شہر مالیگاؤں کے موقرروزنامہ
اخبار "شامنامہ" کی 21 جولائی 2007ء جمعرات کی اشاعت میں 1857ء کی جنگ
آزادی سے متعلق محترم ڈاکٹر عبدالعزیزعرفان (اورنگ آباد) کا ایک معلومات
افزا مضمون باصرہ نوازہوا ، موصوف نے علماے کرام مفتی صدرالدین آزردہ،
مولوی عبدالقادر ، قاضی فیض اللہ دہلوی، ڈاکٹر مولوی نذیر خان اکبر آبادی،
سید مبارک شاہ رام پوری وغیرہم کی قربانیوں کا تذکرہ کیااور ن کے کارناموں
کو بھی اجمالاًبیان کیا ہے۔ اس قسم کی معلوماتی تحریریں منظر عام پر آتی
رہنا چاہئیں تاکہ نسل نو اپنے اَسلاف کی قربانیوں اورہندوستان کی آزادی سے
متعلق اپنے بزرگوں کی جد و جہد اورکوششوں سےآگاہ ہوتے رہیں۔ ڈاکٹر موصوف نے
اپنے مذکورہ مضمون میں جہاں بہرت سی مفید اورکارآمد باتوں کا ذکر کیا ہے
اور مبنی بر حقایق باتیں سپردِ قرطاس کی ہیں وہیں علامہ فضل حق خیرآبادی
رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں انھوں نے ایک ایسی بات کہی ہے جس کا صداقت و
حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں بل کہ وہ صریح جھوٹ پر مبنی ہے ، ڈاکٹر موصوف
لکھتے ہیں کہ :" مولانا فضل حق خیرآباد 1857ء کی تحریک آزادی میں بزرگانِ
دیوبند میں شامل تھے جنھیں انڈومان بھیجا گیاتھا۔"
ڈاکٹر موصوف کی اس تحریری کو پڑھ کر ہماری طرح بہت سارے افراد ورطۂ حیرت
میں ڈوب گئےہوں گے کہ یہ کیسا جھوٹ بولا جارہا ہے ۔ اب تک تو ہم نے علامہ
فضل حق خیرآبادی کو اکابر علماے دیوبند مین تو کجا ان کے مخالف ہی کی حیثیت
سے جانا اور پہچانا ہے اور اس دعوے کی مبنی بر حقایق دلیلیں بھی ہماری
نظرون کے سامنے ہیں ۔ اگر ڈاکٹر صاحب کے پاس اس قسم کا کوئی ٹھوس اور پختہ
ثبوت ہو کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کا شمار علماے دیوبند میں ہوتا ہے تو وہ
پیش کریں ۔ جہاں تک حقایق کامعاملہ ہے تو تاریخ کا ہرطالب علم یہ جانتا ہے
کہ علامہ کا انتقال 12 صفر المظفر 1278ھ بمطابق 1861ء کو ہوا ۔(باغی
ہندوستان صفحہ ۲۲۷) اور دارالعلوم دیوبند کی بنیاد علامہ کی وفات کے 5 سال
بعد ۱۵ محرم الحرام 1283ھ /مئی 1866ء کو رکھی گئی (مولانا محمد احسن
نانوتوی صفحہ ۱۸۹) ۔
یہ تو خیر سنوات کے اعتبار سے دیوبند کاقیام اور علامہ کی وفات کی بات ہوئی
۔ دوسری بات یہ کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کے اور علماے دیوبند کے پیشواوں
مثلاً مولوی محمد اسماعیل دہلوی ، سید احمدراے بریلوی ، مولوی احس نانوتوی
وغیرہم کے درمیان عقائد کے معاملے میں بھی سخت ترین اختلافات تھے۔ علامہ نے
امتناع النظیر ، تحقیق الفتویٰ جیسی کتابوں میں دیوبندی علما کے ان اکابر
کو ان کے باطل عقائد پر شریعت مطہرہ کی روشنی میں تکفیر تک فرمائی ہے۔ چہ
جائیکہ وہ خود علماے دیوبند میں شامل تھے یا ان کا شمار علماے دیوبند کے
بزرگوں میں ہوتا تھا ---- یا للعجب!!!----ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان صاحب کو
ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی سے متعلق قلم اٹھانے سے
پہلےحقایق کو تلاش کرلیا ہوتا تو اس قسم کی بے سروپا تحریر آپ کے قلم سے
نہیں نکلتی۔ چلتے چلتے 1857ء کی جنگ آزادی کی صحیح اورع حقیقی تصویر سامنے
لانے والی کتابوں کے نام درج کیے جاتے ہیں تاکہ علامہ فضل حق خیرآبادی،
مفتی کفایت علی کافی ، مفتی صدرالدین آزردہ ، مفتی عنایت احمدکاکوروی، نواب
رحمت اللہ خاں روہیلہ، مفتی رضا علی خاں بریلوی، مولوی عبدالقادر قاضی فیض
اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی ، ڈاکٹر مولوی وزیر خان اکبرآبادی
،اور سید مبارک شاہ رام پوری جیسے اور بھی دیگر علامہ فضل حق خیرآبادی کے
احباب و انصار کی جنگ آزادی 1857ء سے متعلق مساعیِ جمیلہ کے ساتھ ساتھ ان
کے اعتقادات و نظریات سے بھی آگاہی ہوجائے گی اور آپ کا موجودہ تصور کہ
علامہ فضل حق خیرآبادی علماے دیوبند میں شامل تھے ، یقیناً تارِ عنکبوت کی
طرح بکھر کر رہ جائے گا۔
کتابوں کے نام : باغی ہندوستان ، فضل حق اور سن ستاون، غداران وطن کی کہانی
حقایق کی زبانی، امتیاز حق و باطل، ننگ دین ننگ وطن،قائدین تحریک آزادی،
1857ء کے فراموش کردہ مجاہدین ، وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔
مشمولہ : ڈیلی شامنامہ، 28جون 2007ء بمطابق 12جمادی الآخر 1428ھ بروز
جمعرات |