہ ملالہ کی ڈائری نے ایسا تہلکہ مچایا کہ اس
ڈائری کے اوراق تو ذرائع ابلاغ میں باقاعدگی سے شائع ہونے لگی ، مگر ایک
اور قابلِ فخر بات یہ ہے کہ ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے
بھی دستاویزی فلمیں بنائی جس میں انہوں نے کھل کر ظلم و ستم اور تعلیم پر
پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔
مجھ سمیت تمام اہلِ وطن کی یہ دعا ہے کہ ملالہ جلد صحتیاب ہوکر اپنے گھر کو
لوٹے اور پھر سے اسی
جوش و جذبے کے ساتھ اپنا کام انجام دے تاکہ آنے والے وقتوں میںاس کے کام کی
نسبت کو دیکھتے ہوئے کئی اورملالہ پیدا ہو سکیں، اور پاکستان اور
پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر سکے۔ ملالہ سے گل مکئی اور پھر ملالہ کا
سفر ابھی جاری و ساری ہے اور خدائے بزرگ و برتر سے یہی دعا ہے کہ ملالہ جلد
از جلد صحت یاب ہو جائے۔ ویسے بھی ہمارا ایمان ہے کہ ہم مسلمان صرف اور صرف
اللہ ہی سے دعا مانگتے ہیں ، تو مانگیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کبھی پُر خلوص
دعاﺅوں کو رَد نہیں کرتا۔
زندگی گزر رہی ہے امتحانوں کے دور سے
ایک زخم ابھی بھرتا نہیں دوسرا تیار ہوتا ہے |