مفتی محمد شفیع صاحب کی ایک کتاب
ہاتھ لگی جسے پڑھنے کے دوران ایک نہایت اہم مسئلہ زیرنظر آیا تو مناسب
سمجھا کہ یہ پیغام اپنی قوم تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ
اس وقت وطن عزیز کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ووٹ بڑھانے
کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور
یہی وہ وقت ہے ، جب اس قوم کو اپنے اور ملک کے مستقبل کے لیے ایک صحیح
فیصلہ کرنا چاہیے جس کے لیے درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہی نہیںبلکہ
عین فرض ہے۔
انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی
ہے۔ جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور جھوٹ بولنابھی حرام ہے، اس میں محض ایک
سیاسی ہارجیت اور دنیا کا کھیل سمجھنابہت بڑی غلطی ہے، آپ جس امیدوار کو
ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے، علم و
عمل اور دیانتداری کی روح سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر
ہے۔ جس کام کیلیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس
سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
۱): آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ
اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدامات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی
عائد ہوگی، آپ بھی اس کے عذاب یا ثواب میں شریک ہونگے۔
۲): اس معاملہ میں یہ بات خاص طورپر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں
کوئی غلطی ہو جائے تو اِس کا اثر شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب و عذاب بھی
محدود، جبکہ قومی اور ملکی معاملات سے تو پوری قوم متاثر ہوتی ہے ۔ اس کا
ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لیے
ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔
۳): سچی شہادت کا چھپانا ازروئے قرآن حرام ہے۔ اس لیے آپ کے حلقہ انتخاب
میں اگر کوئی صحیح نظریہ کا حامل و دیانت دارنمائندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ
دینے میں کوتاہی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
۴): جو اُمیدوار اِسلامی نظام کے خلاف کوئی عقیدہ رکھتا ہے اِس کو ووٹ دینا
ایک جھوٹی شہادت ہے،جو گناہ کبیرہ ہے۔
۵): ووٹ کو پیسوں کے معاوضہ میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں
کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا
دین قربان کردیناخواہ کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو کوئی دانشمندی
نہیں ہوسکتی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جودوسروں کی
دنیا کی کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (جواہر
الفقہ ج۲، ص 300 سے 301) |